میں اکمل شہزاد گھمن کی کہانیاں پڑھ تھوڑی رہا ہوں، میں تو لفظ لفظ خود ان میں جی رہا ہوں! ’’پنجرے وچ آہلنا‘‘ کی چھایا تلے پنجابی کہانیوں کا یہ پراگا سامنے ہے اور میں جی رہا ہوں لڑک پن سے جوانی کے عبور اور اس سے جڑی حقیقتوں میں، گاؤں سے شہریا دوسرے ملک کی مہاجرت میں۔ میں گواہ ہوں محبتوں کو شکار کرتی اور سادہ دلوں پرخوف کے بل بُوتے پر حکومت کرتی خون آشام دہشت گردی کا، رسموں اور عقیدوں میں چھپی منافقت کا، معاشرت کے اطوار بدلنے کا۔ اور ہاں یہ میں ہی تو ہوں جو امریکا کی ٹھنڈی ہواؤں میں وطن کی لُو کا طلبگار ہوتا ہوں! میری ان کہانیوں میں موجودگی کا باعث اکمل گھمن کی منظرنگاری ہے جو نہ صرف بصری حواس کو جگاتی ہے بلکہ قاری کو جذباتی سطح پر جھنجھوڑ دیتی ہے۔ چاہے وہ گاؤں کے دھندلے رستے ہوں یا یورپ کی ٹھنڈی شامیں، مصنف ہر مقام اور ہر کیفیت کو اس مہارت سے بیان کرتے ہیں کہ قاری خود کو اس فضا میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے۔ انکی تحریر میں منظر صرف ایک پس منظر نہیں بلکہ کہانی کے تانے بانے کا لازمی جزو ہے، جو کرداروں کے جذبات اور اعمال کو اور زیادہ بامعنی بنا دیتا ہے۔پہلی کتاب،ایہہ کہانی نئیں، کے بعد اکمل نے23برس لئے نئی کتاب لانے میں۔ پنجرے وچ آہلنا محض کہانیوں کامجموعہ نہیں، بلکہ ایک فکری، جذباتی اور تہذیبی تجربہ ہے جو انسانی نفسیات، مہاجرت، سماجی بیگانگی اور تہذیبی بےوطنی جیسے موضوعات کو نہایت سادگی مگر تہہ داری سے بیان کرتی ہے۔ صحافت، تحقیق اور ادب میں ایک معتبر نام ، اکمل اس مجموعے میں کہانی کو صرف واقعہ نہیں بلکہ احساس اور شعور کی سطح پر پیش کرتے ہیں۔ انکا انداز سادہ مگر بلیغ ہے، اور وہ بغیر خطبہ دیے قاری کو خود سے سوال کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اکمل گھمن کی کہانیوں میں کردار، فضا، اور پلاٹ ایک دوسرے میں گندھے ہوتے ہیں۔ وہ کردار کو سماجی سیاق و سباق میں بساتے ہیں، اور اسکی نفسیاتی پیچیدگیوں کو بھی پوری حساسیت سے برتتے ہیں۔انکے کردار محض کہانی کے اوزار نہیں بلکہ مکمل انسان ہیں جو اپنے تضادات، کمزوریوں اور خوابوں کیساتھ قاری کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف سماجی حقیقتوں کے نمائندہ ہوتے ہیں بلکہ قاری کے اندر چھپے سوالوں اور احساسات کا عکس بھی بن جاتے ہیں۔ ان کرداروں میں نفسیاتی گہرائی ہے، جیسے ’’کالھ وچ لکھی ہوئی کہانی‘‘ کے نوجوان یا غیرت میں ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے لوگ، جو ہم سب کے معاشرے کا سچ بولتے ہیں۔ کالھ وچ لکھی ہوئی کہا نی میں نوجوانی کا جوش، جنس اور طاقت کا کھیل سب ایک ایسی حقیقت بن کر ابھرتے ہیں جس سے ہم روزمرہ کی زندگی میں نظریں چراتے ہیں۔ اسی طرح غیرت میںہجوم کے انصاف کے تحت بےدردی سے ہلاکت، سماجی منافقت کو بےنقاب کرتی ہے۔ اکمل گھمن کی یہ کتاب پنجابی کہانی کو ایک نئی فکری جہت دیتی ہے۔ یہاں کہانی صرف بیانیہ نہیں بلکہ تجربہ ہےاور استعارے کسی ایک سطح پر محدود نہیں۔ فاختہ اور کبوتر، پرندے اور پنجرہ، کوڈیاں والا سب کچھ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اصل قید کیا ہے؟ اور اصل آزادی کہاں ہے؟ وہ پنجابی زبان کو نہ صرف ایک بیانیہ ذریعہ سمجھتے ہیں بلکہ اسے فکری اور علامتی اظہار کا ایک مؤثر وسیلہ بھی بنا دیتے ہیں۔اکمل شہزاد گھمن کی زبان سادہ مگر تہہ دار، اور اسلوب پراثر اوربراہ راست بھی ہے اور علامتی بھی۔ وہ غیر ضروری لفاظی سے پرہیز کرتے ہیں، لیکن انکی سادگی میں ایسی گہرائی ہے کہ ہر جملہ قاری کے دل میں دیر تک گونجتا ہے کیونکہ ہر جملہ، ہر مکالمہ اپنے اندر ایک خاص سچائی لیے ہوتا ہے ۔ وہ بیانیے کو جذبات اور فکر کیساتھ یوں گوندھتے ہیں کہ تحریر محض کہانی نہیں رہتی، بلکہ ایک خاموش احتجاج، ایک سوال اور کبھی ایک دھیمی چیخ بن جاتی ہے۔ انکا اسلوب وعظ کرنا نہیں ، بلکہ قاری کے اندر سوالات جگانا ہے۔ انکی تحریر میںخاموشی بھی بولتی ہے۔پنجرے وچ آہلنا کی تحریر نہ صرف فکری اور ادبی لحاظ سے پختہ ہے بلکہ تکنیکی اعتبار سے بھی نہایت صاف ستھری اور پیشہ ورانہ ہے۔ املا کی غلطیوں، رموزِ اوقاف کی بے ترتیبی یا ساخت کی خامیوں سے پاک ہونے کے باعث قاری کی توجہ کہانی کے بہاؤ میں مکمل طور پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مصنف اور ناشر دونوں نے تخلیقی ذمہ داری کیساتھ فنی باریکیوں پر بھی بھرپور توجہ دی ہے۔ اکمل شہزاد گھمن کی کتاب ’’پنجرے وچ آہلنا‘‘، جس کا ترجمہ گورمکھی میں بھی چھپا ہے، محض کہانیوں کا مجموعہ نہیں، ایک مکمل فکری، بصری اور جذباتی تجربہ ہے۔ یہ انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کی دریافت ہے جنہیں ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ تحریر قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتی ہے اور اسے اپنے وجود، اپنی مٹی، اور اپنے رشتوں پر دوبارہ غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ انکی منظرنگاری قاری کو یادوں، خوابوں اور دھندلکوں سے بنی دنیا میں لیجاتی ہے، جبکہ کردار گویا ہمارے ہی اردگرد کے لوگ بن کر سانس لیتے ہیں۔ زبان کی سادگی میں تاثیر کا رنگ اس قدر گہرا ہے کہ ہر جملہ اندر کچھ ہلا کر رکھ دیتا ہے، اور تحریر کی فنی صفائی اسے ایک مکمل ادبی شہ پارہ بنا دیتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف پنجابی ادب کو ایک نئی جہت سے روشناس کرتی ہے بلکہ قاری کے شعور، احساس اور شناخت پر بھی دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