• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: نئے سلسلے نے دل خُوش کردیا ....

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

نئے سلسلے نے دل خُوش کردیا

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارت کاری سے متعلق بہترین تجزیہ پیش کیا، پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ آپ نے نیا سلسلہ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ شروع کر کے تو دل خوش کردیا۔ عرفان جاوید کا بھی بےحد شکریہ۔ اور ہاں، آپ کا’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ بھی زبردست ہوگیا ہے۔ 

معیار کی بہتری پر مبارک باد قبول کریں۔ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں شگفتہ بانو اور مجاہد لغاری دونوں کا نام ایک ہی عنوان ’’پچھتاوا‘‘ سے لکھی تحریر کے ساتھ شایع ہوا، کیا دونوں نے ایک ہی موضوع پر لکھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)

ج: دونوں کی تحریریں، موضوعات مختلف، لیکن عنوان ایک ہی تھا۔

سہرا دو افراد کے سر ہے

25 ؍مئی کےجریدے میں ’’یومِ تکبیر‘‘ سے متعلق حافظ بلال بشیر کا مضمون پڑھا۔ اُنھوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ٹھیک ہی لکھا، مگر حافظ صاحب اپنے حافظے میں پاکستان کے عظیم ہیرو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام محفوظ نہ رکھ سکے۔ جن کا ذکر کیا، سب قابلِ احترام سہی، لیکن سب ڈاکٹر صاحب ہی کے طفیل ہیں۔ 

اُنھیں سوچنا چاہیے تھا کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر نے ملک کو ایٹمی طاقت نہ بنایا ہوتا، تو آج ہمارا کیا حال ہوتا۔ آوازِ خلق کو نقّارۂ خدا سمجھنا چاہیے، آج بچّے بچّےکی زبان پر ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مُلکی ایٹمی صلاحیت کے حصول کا سہراصرف دو افراد کے سر ہے۔ ایک ڈاکٹر عبدالقدیر اور دوسرے ذوالفقار علی بھٹو۔ ڈاکٹر صاحب بہت معصوم انسان تھے، اپنی شان دار ملازمت چھوڑ کے، محض ایک عزم کے تحت پاکستان آگئے اور اللہ رب العزت نے اُنھیں سُرخ رُو بھی کیا۔ 

بہرحال، کہنا یہ تھا کہ کسی مدیر کو جب کوئی تحریر موصول ہوتی ہے، تو یہ اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اُس کے ہر ہر پہلو کا اچھی طرح جائزہ لے، حقائق کی جانچ پڑتال کرے اور اُس میں جو کمی بیشی ہو، اُسے دُور کرنے کے بعد اُسے شایع کرے اور یہ مَیں اس لیےکہہ رہا ہوں کہ مجھےخُود میدانِ صحافت میں چوالیس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے۔ (سلیم احمد)

ج: اوّل تو مضمون ’’یومِ تکبیر‘‘ سے متعلق تھا، جس میں ایٹمی دھماکوں پر کسی حد تک سیاسی تناظر میں بات ہوئی۔ پورے مضمون میں کسی ایک بھی ماہر، سائنس دان، قومی ہیرو کا نام نہیں لیا گیا، لیکن مجموعی طور پر مُلک کے تمام ترمحسنین کی خدمات کو تہہ دل سے خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا گیا اور یقیناً اُن میں سرفہرست ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی کا نام ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم ’’سازشی تھیوریز‘‘ گھڑنے میں ماہر ہے۔ 

ہر معاملے سے کوئی نہ کوئی سازش ڈھونڈ نکالنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور آپ نے بھی مختلف تراشوں کے ساتھ خط بھیج کر کچھ ایسی ہی کوشش فرمائی، جب کہ حقیقتاً مضمون نگار اور خُود ہمارے سان وگمان میں بھی ایسی کوئی بات سِرے سےنہ تھی۔ اور ہاں چوالیس سال کا عرصہ تھوڑا نہیں ہوتا، اتنی مدت میں، کم ازکم تحریرمیں کچھ ربط ضبط تو آہی جانا چاہیے اور یہاں حال یہ ہے کہ پورا خط نئے سرے سے لکھنا پڑا۔

ساس، ماں ہی ہوتی ہے …

25؍مئی کے شمارے میں عندلیب زہرا کی تحریر ’’ساس بھی ماں بن سکتی ہے‘‘ نظر سے گزری۔ مَیں اِن کی تحاریر شوق سے پڑھتی ہوں، اچھا لکھتی ہیں، مگر معذرت کے ساتھ، اپنی اِس تحریر میں تویہ انیسویں  صدی کا قصّہ لے بیٹھیں۔ ’’ساس بیٹے، بہو کا پیار دیکھ کر حسد کرتی ہے۔ ساس، بہو کو بیٹی نہیں سمجھتی۔ 

ساس، بیٹی اور بہو میں بہت تفریق کرتی ہے۔‘‘ یہ سب باتیں اب قصّۂ پارینہ ہوئیں۔ آج کی ساسیں بہت پڑھی لکھی، سمجھ دار، سنجیدہ و بُردبار ہیں۔ اب شاذ و نادرہی ایسی کوئی بات سُنی جاتی ہے۔ نامعلوم کیوں، ساس، بہو کے رشتے میں ہمیشہ ساس ہی کو ظالم، ولن دکھایا جاتا ہے۔ وہ عورت، جو اپنا تن من دھن وارکے، بیٹے کو تعلیم وتربیت دیتی، اُس کی شخصیت کی تعمیر کرتی، اُسے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بناتی ہے۔

پھر اُس کے لیے مَن پسند بیوی لا کر اُس کا گھر آباد کرتی ہے، وہ بھلا اپنے ہی بیٹے، بہو سے کیوں حسد کرے گی۔ اصل میں ہمارے یہاں شروع سے بیٹیوں کے کانوں میں  ایک ہی جملہ ڈالا جاتا ہے۔ ’’اللہ کرے، ساس اچھی ہو۔‘‘ تو لامحالہ بچیوں کے ذہنوں میں ساس کی شخصیت کا خاکہ ہی کچھ خوف ناک بنتا ہے، جب کہ موجودہ دَورکی ساسیں، چوں کہ ماضی کی روایتی ساسوں کے تلخ و شیریں رویے بھگت کر آئی ہیں، تو اب اُن کا طرزِ عمل یک سر تبدیل ہوچُکا ہے۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)

ج:اللہ آپ کا حُسنِ ظن (حُسنِ زن بھی) قائم و دائم رکھے۔ ممکن ہے، آپ کے خیرپور میرس میں طرزِعمل یک سرتبدیل ہوگیا ہو ، عمومی صورتِ حال ہنوز کچھ اتنی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ زارا قدیر سانحے کو ابھی کچھ زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا کہ جس میں ساس نے(اور سگی خالہ بھی) اپنی بیٹی کے ساتھ مل کرحاملہ بہو کو نہ صرف ذبح کیا، بلکہ لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے، جلا کے مسخ بھی کردیا۔

سب کا بہت اپنا جریدہ

’’’سنڈے میگزین‘‘کا سلسلہ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ ایک لاجواب کاوش ہے، جس میں ایک دل کی آواز، دوسرے دِل تک پہنچانے کی بھرپور سعی کی جاتی ہے۔ خدا کرے، جریدے کی یہ حسین روایت سدا برقرار رہے۔ ویسے تو سنڈے میگزین کا ہر ایک صفحہ ہی اپنی جگہ باکمال ہے۔

ہم پیارا گھر، متفرق، اشاعتِ خصوصی، سنڈے اسپیشل، حالات و واقعات، ہیلتھ اینڈ فٹنس، انٹرویو، خُود نوشت، گفتگو، کہی ان کہی، ڈائجسٹ، اِک رشتہ، اِک کہانی اور آپ کاصفحہ سب ہی سے خُوب محظوظ ہوتے ہیں۔ سچ کہیں تو یہ جریدہ ہم سب کا بہت اپنا جریدہ ہے۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوگلیہ، شکارپور)

صبر کی پھکّی، شُکر کا چورن، محنت کا پھل

گلابی رنگ سے سجا سجایا اور ’’ماں کا احساس چھاؤں جیسا ہے…‘‘ کا عنوان لیے ’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ وصول پایا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سیّدہ تحسین عابدی نے شان دارمضمون پیش کیا، جو ماں کی عظمت و شفقت کی تجسیم تھا۔ بے شک، ماں کا کردار ہر گلی، کوچے، ہر ہر گھر میں مثلِ چٹان، عزم کا جھنڈا تھامے، قدم جمائے یہ عہد ایفا کررہا ہے کہ اپنی اولاد کومثل چراغ پروان چڑھانا ہے۔

منور مرزا پاک، بھارت کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا بہت عُمدگی سے جائزہ لے رہے تھے۔ اب تو یہ طے ہوگیا کہ ’’جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں۔‘‘ جو قوم سینے پرگولی کھانا اعزاز سمجھتی ہے، وہ بھلا گیدڑ بھبکیوں کو کیا خاطر میں لائے گی۔ باوجود اِس کے کہ ہم امن چاہتے ہیں، پاک افواج نے، دشمن کی اگلی کئی نسلوں تک کے لیے خُوب تسلی کردی ہے۔ رابعہ فاطمہ کا ’’آرٹیفیشل وومب ‘‘ سے متعلق مضمون تو مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال گیا۔ 

یہ دنیا آخر کہاں جا کے تھمے گی۔ عالیہ زاہد بھٹّی کی تحریر بھی اچھی تھی، لیکن مجھے اُس کی نسبت، فرحی نعیم کی کاوش زیادہ سُود مند، ہلکی پُھلکی اور حقیقت کے قریب لگی۔ جہاں تک بات ہے، صبر کی پھکّی، شُکر کے چورن، محنت کے پھل کی، تو مَیں میں یہی کہوں گی کہ ہر چیز توازن میں اچھی لگتی ہے۔ مَیں اِس امر کی مخالف نہیں کہ بیٹی کو صبرو شکر کا درس نہیں دینا چاہیے، لیکن بیٹےکو عورت کی عزت سکھانا کہیں زیادہ ضروری ہے۔ 

اور آپ کے عالمی یوم کے خاص اہتمام کو لیے فقط اتنا ہی کہنا ہے کہ ’’یو آر گریٹ، خُوب صُورت ابتدا، بہترین انٹرویو اور شان دار اختتام۔‘‘ ’’متفرق‘‘ کی بھی تمام تحاریر ہلکی پھلکی اور فائدہ مند تھیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے کا جواب نہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثانیہ انور کی ’’تھکن‘‘ کی تو کیا ہی بات تھی۔ 

کرن نعمان کی ’’پیوستہ‘‘ تمثیلی انداز میں عُمدہ سبق دے گئی۔ پیاروں کے نام تمام ہی پیغامات چاہتوں، محبتوں کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سیّد زاہدعلی کی مریدی اور نواب صاحب کی پیری فقیری کا بھی ایک الگ ہی زون چل رہا ہے۔ (ایمن علی منصور)

ج: سو فی صد بجا فرمایا۔ ’’ہر چیز میزان میں اچھی لگتی ہے۔‘‘

آٹھ سال کی عُمر میں شادی…؟؟

مئی کا پہلا شمارہ پبلک لائبریری میں بیٹھ کر پڑھا۔ صد شُکر گزشتہ کچھ ماہ سے شہر کی سرکاری پبلک لائبریری پڑھنے ہی نہیں، بیٹھنے کے بھی قابل ہوگئی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں اس بار ادب کا تڑکا نظر آیا، ڈاکٹر محمّد اکرم سلطان کی تحریر کا عنوان تھا۔ ’’دل، شعر و شاعری ہی نہیں، حیاتِ انسانی کا بھی محور و مرکز‘‘ شاہد شیخ نے’’پاکستان سُپر لیگ کے شان دار10سال‘‘کی تاریخ پرخُوب روشنی ڈالی۔ 

رابعہ فاطمہ کی ’’گوریلا مارکیٹنگ،پراڈکٹس کی تشہیر کا جدید انداز‘‘ منفرد موضوع پرعُمدہ نگارش تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی دونوں  تحریریں اہم مسائل کا احاطہ کررہی تھیں۔ جمیل ادیب سیّد ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں  نظر آتے ہیں، اس بار ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں دکھائی دیئے کہ اُن کی لکھی نظم کا ’’وہ رانی روپ کی، جس کا ہمیشہ روُپ رہے…‘‘ آپ کی تحریر میں حوالہ لُطف دے گیا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں جاوید جمال کی باتیں مزے کی تھیں، مگرحیران کُن بات یہ رہی کہ 1969ء میں پیدا ہونے والے جاوید جمال کی 1977ء میں شادی ہوگئی، یعنی آٹھ سال کی عُمر میں؟ اسرار ایوبی کی ’’بقراط دوم‘‘ دل چسپ، معلوماتی تحریر تھی۔ 

قدر پرواز کا ’’ایک سفر، انجینئرنگ یونی ورسٹی کی بس کا‘‘ پڑھ کر بھی محظوظ ہوئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک قاری نے لکھا کہ ’’جو ہوچُکا، اُسے دہرانے کا فائدہ؟‘‘ بھائی! یہ ہم جو ہر ہفتے پڑھتے ہیں، وہ سبھی کچھ گزرے وقت ہی کا تو حصّہ ہوتا ہے۔ مئی کے دوسرے اتوار ’’ماؤں کے عالمی یوم‘‘ کی مناسبت سے جریدہ ہمیشہ ہی متاثرکُن تحریریں لاتا ہے۔ سیّدہ تحسین عابدی کی ’’ماں: اقوام کی معمار‘‘ بہت اچھی تحریر تھی۔ 

آپ کے پاس گنجائش کم ہوتی ہے، وگرنہ نگارش طوالت کی متقاضی تھی۔ ’’آرٹیفیشل وومب‘‘ بھی ایک منفرد تحریر لگی۔ منور مرزا کا ’’بھارت خطّے میں امن کیوں نہیں  چاہتا؟‘‘ بیش قیمت تجزیہ تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں  عالیہ زاہد بھٹی، فرحی نعیم نے ماں کی محبت لطیف پیرائے میں پیش کی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں مشتاق احمد سیال نے اپنی ماں کی جو کہانی لکھی، وہ ہمارے معاشرے کی ہر ماں کی کہانی ہے کہ مائیں سانجھی ہوتی ہیں اور ان کے دُکھ سُکھ بھی۔

وہ کیا ہے کہ؎ سب نے اپنے اپنے تحفے بانٹ لیے…حال سفر کا میری ماں نے پوچھا تھا۔ ثانیہ انور نے’’تھکن‘‘ میں ایک ماں کی اولاد سے محبّت اور آزمائش کو بڑی خُوب صُورتی سے اجاگر کیا اور ’’پیوستہ‘‘ میں ماں، بیٹوں کی جذباتی وابستگی کی بہترین منظر کشی تھی۔ طاہر گرامی کا پچھلا خط بھی نظرسے گزرا تھا، گزارش ہے کہ جتنی کوشش شاعری کو شاعری ثابت کرنے میں کررہے ہیں، اُتنی سیکھنے کے لیےکریں، تو شاید شاعر بن ہی جائیں۔ 

سیّد زاہد علی کی نواب زادہ سے محبت پرکیا کہیں کہ نواب صاحب کو تو اِن کا نام بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ قرات نقوی ستائش کی مستحق ہیں کہ ٹیکساس (امریکا) میں رہ کر بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ سے جُڑی ہوئی ہیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: معذرت خواہ ہیں، جاوید جمال کی تاریخِ پیدائش 1960ء ہے، سہواً 1969ء لکھی گئی، قارئین درستی فرما لیں اور آپ کا بے حد شکریہ، بالکل درست نشان دہی فرمائی۔

                          فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سنڈے مارننگ کو ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ ذوقِ سلیم اور پھر تبصرہ لکھنا شوقِ حلیم ہے، سال کے گرماگرم مہینے مئی کے پہلے ہفتے کا نرم نرم شمارہ پیشِ نظر ہے اور اس کا رنگا رنگ ٹائٹل زیرِ جگر ہے، مخملیں کلائی پر سنہری گھڑی باندھے کھمبے سی کھڑی ماڈل بھلی لگی۔ مضمونِ اول، گو کہ کینیڈا کےعام انتخابات سے متعلق تھا، تاہم امریکی صد ٹرمپ کاذکرِ با تصویر دیکھ کر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوئی ہےکہ انکل سام کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ 

اگلے صفحے پر ’’دل نامے‘‘ میں لکھا تھا، جب کوئی محبّت میں مبتلاہوتا ہے، تو دل باقاعدہ زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے، اور قلبِ سلیم نے یہ بھی محسوس کیا کہ جب مبتلائے عشق ناکام ہوجاتا ہے، تودل بےقاعدہ ہوکرہارٹ اٹیک کی طرف لےجاتا ہے۔مطلب، مینوں عشق دا لگیا روگ…میرے بچنے دی نئیں اوکوئی اُمید۔ 

آپ ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمان کہ’’سیاہ فام اقوام کو شاذ و نادر ہی جِلد کا کینسر ہوتا ہے‘‘ پڑھ کر زبان پر بےاختیار نور جہاں کاگانا ’’کالا شا کالا، میرا کالا اے دل دارتے گوریاں نوں پراں کرو‘‘ آگیا۔ ’’پی ایس ایل کے شان دار دس سال‘‘ مضمون خُوب دل لگا کے پڑھا۔ 

اچھا، ہون ٹالھی تھلے بئے کے کجھ کھان پین دیاں گلاں کر لئیے کہ روایتی کھانوں کو جدّت کا تڑکا لگ رہا تھا تو ہم نے بھی لیمونیڈ کے لبالب شیش گلاس پر نصف لیموں اَڑا کراِسٹرا سےنوش فرما لیا۔ آگے لکھا تھا ’’زبان سے نکلے کلمات تخت پر بٹھا سکتے ہیں‘‘ اِس پردل گنگنایا۔’’شہبازکرے پرواز‘‘ (جی جناب!) مزید لکھا تھا ’’تو تختۂ دار پر بھی لےجاتے ہیں‘‘ تو قیدی نمبر 804، پر پیار آگیا۔ بے حد اور بے حساب آگیا۔ (ہم کوئی غلام ہیں؟) صفحاتِ اسٹائل کےلیے دوست شاعر نے ’’رُوپ متی‘‘ کے عنوان سے بطورِ خاص نظم لکھی تو دلِ شیفتہ گنگنایا۔ ؎ پری ہے، حور ہے، کوئی بلا ہے، رانی ہے …مَیں جانتا ہوں کہ یہ صُبحِ زندگانی ہے۔ 

غزل پنڈال میں غزلِ اوّل نے قرار واقعی تن کو گھائل اور من کو مائل بہ عشق کر دیا۔ تاہم دوسری غزل کے نام پر ایک نظم تھی کہ اُس میں وارداتِ حُسن تھی، نہ جمالِ یار،جب کہ مقطع خُود ادبی بےادبی کا غمّاز تھا۔ اور اب لٹریری ٹورآن پہنچا ہے، لاسٹ اسٹاپ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر، جہاں ہم سےفاضل تبصرہ نگار خطوط لکھ کرجیتے ہیں، تو وہیں شائقین ایڈیٹر صاحبہ کے شائستہ و شُستہ اور شاہدہ و شگفتہ جوابات پرمرتےہیں۔ اب دیکھیں،لائل پوری راجا کی شُستہ ورُفتہ نگارش کا نصیبہ کیا ہوتا ہے۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: نصیب کے تو آپ ہمیشہ ہی سے دھنی ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین بصد شوق پڑھتا ہوں، بہت سے موضوعات پسند آتے ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پڑھا، تو کچھ تجاویز سوجھیں۔ بچّوں کا صفحہ لازماً شامل ہونا چاہیے اور اُسے کچھ طویل، رنگین پرنٹ ہونا چاہیے، کیوں کہ بچّے بلیک اینڈ وائٹ صفحات پر متوجّہ نہیں ہوتے۔ نوجوانوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ مواد شایع ہونا چاہیے۔ نیز، کیرئیر کاؤنسلنگ پر بھی کچھ معلومات ضرور فراہم کی جائیں۔ (احمد خان)

ج: محترم! یہ تجاویز واقعتاً ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کے لیے ہیں؟ آپ نے اِس کی بلیک اینڈ وائٹ اشاعت کیا خواب میں ملاحظہ فرمائی تھی۔ یہ اپنی ابتدا سے تاحال کلرڈہی شایع ہورہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب اتوار ہی کے روز بچّوں اور نوجوانوں کے لیے بڑے رنگین صفحات شایع ہو رہے ہیں، تو سنڈے میگزین میں اِن صفحات کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ سو، آپ کو جو تجاویز سوجھی ہیں، وہ ہمیں بالکل سجھائی نہیں دیں۔

* شمارہ گود میں رکھے (آئی پیڈ پہ کھولے) بیٹھی ہوں، کھڑکی سےخُوب زور و شور سے برستی بارش دکھائی دے رہی ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس، اشفاق احمد کے ’’خانوادے‘‘ پر کیا شان دار تحریر لائے۔ ’’اسٹائل بزم‘‘ کافی عرصے بعد ننّھے مُنے بچّوں کے پہناووں سے سجی بےحد اچھی لگی۔ 

ویسے آپس کی بات ہے، آج کل کے بچّوں میں وہ معصومیت نہیں رہی، جو کبھی ہوا کرتی تھی۔’’ڈائجسٹ‘‘کی دونوں نظمیں بہت پسند آئیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خادم ملک کی 15 کروڑکی ڈیمانڈ پڑھ کے ہنسی چُھوٹ گئی۔

اگلے شمارے میں اقصیٰ پرویز کراچی کےمسائل بیان کررہی تھی۔ مجھےاپنی کراچی کی زندگی یاد آگئی، جب ہم بھی پانی، آبِ زم زم کی طرح استعمال کرتے تھے۔ ذوالفقار چیمہ کی ’’خُود نوشت‘‘ کی یہ قسط بہت ہی دل چسپ تھی۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم مشرقی ومغربی پہناووں کے تال میل سے سجی تھی اور آپ کا اندازِ تحریر، اشعار کا چناؤ تو ہمیشہ دل ہی لے جاتا ہے۔ اور پھر…اچانک اپنی بھیجی گئی تحریر پر نظر پڑی۔ ہائے، دل خوشی سے جُھوم اٹھا۔ ہاں، شگفتہ ضیاء کا اقبال کےاشعار سے مزیّن افسانہ بھی بےحد و حساب پسند آیا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بابر سلیم کو دیا گیا جواب پڑھ کربھی بہت ہنسی آئی۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk