• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران کی جرات، اسرائیل کی پسپائی اور کربلا کی بازگشت

صدیوں پہلے، کربلا کی تپتی ریت پر ایک ایسا باب رقم ہوا، جس نے ہمیشہ کے لیے حق اور باطل کے درمیان لکیر کھینچ دی۔ حضرت امام حسینؓ نے کسی سلطنت، جاہ و جلال یا زمین کے لیے نہیں، بلکہ اصول، عدل اور صداقت کے لیے جان دی۔ ان کی شہادت نے یہ واضح کر دیا کہ ایک سچّے مسلمان کی شناخت یہی ہے کہ وہ باطل کے سامنے سَر نہ جُھکائے، چاہے کتنا ہی تنہا کیوں نہ ہو۔اِسی کربلائی پیغام کی بازگشت ہمیں ایران کے طرزِ عمل میں بھی سُنائی دیتی ہے۔

جس وقت دنیا کی بیش تر مسلم حکومتیں سیاسی مصلحتوں، مفادات اور خاموش سفارت کاری میں اُلجھی ہوئی تھیں، ایران نے وہی راستہ اپنایا، جو حضرت امام حسینؓ نے دِکھایا تھا۔ایران کی حالیہ جنگی حکمتِ عملی نے دنیا کو حیران کر دیا۔اس نے معاشی پابندیوں، عالمی تنہائی اور داخلی چیلنجز کے باوجود فلسطین کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی۔ 

وہ آواز، جسے اکثر حُکم رانوں نے دبانے کی کوشش کی۔ اسرائیل جیسے جدید ہتھیاروں سے لیس مُلک کو جب ایران نے نہ صرف عسکری میدان میں للکارا، بلکہ نظریاتی محاذ پر بھی شکست دی، تو یہ کوئی معمولی جرأت کا مظاہرہ نہیں تھا۔ یہ کربلا کی رُوح کا عملی عکس تھا۔

یہ معرکہ محض میزائلوں یا ڈرونز کی جنگ نہ تھی، بلکہ ضمیر، حق گوئی اور امتِ مسلمہ کی غیرت کا امتحان تھا۔ ایران نے دنیا کو یاد دِلا دیا کہ طاقت صرف ٹینکس میں نہیں، نظریے میں بھی ہوتی ہے۔ جس جرأت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف براہِ راست اقدامات کیے، وہ اسے ایک بار پھر اُس قافلے کا علم بردار ثابت کرتی ہے، جو کربلا سے چلا تھا۔ اگرچہ عرب دنیا کے کئی حُکم ران خاموش رہے، لیکن اُمّت کے دل نے ایران کے ساتھ دھڑکنا شروع کر دیا۔ 

تُرکیہ، لبنان، یمن، عراق، شام اور پاکستان سمیت دنیا بَھر کے کروڑوں مسلمان عوام نے ایران کی اِس جرأت کو سلام پیش کیا۔ سوشل میڈیا، مساجد اور جلوسوں میں’’لبّیک یا اقصیٰ‘‘ کی گونج اِس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان بے دار ہو رہا ہے۔ایران کی فتح محض ایک فوجی کام یابی نہیں، یہ اُمّتِ مسلمہ کے بے دار ہونے کا اشارہ ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ اسرائیل کتنا طاقت وَر ہے، سوال یہ ہے کہ حق پر کون ہے؟ ایران نے یہ سوال تازہ کر دیا ہے اور اس کا جواب بھی دنیا کے ضمیر پر چھوڑ دیا ہے۔

اگر آج ایران تنہا ہو کر باطل کو جُھکا سکتا ہے، تو سوچنے کی بات ہے کہ جب اُمّتِ مسلمہ ایک صف میں کھڑی ہوگی، تب منظر کیسا ہوگا؟ کیا وہ وقت دُور ہے، جب ہر مظلوم فلسطینی کے ساتھ صرف نعرے نہیں، بلکہ عملی مدد بھی پہنچے گی؟ کیا وہ وقت آئے گا، جب ہر مسلمان مُلک اصولوں پر فیصلے کرے گا، نہ کہ مصلحتوں پر؟یہ سب کچھ ممکن ہے، اگر ہم کربلا کی اصل رُوح کو سمجھیں۔ وہ رُوح، جو ایران کی قیادت اور عوام نے نہ صرف اپنائی، بلکہ دنیا کے سامنے زندہ کر کے رکھ دی۔

