آج میں پچیس سال پہلے کی ایک یاد شیئر کرنے جا رہا ہوںمطبوعات کے دفتر کا دروازہ بغیر کسی دستک کے کھلا اور سبز لبادے میں ملبوس ایک ملنگ اندر داخل ہوا اسکے ہاتھوں میں کڑے اور گلے میں منکوں کی مالا تھی۔ اسکے گہرے سانولے چہرے پر چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی تھی نووارد کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی مگر یہ جسمانی طور پر خاصا صحت مند تھااسکے ایک ہاتھ میں عصا اور دوسرے ہاتھ میں ایک نوٹ بک تھی۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی نوٹ بک خالد احمد کے ہاتھوں میں تھمائی اور کہا بچہ تو بہت کچھ پڑھتا ہے یہ بھی پڑھ کر دیکھ!’’ایک طویل عرصے سے بے روز گار خالد احمد نے اپنے بڑھے ہوئے شیو میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ایک نظر اسکی طرف دیکھا اور پھر یہ نوٹ بک اس سے’’وصول‘‘ کر کے بڑی بے نیازی سے میری طرف بڑھا دی ۔میں نے اس نوٹ بک کی ورق گردانی شروع کردی اور میرے لیے اس نوٹ بک کی ورق گردانی عجیب و غریب تجربہ تھا، کیونکہ اس نوٹ بک میں وکیلوں مجسٹریٹوں، سول ججوں اور پولیس انسپکڑوں وغیرہ کے تصدیقی سرٹیفیکٹ تھے جنکے مطابق یہ ملنگ موصوف ’’ ولایت‘‘کے مقام پر فائز تھے۔ ان اسناد کے نیچے باقاعدہ مہر اور دستخط ثبت تھے۔ میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی گویا اولیاء اللہ دنیا داروںسے ولایت کی اسناد حاصل کرتے ہیں۔’’فراڈ‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اور میں نے یہ نوٹ بک نجیب احمد کو تھمادی،نجیب احمد نے بھی ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر یہ واپس ملنگ کو لوٹاتےہوئے کہا’’ معاف کرو‘‘معافی بھی مل جائیگی بچہ ‘‘ملنگ نے عصا زمین پر مارتے ہوئے کہا۔’’یہ علی کا ملنگ آیا کس لیے ہے ؟‘‘میں خالد اور نجیب گپ شپ کے موڈ میں تھے اور یوں اسکی یہ معرفت کی گفتگو ہمیں کچھ اچھی نہیں لگی چنانچہ ہم تینوں نےیکبار کہا ’’ بابا جی! اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں آپ سے ایک بار کہہ دیا ہے معاف کریںاب آپ جائیں۔‘‘میں بابا فریدؒ کے دربار سے آیا یوں میرا نام بابا مستان شاہ ہے۔ پاکپتن سے آیا ہوں تم کہتے ہو تو چلا جاتا ہوں۔ ملنگ نے کہا مگر وہ یہ کہتے ہوئے بدستور اپنی جگہ پر کھڑا تھا اور کنکھیوں سے ہمارے ردعمل کا جائزہ لے رہا تھا۔ اور ان لمحوں میں ،میں ایک اور عجیب و غریب تجربے سے دو چار ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ اس شخص کا اولیائی سے کوئی تعلق نہیں یہ محض بہروپیا ہے مگر اسکے باوجود میں نے اپنے جسم میں ایک سنسنی سی محسوس کی میرے ذہن میں سوچ کی ایک لہر آئی کہ اگر یہ واقعی کوئی بزرگ ہے تو ہمیں اپنی اس بے ادبی کا خمیازہ یقیناً بھگتنا پڑے گا۔ غالباً یہی رد عمل خالد احمد اور نجیب احمد کے چہروں سے بھی نمایاں تھا کیونکہ مستان شاہ پہلےسے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا تھا۔ ’’ہاں میں نے بابا صاحب کے مزار پر حاضری دی ہے‘‘۔ نجیب نے کہا۔ تو پھر میں چلا جاؤں؟ یہ اس نے عجیب و غریب انداز میں پوچھا اور ہم تینوںکہ اندر سے سہمے ہوئے تھے گونگے ہو کر رہ گئے۔’’نہیں میں نہیں جاؤں گا‘‘وہ ہماری کیفیت بھانپ گیا تھا اور پھر دو قدم چل کر میری طرف آیا۔’’میں پنجتن کے نام پر تمہیں زور سے پانچ مکے ماروں‘‘اس نے مٹھی فضا میں بلند کرتے ہوئے کہاگو اس کے بارے میں میرے خیالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی یعنی مجھے یقین تھا کہ وہ فراڈ ہے لیکن میں نے ایک عجیب بے بسی کے عالم میں کہا ’’ نہیں ماروں گا ‘‘مستان شاہ نے مشفقانہ سی ہنسی ہنستے ہوئے کا اور میرےکاندھوں پر پیار سے ہولے ہولے پانچ مکے مارے،’’مولا حسین کے نام پر اگر میں تم سے چندہ مانگوں تو دو گے ؟‘‘اب وہ حرف مدعا زبان پر لے آیا تھا مگر پیشتر اس کے کہ میں کوئی جواب دیتا اس نے گھمبیر آواز میں کہا ’’نہیں لوں گا‘‘ اور پھر نجیب احمد کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔تمہیں پنجتن کے نام پر زور سے پانچ مکے ماروں؟’’مارو‘‘نجیب نے گلو گیر لہجے میں جواب دیا۔’’ہاں ماروں گا‘‘ اس نے کہا اور پھر اسے بھی پیار سے ہولے ہولے پانچ مکے مارے۔’’مولا حسین کے نام پر اگر تم سے چندہ مانگوں تو دو گے؟ اس نے دوسرا سوال دہرایا اور پھر حسب سابق نجیب کے جواب سے پہلے خود ہی کہا ’’ نہیںلوں گا‘‘اور اب خالد احمد کی باری تھی۔ مستان شاہ نے پنجتن کے نام پر پانچ مکوں کی فرمائش اور پھر اثبات میں جواب ملنے پر نہیں ماروں گا۔ کہہ کر دوسرا سوال دہرایا ؟ ’’مولا حسین کے نام پر اگر تم سے دس روپے مانگوں تو دو گے؟‘‘ خالد احمد نے اس کی طرف دیکھا کہ وہ ابھی خود ہی نہیں لوں گا۔ کہہ دے گا مگر جب اس نے ایسا نہ کہا بلکہ ایک بار پھراپنا سوال دہرایا: تو خالد نے بے بسی سے کہا’’دوں گا ‘‘تو پھر نکالو مستان شاہ نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ خالد احمد نے بڑی تابعداری سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس روپے نکال کر اسے دے دیے۔یہ تم اپنی خوشی سے دے رہے ہو اگر خوشی سے نہیں دیے تو واپس لے لو۔ مستان شاہ نے کہا مگر جواب کا انتظار کیے بغیروہ نوٹ جیب میں ڈال چکا تھا،فقیر اب تمہارے لیے دعا کرئیگا۔ مستان شاہ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور اسکے ساتھ ہم بھی دعا میں شریک ہو گئے۔ دعا کے بعد اس نے نوٹ بک بغل میں دبائی جس میں پولیس انسپکٹروں وغیرہ نے اسکی ولایت کی تصدیق کی تھی۔ اور دوسرے ہاتھ میں عصا تھام کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ یہ دعا کیلئےہاتھ ہم نے تمہارے لیے نہیں اٹھائے تھے۔ اسکے جاتے ہی میرے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیایہ دعائے مغفرت تو اس دس کے نوٹ کیلئے تھی۔ جس سے تم محروم ہو گئے ہو۔ہاں یار میرے ساتھ تو واقعی ہاتھ ہو گیا ہے۔ بے روز گار خالد احمد نے جھینپی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا اور اپنے بڑھے ہوئے شیو میںانگلیاں پھیرنے لگامیں تو کہتا ہوں’’تم نوکریوں کے پیچھے دربدر ہونا چھوڑو اور مستان شاہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے یہی کام شروع کر دو نجیب احمد نے کہا اورپھر تینوں نے پیٹ پکڑ کر ہنسنا شروع کر دیا ۔ مگرہم تینوں کہ اندر سے کمزور اور سہمے ہوئے اور باہر سے پڑھے لکھے روشن خیال نوجوان تھے ، ہنستے ہنستے ایک دم خاموش ہو گئےاورپھر ہمارے چہروںپر خوف کی لکیریں پھیلتی چلی گئیں،کمرے میں کچھ دیر خاموشی طاری رہی اور پھر ہم ایک دوسرے سے کچھ کہے بغیر اپنے ان گھروں کی طرف لوٹ گئے جنکے گرد ریت کی دیواریں ہیں اور جن پر ان دیکھے خوف کے سائے ہیں۔