• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو میں آنسو کو طفل اشک کہتے ہیں۔ طفل سے چونکہ بچہ بھی مراد لیا جاتا ہے اسلئے شاعروں نے آنسو اور بچے کی مناسبتوں کو شاعری میں خوب استعمال کیا ہے، جرات نے کہا تھا: ’’کاش دل سے چشم تک آنے نہ پاتا طفل اشک + رفتہ رفتہ اب تو یہ لڑکا کوئی طوفاں ہوا‘‘ تہران پر اسرائیلی حملے طفلِ اشک سے بڑھ کر طوفاں ہونے لگے تو ایران کی جانب سے بھی طوفان اقصیٰ اٹھا دیا گیا۔ اس کا اثر زندگی پر تو ہونا ہی تھا، راقم کے دانشگاہی رفقا ایک ایک کرکے تہران سے باہر چلے گئے، تہران کے یارانِ پول دار شمال کا رخ کرنے لگے۔ ہمارے شمالی علاقوں کی طرح ایران کا شمال بھی نہایت خوبصورت اور پرفضا مقام ہے اور لوگ سیاحت کیلئے شمال کا رخ کیا کرتے ہیں۔ پروازوں کی بندش سے غیرملکی مسافر محصور ہوکر رہ گئے تھے، ہمارا ایک میکسیکی Mexican مہمان جمعرات کی شب ہم سے رخصت ہوکر ایئرپورٹ پہنچا، بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں لئے جہاز میں سوار ہونے کا منتظر تھا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا اور یکایک تمام مسافروں کو جہاز پر سوار کرنے کی بجائے ایئرپورٹ خالی کرنیکا حکم دیا گیا۔ چنانچہ مسافر زمینی راستوں کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔حذیفہ صاحب بھی عید کرنے کیلئے تہران آئے تھے، ایراسپیس بند ہو جانے سے انکی واپسی کی فلائٹ بھی ضائع ہوگئی اور وہ واپسی کیلئے پریشان ہوگئے۔ ادھر ان کا ویزا بھی محدود مدت کیلئے تھا۔ زمینی راستے سے ترکی جانے کیلئے تبریز، باکو یا چابہار کے راستے ہوسکتے تھے لیکن ان شہروں تک پہنچنے کیلئے کوئی سواری میسر نہ تھی، بسوں اور ٹرینوں کی شکل میں جو سواریاں میسر تھیں ان میں کئی کئی دن تک کوئی جگہ نہ تھی۔ جیسے تیسے حذیفہ تبریز پہنچے جہاں سے مشرقی آذربائیجان کے شہر ماکو گئے، ماکو سے بازرگان اور کوہ ارارات کے قرب سے گزر کر ترکی کے شہردوغو بایزیدDogubayazit اور پھرارض روم میں داخلہ ہوا لیکن یہاں سے استنبول ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور ہے جس کیلئے کم و بیش بیس گھنٹے کی زمینی مسافت درکار تھی، مسافروں کی کثرت کے باعث سب پروازیں پہلے سے بک ہوچکی تھیں چنانچہ وہ تین دن میں منزل مقصود پر پہنچے۔ یہی حال دوسرے مسافروں کا بھی تھا۔یوں تو جنگ کے باوجود تہران میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی اور تہران ٹائمز کی سرخی کے مطابق ایرانیوں نے اس مشکل گھڑی میں ’’ون نیشن ون ہارٹ‘‘ کا ثبوت فراہم کیا تھا لیکن پھر بھی جنگ تو بہ ہر حال جنگ ہوتی ہے، پانی اور باہمی رابطوں میں کمی کی دِقت پر آئل ریفائنری پر حملے کے بعد تیل کی راشننگ مستزاد ہوئی اور پٹرول پمپوں پر طویل قطاریں دکھائی دینے لگیں۔ جب ہم لوگوں نے سفارتخانہ پاکستان کے قافلے کیساتھ وطن آنے کا فیصلہ کیا تو گھر میں پانی کا قطرہ نہ تھا، واٹس ایپ پر کسی سے کوئی رابطہ نہ تھا اور دیگر ضروریات زندگی کا بھی کچھ علم نہ تھا کہ کب تک ساتھ دیتی ہیں؟ایران میں ٹیکسی سروس ’’اسنیپ‘‘ نہایت سریع ہے جو بلاتاخیر گھر کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے اور کسی ردّوکد کے بغیر آپ کو شائستگی اور احترام کیساتھ منزل پر پہنچا دیا جاتا ہے لیکن پٹرول کی کمی کے باعث اب یہ ٹیکسی سروس بھی میسر نہ تھی، بی آر ٹی نامی سرکاری بس سروس البتہ اپنے متعین روٹس پر چل رہی تھی۔ سوموار کی صبح ہم اپنے گھر سے ڈاکٹر عامر حسین صاحب کیساتھ سفارتخانے پہنچ گئے لیکن جن بسوں نے ہمیں تہران سے ایران اور ترکمانستان کی سرحد پر لے جانا تھا وہ نہیں آئیں۔ سفارتخانے کو کچھ اور بس والوں سے رابطہ کرنا پڑا جنہوں نے ان ہنگامی حالات میں منہ مانگے دام وصول کئے۔ دن بھر سفارتخانے ہی میں گزارنا پڑا۔ اوّل تو گھر واپس جانے کی کوئی صورت نہ تھی اگر کسی طرح چلے بھی جاتے تو واپس کیسے آتے؟ دوپہر کے کھانے کیلئے ہم سفارتخانے سے نکلے، خیابانِ فاطمی ٹریفک سے خالی تھا، کچھ دیر بعد ایک بس جاتی دکھائی دی، عام حالات میں بی آرٹی کی بسیں اپنے متعین اسٹاپ کے علاوہ کہیں نہیں رکتیں لیکن اس وقت ہلکا سا اشارہ کرنے پر ڈرائیور نے بس روک لی۔ وہ بس میدان جہاد کی طرف جارہی تھی ہمارے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم بھی ’’چلو تم ادھر کو کہ بس ہو جدھر کی‘‘ پر عمل کریں۔ میدان جہاد پر اتر کر ہم ایک دوسری بس میں سوار ہوئے جس نے ہمیں میدان ولی عصر پہنچا دیا۔ ہر طرف سناٹا تھا، دکانیں بند اور راستے خاموش۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ حکومت نے چھٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ میدان ولی عصر کے نیچے میٹرو اسٹیشن پر کچھ دکانیں ہیں، حسب گمان وہ کھلی مل گئیں، ہم نے اسی زیرزمین بازارچہ میں لنچ کیا اور ایک آرائش گر کی دکان کھلی دیکھ کر اس سے آرائش گیسو بھی کروالی۔ سفارتخانے سے گاڑیوں کی روانگی میں اب بھی بہت وقت تھا۔ ہم تہران آمد کے ابتدائی دنوں میں خیابان کشاور زپر رہے تھے، ان دنوں رات کو چہل قدمی کرتے کرتے میدان ولی عصر تک آجایا کرتے تھے جہاں طرح طرح کے بازار ہر وقت خریداروں سے بھرے رہتے تھے لیکن آج یہاں ہر طرف خاموشی کی حکمرانی تھی ہم کچھ دیر یہ نامانوس منظر دیکھتے رہے اور پھر بالآخر سفارتخانے کی جانب روانہ ہوگئے۔ شام ہونے پر رفتہ رفتہ اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن اور اسکے ذیلی ادارے موسسہ اکو فرہنگی کے وابستگان پہنچنے لگے اور سفارتخانے کے کوریڈو رزمہمانوں سے بھر گئے۔ اوپر محترمہ عصمت سیال، احمد شامی، کیپٹن زوہیب، اظہرستی، فرحت جبیں، محمدآفتاب اور ساجدبلال صاحبان بسوں کی روانگی کے انتظامات کرنے میں مصروف تھے۔ خدا خدا کرکے پہلے طالبعلموں کی بسیں تفتان کی جانب روانہ کی گئیں جہاں سے انہیں کوئٹہ پہنچنا تھا پھر ہماری باری آئی۔ دونوں وقت گلے مل رہے تھے جب ہمیں تہران سے جدا ہونے کا اشارہ ملا۔ ابھی بسوں میں سامان رکھا جا رہا تھا کہ آسمان پر میزائلوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ سب لوگ بسوں اور سامان کو چھوڑ کر اس آسمانی کھیل کے نظارے میں مشغول ہوگئے۔ یہ زوردار سلسلہ دور تک اور دیر تک جاری رہا۔ میزائل تھا یاڈرون اسے نیچا دکھانے کی کوشش میں بنتے بگڑتے ستاروں میں سب کو دلچسپی تھی، بالآخر حملہ آور اسے گرانے والے ستارے ہی نہیں دن بھی ڈوب گیا اور ہماری چاربسوں نے نئی منزل کی جانب حرکت شروع کی۔ تہران سے باہر کی جانب جانیوالے تمام راستے ٹریفک سے بھرے ہوئے تھے چنانچہ گاڑیوں کی رفتار بہت آہستہ رہی۔ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد جب بس نے ایک جگہ توقف کیا تو معلوم ہوا کہ ہم نے دو گھنٹے میں صرف تینتیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا اور ابھی ہمیں تہران سے لطف آباد تک ساڑھے نو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔

تازہ ترین