کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بار بار پیدا ہونے والے عدم استحکام سے بچنے کے لیے پاکستان کو جرات مندانہ اور بعض مشکل فیصلے کرنا ہوں گے‘ بیرونی سرمایہ کاروں کا منافع باہر جانے، ایل سی نہ کھلنے کے مسائل ختم ہوگئے۔ 30 جون کو ختم مالی سال ملٹی نیشنلز کا 2.3 ارب ڈالر کا منافع باہر گیا ہے، ایف بی آر کے اضافی اختیارات کا انکم ٹیکس نہیں سیلز ٹیکس سے تعلق ہے‘حکومت کے پاس جتنی مالیاتی اسپیس تھی اتنا ریلیف تنخواہ داروں کو دے چکے ہیں‘ غذائی اشیاء کی قیمتیں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں، ملک بھر کے تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کو مذاکرات کے لیے 15 جولائی کو(آج )مدعوکیا ہے ۔کراچی میں اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس کے ارکان سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ 19 جولائی کی ہڑتال سے متعلق تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کا موقف بھی سنیں گے اور اپنا موقف بھی سمجھائیں گے‘ محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ ایف بی آر کے اختیارات کا انکم ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں، ایف بی آر کے اضافی اختیارات پر چیمبرز کے صدور سے اہم ملاقات ہوگی اور انہیں بھی سمجھائیں گے۔ ایف بی آر کے اضافی اختیارات 5کروڑ روپے سے زائد سیلز ٹیکس غبن کرنے والے فرد پر لاگو ہوں گے۔ ایف بی آر کے اضافی اختیارات کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ بینکوں کی جانب سے اب نجی شعبے کو قرضوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔24 سرکاری اداروں کو نجکاری کمیشن کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ریفنڈ مسائل کو جلد حل کر لیا جائے گا۔ترسیلات زر کا حجم قابل تحسین ہے اور آئندہ دنوں میں ملکی اشاریے مزید بہتر ہوں گے، رواں ماہ 75ارب روپے کے سیلز ٹیکس ری فنڈ ادا کر دیے گئے ہیں۔ ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو ماہانہ بنیاد پر ای سی سی خصوصی طور پر فوکس کر رہی ہے‘اسٹرکچرل سلوشن کیلئے ڈی ریگولیشن فارمولے کو ہر صورت اپنانا ہوگا‘کون سا وزیرِ خزانہ ہے جو تیز نمو نہیں چاہتا؟پاکستان میں تمام سیکٹرز کو ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے تو بہتری آئے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے او آئی سی سی آئی کی اعلی قیادت کو اسلام آباد مدعو کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں نمایاں کمی کی ہے اور وزیراعظم ہر وزارت کی کارکردگی کا ذاتی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر خزانہ نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اراکین سے ملاقات کی ‘انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ موجودہ رفتار مثبت ہے، لیکن پاکستان کو طویل المدتی معاشی استحکام کے لیے اہم اسٹرکچرل اصلاحات کو جاری رکھنا ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہہم معیشت میں ابتدائی بحالی کی علامات دیکھ رہے ہیں لیکن بار بار پیدا ہونے والے عدم استحکام سے بچنے کے لیے پاکستان کو جرات مندانہ اور بعض مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔وزیر خزانہ نے OICCI ممبران کے تحفظات سنے اور پالیسی سطح پر موجود چیلنجز کو دور کرنے اور ملکی سرمایہ کاری کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