کبھی وہ وقت تھا، جب کسی مظلوم کی آواز دَبا دی جاتی تھی اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی تھی، مگر اب منظر نامہ بدل رہا ہے۔ ایران کے حالیہ اقدامات نے نہ صرف اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا، بلکہ دنیا کے مسلمانوں کو بھی جھنجھوڑ دیا اور وہ خاموشی، جو برسوں سے چھائی ہوئی تھی، اب چیخ بن کر اُبھری ہے۔ ایران جب میدان میں آیا، تو بہت سے لوگوں کو یہ گمان تھا کہ یہ ایک تنہا اقدام ہے، لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ دِلوں کی بے داری، زبان کی ہم راہی بننے لگی ہے۔ 

پاکستان، تُرکیہ، عراق، لبنان، یمن، شام، حتیٰ کہ یورپ اور امریکا کے مسلمان، سب نے سوشل میڈیا، جلسوں، جلوسوں اور بیانات کے ذریعے ایران کے حق میں آواز بلند کی۔ ’’لبیک یا اقصیٰ‘‘ کے نعرے دنیا بَھر کے شہروں میں گونجنے لگے۔جہاں عرب دنیا کے کچھ حُکم ران مصلحتوں میں لپٹے رہے، وہاں اُن کے عوام ایران کے جرأت مندانہ مؤقف سے متاثر ہوئے۔ 

یہ ایک فکری بغاوت تھی، جو کربلا کی رُوح سے جُڑی تھی۔ عوام جان چُکے تھے کہ سیاست وقتی ہوتی ہے، لیکن مظلوم کا ساتھ دینا دائمی حق ہے۔ اسرائیل، جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتا تھا، اِس بار نہ صرف عسکری محاذ پر چکرا گیا، بلکہ عالمی سطح پر بھی اُس کی ساکھ متاثر ہوئی۔ ایران کے جوابی حملوں کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام صرف اشتہارات میں مضبوط ہے، میدان میں نہیں۔اس کے ساتھ ہی عالمی رائے عامّہ کا رجحان بھی بدلنے لگا۔ 

کئی مغربی صحافیوں، دانش وَروں اور یہاں تک کہ’’ یہودی امن کارکنان‘‘ نے بھی اسرائیل کی جنگی پالیسیز پر سوالات اُٹھائے۔ ’’کیا طاقت کا بے جا استعمال ہی امن کا ضامن ہے؟‘‘ یہ سوال اب عالمی میڈیا پر موضوع بن گیا۔ یہ ایران کی عسکری کام یابی سے زیادہ فکری کام یابی تھی۔ اس نے اُمّتِ مسلمہ کے اندر ایک نئی روشنی جلائی ہے۔ وہ روشنی، جس کی کرنیں ہمیں کئی دہائیوں بعد اِتنی واضح دِکھائی دی ہیں۔ ایران کی استقامت نے مسلمانوں کو کربلا یاد دِلا دیا۔ 

فرق یہ تھا کہ اِس بار ظلم کا میدان ریت کے ٹیلوں پر نہیں، بلکہ میزائل شیلڈز، جنگی ڈرونز اور میڈیا وار کے ہتھیاروں سے آراستہ تھا۔ مگر اصول وہی رہے’’حق کے لیے کھڑے ہو جاؤ، چاہے اکیلے ہی کیوں نہ ہو۔‘‘پاکستان میں نوجوان نسل نے اِس جدوجہد کو بھرپور سراہا۔ ٹوئٹر، فیس بُک، انسٹاگرام پر ایران کی حمایت میں مہمّات، ویڈیوز، تبصرے اور شعری اظہار نے ثابت کیا کہ نئی نسل محض تماشائی نہیں رہی۔ اب وہ اپنے ضمیر کی روشنی میں بات کرتی ہے، سچّائی کو پہچانتی ہے اور منافقت سے بے زار ہے۔ایران نے صرف میزائل فائر نہیں کیے، بلکہ اُمّت کے ذہنوں میں ایک دَر کھولا ہے، ایک سوال اُٹھایا ہے۔’’کیا ہم ہمیشہ خاموش رہیں گے یا کبھی باطل کو للکاریں گے بھی؟‘‘

کربلا کی داستان محض تاریخی سانحہ نہیں، بلکہ وہ دائمی فکری میراث ہے، جس نے ہر دَور کے انسان کو یہ سِکھایا کہ باطل کے سامنے جُھکنا ممکن نہیں، اگر تم حق پر ہو۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے اُمّت کو یہ سبق دیا کہ تعداد، ہتھیار، سلطنت اور فوجی طاقت، یہ سب ثانوی ہیں، اصل چیز سچّائی کے لیے ڈٹ جانا ہے۔ایران کی موجودہ مزاحمت اِسی حسینیتؓ کا تسلسل ہے۔ جو بات حضرت امام حسینؓ نے61 ہجری میں یزیدی نظام کو للکار کر دنیا کو سمجھائی، آج وہی سبق ایران کی قیادت اور عوام نے عملی صُورت میں دُہرایا ہے۔ 

چاہے دشمن ایٹمی طاقت رکھتا ہو، جدید ہتھیاروں سے لیس ہو، عالمی میڈیا پر اس کا قبضہ ہو، مگر ایمان پختہ ہو، نیّت سچّی ہو اور راستہ حُسینیؓ ہو، تو فتح دیر سے سہی، مگر یقینی ہے۔کربلا میں حضرت امام حسینؓ تنہا تھے، تعداد کم تھی، وسائل محدود تھے، مگر نظریہ کامل تھا۔ ایران آج عالمی دباؤ، پابندیوں، اقتصادی مشکلات، اندرونی چیلنجز کے باوجود باطل کے مقابل کھڑا ہے۔ اِسی اصول پر جو کربلا میں طے پایا تھا کہ’’ذلّت کی زندگی سے عزّت کی موت بہتر ہے۔‘‘کربلا میں پانی بند ہوا، آج ایران پر معیشت بند کرنے کی کوشش کی گئی۔

کربلا میں اہلِ حق کو جُھکنے پر مجبور کیا گیا، آج ایران کو ڈرانے کی کوشش کی گئی، مگر نتیجہ وہی رہا کہ باطل مایوس ہوا، حق سُرخ رو ہوا۔ایران کی جرأت صرف فوجی سطح پر نہیں، بلکہ فکری میدان میں بھی ہے۔ اس نے عالمِ اسلام کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا خاموش رہ کر ہم اپنی ذمّے داری سے بری الذمّہ ہو سکتے ہیں؟ کیا مظلوم کی حمایت صرف لفظوں تک محدود ہونی چاہیے؟ 

کیا سچ بولنے کی قیمت دینے کا وقت نہیں آ گیا؟ کربلا کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہر فرد حق کی علامت تھا۔ بچّوں، جوانوں، بزرگوں، خواتین، سب نے کردار ادا کیا۔ ایران میں بھی ہمیں یہی منظر نظر آتا ہے۔ نوجوان، بزرگ، خواتین، سب فلسطین کے لیے میدان میں نظر آئے۔ 

یہ مزاحمت فقط حکومت کی نہیں، پوری قوم کی تھی۔ یہ جذبہ اور یک جہتی، کربلا کی حقیقی رُوح کو زندہ کرتی ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حُسینیتؓ ایک نظریہ ہے، جو ہر آزاد انسان کا ہے اور ایران نے اِس نظریے کو صرف یاد ہی نہیں کیا، دنیا کے سامنے زندہ بھی کر دیا۔

ایران کا عالمی دباؤ نظر انداز کر کے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینا، دراصل ایک نظریے کی جیت تھی۔ ایک ایسا نظریہ، جو تاریخ کے ہر دَور میں اور ہر مظلوم کے پہلو میں زندہ نظر آتا ہے۔ اور اس کی سب سے عظیم الشّان مثال کربلا ہے۔ ایران کی استقامت نے مسلم دنیا کو آئینہ دِکھایا ہے۔ وہ آئینہ، جس میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اگر ایک قوم معاشی پابندیوں، سفارتی تنہائی اور عسکری برتری کے سائے میں حق کے لیے کھڑی ہو سکتی ہے، تو باقی اُمّت کیوں ایسا نہیں کرسکتی؟

کیا ہمارے درمیان کوئی ایسا وقت آ سکتا ہے، جب ہم صرف مشترکہ دشمن کے خلاف نہیں، بلکہ مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہوں؟ کیا ہم اُمّتِ واحدہ بن سکتے ہیں، نہ صرف عقیدے میں، بلکہ عمل میں بھی؟ ایران کے اقدامات نے دنیا کے طاقت کے توازن میں دراڑ ڈال دی ہے۔ اسرائیل، جو خطّے میں ناقابلِ تسخیر تصوّر کیا جاتا تھا، آج دفاعی پوزیشن میں ہے۔ مغرب، جو ہمیشہ اسرائیل کی پُشت پناہی کرتا آیا ہے، اب اپنے عوام کی جانب سے سوالات کا سامنا کر رہا ہے۔

اب ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے،جس کی بنیاد عقیدہ نہیں، انصاف، اصول اور استقامت ہے۔ اِس نئی عالمی فکری جنگ میں وہی قومیں سُرخ رُو ہوں گی، جو اپنے ضمیر کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔ایران نے یہ پیغام دیا ہے کہ جنگ صرف میدان میں نہیں جیتی جاتی، بلکہ بیانیے، سچّائی اور عوامی حمایت کے ذریعے بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔پاکستان، جس کی بنیاد ہی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پر رکھی گئی، اِس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے۔ 

ہمارے عوام ایران کی پالیسی کو سراہ رہے ہیں، نوجوان نسل سوشل میڈیا پر بے داری کی علامت بن چُکی ہے، لیکن اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم رسمی مذمّتوں سے آگے بڑھ کر مشترکہ مؤقف، سفارتی حکمتِ عملی اور عملی تعاون کی راہ اختیار کریں۔پاکستان کی طرح دیگر مسلم ممالک کے عوام بھی جاگ چُکے ہیں۔ 

وہ اپنے حُکم رانوں سے صرف امن کی دُعائیں نہیں، بلکہ مظلوموں کے لیے کھڑے ہونے کی بھی توقّع رکھتے ہیں۔ کربلا کا پیغام صرف محرم تک محدود نہیں اور ایران کی مزاحمت صرف جغرافیائی نہیں ہے۔ یہ دونوں ایک جاری تحریک کا حصّہ ہیں۔ وہ تحریک، جو ہمیں سِکھاتی ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے اور حق کے لیے قربانی دینا ہی اصل عزّت ہے۔آج وقت ہے کہ ہم اِس تحریک کا حصّہ بنیں۔ 

اپنے قلم سے، آواز سے، فکر سے اور دل سے۔ اگر ہم سب اصولوں پر ڈٹ جائیں، تو دنیا کے ہر مظلوم کے لیے اُمید اور ہر ظالم کے لیے انجام قریب ہو گا۔ ایران کی حالیہ مزاحمت نے تاریخ کو جھنجھوڑا ہے اور ہمیں یاد دِلایا ہے کہ حق کی راہ پر چلنے والے کبھی تنہا نہیں ہوتے۔ کربلا کے وارث آج بھی زندہ ہیں۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید