• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کمپاؤنڈرز کے مسائل

پورا شمارہ پڑھا، رائے حاضرِ خدمت ہے۔ سیّدہ تحسین عابدی نے ’’مدرز ڈے‘‘ کی مناسبت سے شان دار مضمون تحریر کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ’’پاک، بھارت تعلقات‘‘ پر رقم طراز تھے۔ رابعہ فاطمہ ’’آرٹی فیشل وومب‘‘ پر ایک منفرد تحریر کے ساتھ آئیں۔ ’’مدرز ڈے‘‘ ہی کے حوالے سے آپ کی تحریر بھی بہت پسند آئی۔ 

ارشد حسین نے صرف نرسز کے مسائل بیان کیے، اُنھیں کمپاؤنڈرز کے مسائل پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔ مَیں نے بے شمار کمپاؤنڈرز دیکھے ہیں، جو بے چارے ساری زندگی کمپاؤنڈری کرکر کے اللہ کو پیارے ہوگئے، مگر اُنھیں، ڈاکٹری کی سند نہیں ملی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی ماؤں کے یوم کی مناسبت سے مرتّب کیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی نگارشات بھی اسی سے متعلق تھیں۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’روشنی کے مینار‘‘ کے عنوان سے زبردست مضمون کے ساتھ تشریف لائے۔ 

منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ پر اپنی گرفت بہت مضبوط رکھی ہوئی ہے۔ تحسین عابدی نے’’امن ہمارا اصول، دفاع ہمارا فرض‘‘ کے عنوان سے زبردست مضمون تیار کیا۔ ثانیہ انور ٹریفک حادثات پر روشنی ڈال رہی تھیں اور اس ضمن میں عُمدہ تجاویز پیش کیں۔

’’نئی کہانی، نئی فسانہ‘‘ دل چسپ سلسلہ ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عبدالستار ترین نے پہلے بھی اوستہ محمّد کے مسائل پر توجّہ مبذول کروائی، لیکن کوئی سُننے والا نہیں ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں لگاتار دوسری بارخط شامل کرنے کا شکریہ۔  (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: کمپاؤنڈرز کو ڈاکٹرکی ڈگری…؟آپ پچھلے کئی خطوط میں اپنی کم علمی کا ذکر کرتے رہے ہیں، لیکن اب ایسی بھی کیا کم علمی۔ مُلک میں صحتِ عامہ کی صُورتِ حال پہلےہی ناگفتہ بہ ہے، اُس پر کمپاؤنڈرز کو ڈاکٹرکی ڈگری دے کرعوام کو بےموت مارنے کا مشورہ کم ازکم کوئی تعلیم یافتہ شخص تو نہیں دے سکتا۔

ضروری نہیں ہوتا، جن باتوں کی الف، بے نہ پتا ہو، اُن پر بھی رائے زنی کی جائے۔ اور پھر نرسز کے عالمی دن پراُن ہی کی بات ہوگی، کسی اور کی کیوں؟؟ براہِ مہربانی، مختصرخط لکھا کریں اور صرف اُن مندرجات پر اظہارِ خیال فرمائیں، جو آپ کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہوں۔

شام جی کا انٹرویو پڑھوا دیں

21ویں صدی کےسِلورجوبلی سال (2025ء) کے چوتھےماہ کا تیسرا شمارہ دستِ شیدا آیا، تو ’’نظر کے سامنے، جگر کے پاس‘‘ کے مصداق سیدھا دلِ مشتاق میں سمایا۔ شان دار پیش کش کے ایماں افروز صفحے سے آغازِ مطالعہ کیا، اگلے صفحے کو انٹرنیشنل ایکشن ہیرو، ڈونلڈ ٹرمپ کے عاید کردہ ٹیکسز کے سبب ’’جگا ٹیکس‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ 

اسلامی اسکالر نے فِکرانگیز الفاظ اذہان کو ارسال کیے کہ ’’مسلمان صرف تلاوت ہی کو دنیا و آخرت کی نجات گردانتے ہیں، جب کہ مُنکرینِ اسلام قرآن پر تحقیق کر کے بالادست ہوگئے۔‘‘ اسپیشل صفحے پر قلم کار نے سائنس ومذہب میں صلح کی کام یاب کوشش کی۔ ذوالفقارچیمہ کی سروس ہسٹری ورق بہ ورق قارئین تک پہنچانا بھی مساعیٔ جمیلہ ٹھہری۔ کتاب میلے کی سہہ شماری سیر سے عُقدہ کُھلا کہ مبصّرین کی باری بندھی ہوئی ہے۔ 

’’اسٹائلِش کمنٹری‘‘ سےصفحہ ورسٹائل ہوگیا، تو شگفتہ مزاج سیاست دان حافظ حسین کا سابق صدر رفیق تارڑ سے متعلق فقرہ خُوب تھا۔ ’’تُو رفیق ہے کسی اور کا، تجھے تاڑتا کوئی اور ہے۔‘‘ مَن پسند صفحے کے آغاز میں ڈاکٹر خان کشمیرکاز پر شمشیرگرفتہ تو نواب صاحب ترویجِ چاپلوسی پر کمربستہ تھے۔ 

مسند نشینی پر راجا وَلّوں رانا نوں مبارکاں! کاغذی ملاقات کی آخری گھڑی، اِک نِکّی جئی فرمائش کہ استاد صحافی شام جی کا انٹرویو پڑھوا دیں، تو ہم ہر شام یوں ترانۂ تشکّر گاتے رہیں۔ ’’یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے مِلتے جُلتے ہیں… تیرا نام نہیں لوں گا، بس تجھ کو شام کہوں گا۔ 

اگلے جریدے کے صفحہ اوّل پر’’رپورٹ‘‘ کیا تھی، بلوچستان کی پس ماندگی کا نوحہ تھا۔ خود نوشتِ چیمہ کی لاسٹ ایپی سوڈ کی لائن نمبر9 تھی ’’مجھ سے مخاطب ہو کر بولے۔‘‘ خیالِ راجا ہے کہ ’’مجھ سے مخاطب ہوئے‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ تعطیلِ یومِ مزدور پر ’’مزدور نامہ‘‘ پڑھا۔ حُکّامِ سطوت سے گزارش ہے، یکم مئی کی اِک اضافی دہاڑی مزدوروں  کو دے کرخالص دُعائیں لیں۔ جاپان نامے کی حرفی راہ داری سے جب ہم گزرے تو’’نظرے خوش گزرے‘‘ ۔

دلِ جمہوریت نواز نے یہ نکتۂ دِل نواز پایا، ’’نظام کو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں سے سیکھنے، درست ہونے کا موقع دینا چاہیے‘‘ بھئی، اب نِظام ڈکٹیشن میں پکا ہوگیا ہے، اِس لیے ایک پیج پر ہے۔ عالمی ایّام پر خصوصی اشاعت، دستک ِدل ہی نہیں، حُکامِ بالا کے اذہانِ خرگوش کے لیے اِک تازیانہ بھی ہوتی ہے۔ 

میگزین کی آن بان اور شان بڑھانے واسطے آپ ہما شما کو’’ہائیڈ پارک یاترا‘‘ کے لیے ہَلّا شیری (باالفاظِ دیگر آبیل مجھے مار) دیتی ہیں، تو زیادہ ترنامہ نگار قرار واقعی تبدیلیٔ رائےکرتے ہیں، لیکن اِک آدھ دلِ ناداں تبدیلیٔ ناجائز (تبرّا) بھی فرماتے ہیں، اُس پر آپ کی تجاہلِ عارفہ (اعلیٰ ظرفی) کو سلام۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: آپ کی واپسی طویل عرصے بعد ہوئی، مگر خوشی اس بات کی ہے کہ تحریر کی لطافت وچاشنی، سلاست و روانی جُوں کی تُوں ہے۔ محمود شام صاحب کا انٹرویو کروانے کی پوری کوشش رہے گی۔

سوال نہ کرنا حیران کرگیا !!

