• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبنائے ہرمز: تیل و گیس سپلائی کی ’’شہہ رگ‘‘

2015 ء کے پیرس معاہدے (Paris Agreement) میں شریک 194 ممالک کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنے کو کہا گیا ہے، جن کی مدد سے دنیا کا بڑھتا درجۂ حرارت کم کیا جاسکے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ذرایع، تیل اور گیس وغیرہ پر انحصار کم ہو سکے۔ یہ کہنا تو آسان ہے کہ قابلِ تجدید توانائی (Renewable Energy) ذرائع استعمال کیے جائیں، مگر مطلوبہ نتائج کا حصول خاصا مشکل ہے۔

دنیا کے بیش تر ممالک تیل کی خریداری کے لیے مشرقِ وسطیٰ (خلیج فارس)، مغربی افریقا، جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی امریکا کے ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔

تیل اور گیس کی سپلائی کا بحری راستہ:

تیل اور گیس کی سپلائی کا سب سے بڑا ذریعہ بحری راستے ہیں، جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں خلیجِ فارس کے ممالک کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اِس خلیج میں داخلے کا واحد راستہ آبنائے ہرمز ہے، جو21 سے60 میل تک چوڑی ہے۔ اس کے شمال میں ایران، جنوب میں متحدہ عرب امارات اور مشرق میں اومان واقع ہے۔ آبنائے ہرمز اور بحیرۂ عرب، خلیجِ عمان کے ذریعے باہم ملے ہوئے ہیں۔ 

یہ دنیا کا سب سے مصروف تیل سپلائی کا بحری راستہ ہے اور اِسے دنیا کی تیل و گیس سپلائی کی’’شہہ رگ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے، خلیجِ فارس کے ممالک ایران، سعودی عرب، کویت، عراق، متحدہ عرب امارات، قطر اور اومان دنیا کا31 فی صد تیل اور20 فی صد گیس پیدا کرتے ہیں۔ آبنائے ہرمز سے روزانہ تقریباً17 سے21 ملین بیرل تیل لے جانے والے بحری جہاز گزرتے ہیں، جو مختلف ممالک خصوصاً چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا کی طرف جاتے ہیں۔

خلیجی ممالک کی تیل و گیس کی پیداوار:

سعودی عرب اِس خطّے کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا مُلک ہے، جس کی زیادہ تر پیداوار مشرقی صوبوں(مثلاً غوار آئل فیلڈ) سے ہوتی ہے۔ اس کے باوجود، سعودی عرب نے بحرِ احمر (Red Sea) پر ینبع کے مقام پر ایک تیل ٹرمینل بنایا ہوا ہے، جہاں سے تقریباً6 سے7 ملین بیرل تیل روزانہ برآمد کیا جاتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی تیل سپلائی محفوظ بنانے کے لیے فجیرہ کے مقام پر ایک متبادل بحری راستہ تیار کیا ہے۔ قطر دنیا کا سب سے بڑا مائع قدرتی گیس(LNG) برآمد کرنے والا مُلک ہے، جس کی روزانہ پیداوار تقریباً ایک سو اکیاسی ملین کیوبک میٹر ہے۔ اس کی گیس کا بڑا حصّہ جنوبی کوریا، جاپان، چین اور بھارت کو برآمد کیا جاتا ہے۔

آبنائے ہرمز کی بندش:

مختلف مواقع پر آبنائے ہرمز بند کرنے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔ جیسے گزشتہ دنوں اسرائیل سے جنگ کے دَوران ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی قرارداد منظور کی، تاہم اِس اقدام کی نوبت نہیں آئی اور جنگ بندی ہوگئی۔

سوال یہ ہے کہ اگر کبھی یہ بحری راستہ بند کردیا جائے، تو دنیا پر اس کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ اِس طرح کی بندش سے روزانہ 17سے21 ملین بیرل تک تیل کی ترسیل متاثر ہوسکتی ہے، جو عالمی معیشت کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں ہوگی۔

نیز، تیل کی سپلائی میں تعطّل سے قیمتوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔آبنائے ہرمز کی بندش سے ایشیائی ممالک کی معیشت شدید دباؤ سے دوچار ہوسکتی ہے۔ چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کی، جو خلیجِ فارس سے 30سے70 فی صد تک تیل درآمد کرتے ہیں، جی ڈی پی 3سے 5فی صد تک گر سکتی ہے۔

پھر یہ کہ یورپ اور امریکا نارتھ سی(North Sea) اور خلیجِ میکسیکو (Gulf of Mexico) سے تیل کی پیداوار بڑھانے پر مجبور ہوں گے، لیکن یہ عمل مہینوں پہ محیط ہو سکتا ہے۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اِن خطّوں سے تیل کی پیداوار منہگی بھی ہے اور مشکل بھی۔

خلیجِ فارس کی جیو پولیٹیکل اور جیولوجیکل اہمیت:

خلیجِ فارس نہ صرف سیاسی بلکہ جیولوجیکل اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے۔ یہ خطّہ عریبین پلیٹ پر واقع ہے، جہاں زاگرس پہاڑی سلسلہ تیل و گیس کے وسیع ذخائر کا گھر ہے۔ سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی غوار فیلڈ ہے، جس میں75 ارب بیرل تیل موجود ہے اور ایسی فیلڈز تو بے شمار ہیں، جن میں تیل کی مقدار ایک ارب بیرل یا اس سے زاید ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال عراق بھی اِس خطّے کا ایک اہم مُلک ہے، جس کے جنوبی اور شمالی حصّوں سے تیل کی مجموعی پیداوار بیالیس لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ ہے۔ 

 شمالی حصّہ،جہاں کردستان کو آئینی خود مختاری حاصل ہے، تیل و گیس کی تلاش کی سرگرمیوں کا اہم مرکز بنتا جارہا ہے۔ اِسی خطّے میں واقع، 10ارب بیرل سے زائد کے ذخائر رکھنے والی کرکوک آئل فیلڈ1908 ء میں دریافت ہوئی۔ یہ عراق کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ ہے اور آج بھی وہاں سے یومیہ ایک ملین بیرل سے زاید تیل حاصل ہو رہا ہے۔ تیل کی برآمد کے لیے کردستان سے دو پائپ لائنز بحرِ روم کے مشرقی ساحل پر واقع تُرکیہ کی بندرگاہ تک تیل پہنچاتی ہیں۔

اِن پائپ لائنز کی یومیہ گنجائش تقریباً11 لاکھ بیرل تک ہے، جو عراق کا تیل برآمد کا ایک متبادل راستہ ہے، لیکن آبنائے ہرمز کی بندش اِس کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اومان کے پاس خلیجِ فارس اور خلیجِ اومان دونوں جگہ تیل ٹرمینلز موجود ہیں، جس کی وجہ سے وہ کسی حد تک آبنائے ہرمز کی بندش سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ 

متحدہ عرب امارات کی فجیرہ بندرگاہ پر بھی تیل کا ایک ٹرمینل موجود ہے، جہاں سے تیل ہرمز سے گزارے بغیر بھی بیچا جا سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی تیل پیدا کرنے والی قومی کمپنی، ایڈنوک کی حبشان فیلڈ سے تین سو ساٹھ کلومیٹر لمبی پائپ لائن فجیرہ تک لائی گئی ہے، جو یومیہ اٹھارہ لاکھ بیرل تیل برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کویت اور قطر ایسے ممالک ہیں، جن کے پاس تیل کی ترسیل کا کوئی متبادل انتظام نہیں۔ یہ دونوں ممالک بالترتیب یومیہ پچیس لاکھ اور تیرہ لاکھ بیرل تیل پیدا کرتے ہیں۔

خلاصۂ گفتگو:

اگر کبھی آبنائے ہرمز بند ہوجاتی ہے، تو اس کے عالمی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتّب ہوں گے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، منہگائی، کساد بازاری اور بڑی معیشتوں کی جی ڈی پی میں کمی جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔ یہ کوئی پیچیدہ سائنسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک واضح حقیقت ہے کہ خلیجِ فارس کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت دنیا بَھر کی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ اِس امر میں شبہ نہیں کہ خطّے کی غیر یقینی صُورتِ حال دنیا کی تجارتی و معاشی سرگرمیوں کے لیے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

یورپی یونین، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)، خلیجی تعاون کاؤنسل (GCC) کے ممالک، اقوامِ متحدہ، روس، چین اور امریکا کو مل کر خطّے میں قیامِ امن کی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ خلیجِ فارس بھی نہرِ سوئز، آبنائے ملاکا، آبنائے باسفورس اور پاناما کینال کی طرح ایک انتہائی حسّاس بحری گزرگاہ ہے، جس کی بندش دنیا بَھر میں معاشی ناہم واری اور شدید بے چینی کا سبب بن سکتی ہے۔ مطلب، یہ معاملہ صرف ایران، اسرائیل اور امریکا کا نہیں، بلکہ پوری دنیا کے امن اور عوام کی فلاح و بہبود کا ہے۔ (مضمون نگار، ممتاز ماہرِ ارضیات ہیں، گزشتہ36 برسوں سے مُلکی و غیر مُلکی اداروں سے وابستہ چلے آ رہے ہیں اور اپنے شعبے میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔)