غفورے سے میری شناسائی بہت پرانی ہے۔ جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا وہ دہی بھلے کی ریڑھی لگاتا تھا۔ وہ تقریباً میرا ہم عمر ہے اور اللہ جانے وہ مجھے اپنا دوست کیوں سمجھتا ہے حالانکہ وہ چٹا اَن پڑھ ہے اور میں ایک پڑھا لکھا انسان ہوں۔ اسکی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں جبکہ میری جیب اکثر نوٹوں سے بھری رہتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چونکہ ہم سب ایک آدم کی اولاد ہیں۔ اس لیے ہم سب برابر ہیں۔ اَن پڑھ ہے نا!میں نے غفورے کو کبھی خوش نہیں دیکھا۔ کم از کم جب وہ میرے پاس آتا ہے وہ روہی رہا ہوتا ہے۔ وہ کل میرے پاس آیا اور بولا ’’قاسمی صاحب! اگلے مہینے میری بیٹی کی شادی تھی لیکن اب شادی کی تاریخ آ گے کرنا پڑے گی بلکہ اللہ جانے اب میری بچی کے ہاتھ پیلے ہوں گے بھی کہ نہیں‘‘میں نے پوچھا۔ ایسی کون سی بات ہے؟’’بولا، سپریم کورٹ نے شادی کے کھانے پر سے پابندی جو ہٹا دی ہے۔ کورٹ نے کہا ہے کہ یہ پابندی آئین کے منافی ہے‘‘ میں نے کہا’’ غفورے !یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری عدالتوں کو ملک میں آئین کی حکمرانی کی کتنی فکر ہے‘‘بولا ’’یہ بات تو ٹھیک ہے مگرعدالتوں کے پاس ایک نظریہ ضرورت بھی تو ہوتا ہے وہ اگر یہ یہاں بھی لاگو کر دیں تو کیا حرج تھا ؟ اب میں کھانےکیلئے پچاس ہزار روپے کہاں سے لاؤں؟‘‘ میں نے کہا’’یہ تمہارا پرابلم ہے لیکن تمہیں اتنا خود غرض نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کے آئین اور معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاؤ اور ایک قانون کی تم صرف اس لیے مخالفت کرو کہ اب تمہاری بیٹی ڈولی میں نہیں بیٹھ سکے گی جاؤ غفورے! تمہیں شرم آنی چاہیے‘‘، بس یہ سن کر غفورے نے رونا شروع کر دیا۔ وہ غالباً اپنے خلاف آئین شکن خیالات پر شرمندہ تھا! غفورا میرے پاس یکم رمضان کو بھی آیا تھا۔ اس نے مجھے رمضان کی مبارک دی میں نے خیر مبارک کہا۔ افطاری کا سائرن ہوا تو میں نے پلیٹ میں سے ایک سوکھی سی کھجور نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی جس سے اس نے روزہ افطار کیا۔ پھر اس نے پانی کا ایک گلاس پیا اور کہا ’’قاسمی صاحب! میری ایک پریشانی دور کریں‘‘میں نے کہا بتاؤ’’ بولا میں آج کل پاپڑ بیچتا ہوں پچاس ساٹھ روپے روز کے بچ جاتے ہیں۔ میرا چھوٹا بیٹا نہاری کی ایک دوکان پر برتن صاف کرتا ہے تقریباً اتنے ہی پیسے وہ بھی کما لیتا ہے۔ خدا کا شکرہے روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں لیکن آج سے سارے ملک میں کھانے پینے کی دکانیں بند ہوگئی ہیں ۔ میں دن کے وقت پاپڑ بیچ نہیں سکتا اور افطاری کے بعد پاپڑوں کا کوئی گاہک نہیں، میرا بیٹا نہاری کی جس دکان پر کام کرتا تھا اس کے مالک نے دکان ایک مہینے کیلئے بند کر دی ہے۔ وہ اس دوران دکان کی چھوٹی موٹی مرمت اور رنگ و روغن کرائے گا۔ میرے پاس کوئی جمع پونجی نہیں ہے کہ اس مبارک مہینے میں گھر بیٹھ کر خرچ کر سکوں مجھے بتائیں میں اپنے بچوں کو روٹی کہاں سے کھلاؤں ؟ ‘‘یہ سن کر مجھے غصہ آ گیا تاہم میں نے کافی ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔’’تم چاہتے ہو کہ صرف تمہارے بچوں کو بھوک سے بچانےکیلئے شعائر اسلامی کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جائے اور دن کے وقت دکانیں کھلی رکھ کر بر سر عام کھانے پینے کی اجازت دی جائے‘‘اس پر غفورے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے کہا’’ اللہ نہ کرے میں شعائر اسلامی کی خلاف ورزی کی بات کروں میں نے تو آپ سے صرف مسئلے کا حل پوچھا تھا ‘‘میں نے کہا ’’مسئلے کا حل یہی ہے کہ تم فوراً میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ اور اپنی باتوں سے میرے روزے کا ثواب کم نہ کرو‘‘ اس پر غفورے نے پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا مجھے یاد ہے غفورا ایک سال پہلے بھی میرے پاس آیا تھا یہ اس وقت کی بات ہے جب شہر میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تھے ۔ ان جھٹکوں کے دوران کچی آبادیوں کے بیشتر مکینوں کے کوچے زمین بوس ہو گئے تھے جن میں غفورے کا گھر بھی تھا۔ اس حادثے میں اس کا ایک بیٹا بھی ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گیا تھا۔ غفورا میرے پاس آ یا تو میں نے اسے بتایا کہ’’یہ زلزلے ، یہ سیلاب اور دیگر آفات آسمانی سب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کےحضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چا ہئے‘‘یہ سن کر ایک دفعہ پھر غفورے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے کہا ’’ایک تو ہم غریبوں پر آفت آتی ہے۔ اوپر سے آپ اس آفت کو ہمارے گناہوں کی سزا قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں کیا سارے گناہ ہم غریب ہی کرتے ہیں۔ کیا گلبرگ اور ڈیفنس میں فرشتے آباد ہیں جو سیلاب اور زلزلوں کی زد میں نہیں آتے‘‘ میں نے ان لمحوںمیں اس کے منہ لگنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک اور موقع پر جب اس کا ایک نواسہ علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے کے سبب انتقال کر گیا تو میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی ،موت اور غریبی امیری صرف اللہ کے اختیار میں ہے اس پر وہ پہلی دفعہ غصے میں آیا۔ اس نے کہا’’یہ سب باتیں تم ظالموں نے اپنے ظلم اور نا انصافی کے جواز کیلئے گھڑی ہوئی ہیں۔ تم لوگوں نے رزق کے سرچشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنی غیر منصفانہ تقسیم کو اللہ کی تقسیم قراردے کر ہم لوگوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہو!‘‘میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں لیکن بے دینی کی باتیں مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں، چنانچہ میں نے ایک زور دار تھپڑ غفورے کے منہ پر رسید کیا اور کہا ’’آج کے بعد تم سے اس وقت تک میرا کوئی تعلق نہیں جب تک تم دوبارہ کلمہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید نہیں کرتے۔ اب میری نظروں سے فوراً دور ہو جاؤ!‘‘ اس پر غفورے نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ ہچکیوں کے دوران ہولے ہولے کلمہ پڑھ رہا ہے۔ یہ غریب لوگ کتنے بزدل ہوتے ہیں۔