شمارہ ’’مدرزڈے‘‘ کی مناسبت سےتھا۔ سرِورق پرماں، بچّوں کو دیکھتے’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سیّدہ تحسین عابدی کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ سیّد زادی نے کمال تحریر رقم کی۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، اوّل مومنہ، اُم المومنین اور بیٹی فاطمۃ الزہرہؓ، جنت کی عورتوں کی سردار کے حوالہ جات کو مسلم خواتین کی رول ماڈلز کے طور پر پیش کیا گیا۔ قوم کی ماں، محترمہ فاطمہ جناح، بھائی کے ساتھ تحریکِ پاکستان کی جنگ میں صفِ اول میں نظرآئیں، تو محترمہ بےنظیر بھٹّو وطن پر نثار ہوگئیں۔ 

بلاشبہ، تاریخِ اسلامی اور تاریخِ پاکستان خواتین کے کارناموں سے بَھری پڑی ہے، جنگ ہو یا امن اِن کا کردار مثالی رہا۔ حضرت زینبؓ کا یزید کے دربار میں پُرجوش خطاب بھی تاریخ کا حصّہ ہے۔ نپولین نے کہا تھا۔ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، مَیں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ ہمارے محلے کی ایک اماں جی کہا کرتی تھیں۔ ’’تم جس گھرمیں نو ماہ رہے، اُس کےایک دن کا کرایہ ادا نہیں کرسکتے، چاہے بادشاہ ہی کیوں نہ بن جاؤ۔‘‘ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا مجسم سوال تھے کہ ’’بھارت خطّے میں امن کیوں نہیں چاہتا؟‘‘کیوں کہ ہندو توا کا نظریہ ظلم وتشدّد، تعصب ہی کی بنیاد پر قائم ہے۔ 

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں رابعہ قیصر اور اُن کے بچّوں سے گفتگو ہمیشہ کی طرح بہترین تھی، لیکن شوہر اور سُسرال سے متعلق کوئی سوال و جواب نہ ہونا حیران کرگیا۔ آپ کہنہ مشق صحافی ہیں،  زیادہ حیرانی آپ کے اُن سے متعلق سوال نہ کرنے پر ہوئی۔ ارشد حسین نرسز کےمسائل اور چیلنجز سے آگاہ کر رہےتھے، تو فرحین درختوں کی بےدریغ کٹائی پر نوحہ کُناں تھیں۔ ’’تھکن‘‘ کے عنوان سے ثانیہ انور کا افسانہ دل چُھو گیا۔ اگلے شمارے کے سرورق پر رُوپ کی رانی کا رُوپ دیکھتے منور مرزا سے جا ملے۔

رابعہ فاطمہ کی ’’گوریلا مارکیٹنگ‘‘ پر چونک گئے کہ یہ بھی گوریلا جنگ سی کوئی بلا تو نہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈفٹنس‘‘میں دل کی بیماریوں سے آگاہی دی گئی۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر، جاوید جمال کی فنی زندگی پر بات چیت کرتے نظر آئے۔ 

نئی کتابوں پر اختر سعیدی ہمیشہ ماہرانہ تبصرہ ہی کرتےہیں۔ قدر پررواز کی تحریر، یوسف سولنگی کے اقوال، بابر سلیم کے جواہر پارے اور پرنس افضل کی اچھی باتیں بہت اچھی لگیں اورہماری چٹھی کو اعزاز دینے کا بےحد شکریہ۔  (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ایک خاتون، جو ہماری مہمان ہیں، گفتگو کے آغاز ہی میں کہہ رہی ہیں کہ وہ سنگل پیرنٹ ہیں۔ نیز، وہ شوہر، سُسرال سے متعلق کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں، تو ہم ناحق اپنی ’’کہنہ مشقی‘‘کے خمار میں صحافتی اخلاقیات کے برعکس لٹھ لے کے اُن کے پیچھے پڑ جاتے۔ یوں بھی ’’مدرزڈے‘‘ کی مناسبت سے ہمارا سارا فوکس ماں، اولاد کے رشتے ہی پر تھا، تو دیگر غیر ضروری سوالات سے گریز ہی کیا گیا۔

مِنی انسائیکلو پیڈیا

’’سنڈے میگزین‘‘ کا ہر ہفتے ہی بہت بےچینی سے انتظار کرتی ہوں اور کم و بیش ہر مضمون سے استفادہ بھی، کیوں کہ اگر ہم آج بھی وہی ہیں، جو کل تھے، تو پھر زندوں میں شمارنہیں ہوسکتے۔ مطالعے کے ساتھ دل سے دُعائیں بھی دیتی جاتی ہوں، اُن لکھاریوں کو، جنہوں نے اپنی کاوشوں سے اِس جریدے کو ایک ’’مِنی انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں تبدیل کردیا ہے، البتہ ہر مرتبہ قلم نہیں اٹھاتی۔ تاہم، 18مئی کے سنڈے میگزین پر تبصرے سے خُود کوروک نہ سکی کہ جریدے میں  موجود ہر آرٹیکل جامع اور حالاتِ حاضرہ کے عین مطابق تھا۔

محمود میاں نجمی نےحضرت جعفر طیارؓ کی زندگی کے کم و بیش ہر ایک پہلو کو پُر اثر انداز میں بیان کیا، جس سے نہ صرف ایمان تازہ ہوا، دشمنانِ اسلام سے مقابلے کی جرات بھی پروان چڑھی۔ منور مرزا نے پاک، بھارت جنگ پر سیرحاصل تبصرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کو اِس خوف ناک حقیقت سے آگاہ کیا کہ ایٹمی جنگ کوئی کھیل تماشا نہیں، خدانخواستہ لاکھوں جانوں کا زیاں، کروڑوں افراد کی معذوری ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔

ثانیہ انور نے ’’ٹریفک حادثات‘‘ سے متعلق جو تجاویز دیں، اُن پرعمل درآمد کی مُلک کو اشد ضرورت ہے۔ نیز، خستہ حال سڑکیں، ٹریفک پولیس کی چشم پوشی بھی حادثات کا بڑا سبب ہے۔ مکتابی ذخیرے سے جن کتب کا انتخاب ہوتا ہے، لاجواب ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل نے ذیابطیس سے متعلق سیرحاصل معلومات فراہم کیں۔ فزیو تھراپی پر مضمون بھی اچھاتھا۔ مزدوروں  کے عالمی دن سےمتعلق غلام ربانی نے پُراثر تحریر رقم کی۔ 

وہ کیا ہے کہ ؎ مَیں اپنے نام کی چُھٹی منا نہیں سکتا… مزدور ہوں، خالی ہاتھ گھر جانہیں سکتا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر ماڈل کے دل کش پیراہنوں  نے متاثرکیا، لیکن دوپٹا بس ہاتھوں ہی میں جُھولتا رہا۔ ہاں، آپ کی سحرانگیز تحریر سےمتعلق ضرور کہوں گی، جو آپ کے رائٹ اَپ نہیں پڑھتا، اپنے ساتھ بڑا ظلم کرتا ہے، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

نیز، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے خطوط نگاروں کے معصومانہ سوالات اور آپ کے ’’مدبرانہ‘‘ جوابات پڑھ کر تو مُسکرائے بغیررہا نہیں  جاتا۔ اعزازی چٹھی ضیا الحق قائم خانی کے نام ہوئی اور وہ اس کے حق دار بھی تھے، جب کہ برقی خطوط بھی بہت دل چسپ لگے۔ (شاہدہ ناصر، کراچی)

ج: بےشمار لوگ ہمارا رائٹ اَپ نہیں پڑھتے، بلکہ سچ کہیں تو ہمارے اپنے گھر میں کوئی نہیں پڑھتا۔ (ہم خُود بھی ایک بار لکھنے کے بعد دوبارہ نہیں پڑھتے)، تو مطلب ہر طرف ظلم ہی ظلم ہو رہا ہے۔

                        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اپریل کا تیسرا شمارہ لاہور میں دیکھا کہ سال میں لاہور کا ایک چکر ضرور لگتا ہے۔ خیر، پھولوں سے آراستہ ماڈل بہارآنے کا پیغام دے رہی تھی۔ ویسےتو گرمی نے اب دھیرے دھیرے آنے کے بجائے یک دم ہی اسپیڈ پکڑ لی ہے۔ کبھی مئی کے وسط میں آتی تھی، اب اپریل میں جوبن پر ہے۔ ڈاکٹر حافط محمد ثانی ’’محنت کی عظمت اورتوکل کی حقیقت‘‘پرخُوب صُورت تحریر لائے۔ 

ڈاکٹر عباسی کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اسپیشل موضوع تھا۔ مسلمانوں کا بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اُنہوں نے قرآن مجید کو محض متبّرک مان کر طاقوں میں سجا دیا ہے۔ وہ ماہرالقادری نے کہا تھا ناں ؎ جس طرح سے طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں… اسی طرح پڑھایا جاتا ہوں، اسی طرح سکھایا جاتاہوں۔ 

دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید ہےاور بدقسمتی یہ ہےکہ سب سے زیادہ نہ سمجھ کے پڑھی جانے والی کتاب بھی قرآن مجید ہی ہے،حالاں کہ قران ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ڈاکٹر آصفہ شاہد کی تحریرشگفتگی کے پیرہن میں سماجی المیہ تھی۔

ڈاکٹرز کی قربانیوں کو کورونا کے تناظرمیں  دیکھنا چاہیے، جب ہمارےاپنے، ہمارے وجود، کھانسی، چھینک سے دُور بھاگ رہے تھے، تو یہی معالجین، مریضوں کے ساتھ دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ چیمہ صاحب کی’’خُودنوشت‘‘ کی انتیسویں قسط حکیم محمّد سعید کی شہادت کے حوالے سے اہم رہی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے تینوں مضامین مختصر، مگر منفرد تھے۔ 

کرن نعمان کا افسانہ ’’ٹھپا‘‘ پڑھ کر گزشتہ الیکشن یاد آگیا۔ اپریل کا آخری شمارہ اتوار کی بجائے سوموار کو پڑھا۔ سید خلیل الرحمٰن نے بلوچستان میں بدترین ٹریفک حادثات، لوٹ مار کے واقعات کے ضمن میں اہم ’’رپورٹ‘‘ مرتب کی۔ ثانیہ انور کا ہرماہ کے اہم ایام کی مناسبت سے مضمون تیار کرنا بہترین کاوش ہے۔ کسی’’خُودنوشت‘‘ کی آخری قسط میں قارئین کی دل چسپی سب سے زیادہ ہوتی ہے، مگر اختتام متاثر کُن نہ تھا۔ ایک خیال یہ بھی آیا کہ اختتامیہ عجلت میں لکھا گیا ہے۔

’’یومِ مئی‘‘ سے متعلق رؤف ظفر، تحسین عابدی اورحافظ بلال کی تحریریں متاثرکُن تھیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘کی تحریر نپے تلےالفاظ سے گندھی تھی۔ ایک جملہ دل چُھوگیا کہ ’’کام یابی کا سہرا اپنے سرباندھنے، کریڈٹ لینے والے ہزاروں ہوں گے، مگر ناکامی کی ذمّےداری اُٹھانے والا کوئی ایک بھی نہیں۔‘‘ 

’’جاپان کی خوش حالی میں پاکستانیوں کے لیے پوشیدہ اسباق‘‘ زبردست تحریر تھی، تواحتشام انور مہار کا ’’کالی کلوٹی‘‘ ایک دُکھ بَھرا افسانہ ثابت ہوا۔ آہ! ایک ماں نے اپنی رنگت کے ساتھ جیسے تیسے زندگی گزار لی، مگر بیٹی کی پیدائش پر بولے جانے والے جملے میں سخت دُکھ پوشیدہ تھا، جو آنکھیں نم کرگیا کہ ’’میری بیٹی ہُوبہو میرا پَرتو، پرچھائیں ہے‘‘۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: جی، ’’خُود نوشت‘‘ کا اختتام کسی قدر عجلت ہی میں لکھوایا گیا کہ ہمارے خیال میں سلسلہ غیرضروری طور پر طویل ہورہا تھا۔

گوشہ برقی خطوط

* جنگ اخبار کا مطالعہ بچپن سے کرتا آرہا ہوں۔ یوں سمجھ لیں، ایک نشہ ساہے۔ لوگ صبح کے ناشتےمیں پائے، نہاری، انڈے، چنے وغیرہ پسند کرتے ہیں، لیکن میرا ناشتا جنگ اخبار ہی ہے۔ (ثناء اللہ سید)

ج: آپ کا اخبار کا نشہ ہنوز برقرار ہے، حیرت ہے، وگرنہ اب تو کیا ناشتا اور کیا کھانا، میز پر موجود ہر فرد کے ہاتھ میں موبائل فون اسکرین ہی کُھلی نظر آتی ہے۔

* ایڈیٹر سنڈے میگزین کی ٹیم اور تمام قارئین کی خدمت میں احترام و محبّت بھرا سلام۔ آج پھر آپ کی کھٹی میٹھی ڈانٹ سُننے کے لیے ای میل کر رہا ہوں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں سعیدہ گزدر پر تحریر بہت اچھی تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شریف الحسن عثمانی کے’’تقابل‘‘ نے بہت متاثر کیا۔ 

طارق عزیزپر لکھے گئے مضمون نے تو جیسے ایک سحر سا طاری کردیا، کیا لوگ تھے وہ بھی۔ رفیق شادکی فنی زندگی سے متعلق پڑھ کر اچھا لگا۔ ایک کہانی بھیج رہا ہوں، اُمید ہے اب کی بارمیگزين کی زینت بناکر اکیس توپوں کی سلامی لیں گی، نہ کہ ردّی کی ٹوکری کا پیٹ بَھرا جائے گا۔ (مجاہد لغاری، گاؤں قاضی نورمحمد لغاری، ضلع ٹنڈوالہیار)

ج: ہمارا نہیں خیال کہ ہمارے یہاں کسی کا کھٹی میٹھی ڈانٹ کا شوق پورا نہیں ہو پاتا ہوگا۔ ’’شادی یافتاؤں‘‘ کی تو ایسی ہر تمنّا بِن کہے، بےشمار بار پوری ہو تی ہی رہتی ہے، کنواروں کو بھی ڈانٹ ڈپٹ ہی کا نہیں، مائوں کی لتّرپریڈ کا بھی خاصا تجربہ ہوتا ہے۔

* مَیں نے آپ کو کافی آرٹیکلز بھیجے، جس میں حالیہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی سے متعلق ہے۔ ایک افسانہ بھی بھیج رہی ہوں۔’’اِک رشتہ،اِک کہانی‘‘ کے لیے بھی تحریر بھیج رکھی ہے۔ کسی کا کچھ اتا پتا نہیں۔ (طوبیٰ سعید، لاہور)

ج: آپ کی جو ایک آدھ تحریر لائقِ اشاعت تھی، جریدے میں شامل کر لی گئی، زیادہ تر ناقابلِ اشاعت ہیں۔ کچھ کے عنوانات فہرست میں شامل ہوچُکے ہیں، کچھ کے عن قریب ہوجائیں گے۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk