• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں پیر کو سینٹ کی گیارہ خالی نشستوں کیلئے پولنگ ہوئی جسکے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی عددی اعتبار سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ اس کے ساتھ ہی وفاق میں برسراقتدار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد سینٹ میں بھی دوتہائی اکثریت کے قریب پہنچ گیا۔ قومی اسمبلی میں اسے پہلے ہی دوتہائی اکثریت حاصل ہے۔ اس طرح حکمران اتحاد اپنی مرضی کی قانون سازی کرنے کے تقریباً قابل ہوگیا ہے ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ایک عرصہ سے سینٹ نامکمل تھی جو خالی نشستوں پر انتخابات کے بعد مکمل ہوگئی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف وفاقی حکومت سے کسی معاملے پر بات چیت کی مخالف رہی ہے مگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں 93ارکان کی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود غالباً صوبائی وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر اس نے وفاقی حکومت کی پارٹیوں سے مذاکرات کئے اور ایک معاہدہ کیا جسکی رو سے طے شدہ فارمولے کے مطابق صوبے میں تحریک انصاف کو گیارہ میں سے چھ اور اپوزیشن کو پانچ نشستیں دینے پر اتفاق ہوا۔ پی ٹی آئی کا ایک حلقہ اس فارمولے کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کاغذات نامزدگی کورنگ امیدواروں کے طور پر داخل کر دیئے جس سے بلامقابلہ انتخاب کا فارمولا خطرے میں پڑگیا۔ وزیراعلیٰ نے ناراض ارکان سے طویل مذاکرات کئے اور آخر میں انہیں دستبرداری کیلئے آمادہ بھی کرلیا مگر کاغذات کی واپسی کا وقت گزر چکا تھا اسلئے ایک امیدوار کا نام واپس ہونے سے رہ گیا۔ مگر پولنگ میں اسے کوئی ووٹ نہیں ملا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 93اور اپوزیشن کی 54ہے۔ پولنگ کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے 6اور اپوزیشن کے 5ارکان منتخب ہوگئے۔ معترضین کا خیال ہے کہ اگر معاہدہ نہ کیا جاتا تو پی ٹی آئی کو زیادہ نشستیں مل سکتی تھیں۔ وزیراعلیٰ نے معاہدہ کرکے پارٹی کو نقصان پہنچایا جبکہ پارٹی لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ معاہدہ عمران خان کی رضامندی سے ہوا اور امیدواروں کی فہرست بھی انہی کی رضامندی سے تیار کی گئی۔ اب جبکہ انتخابی مرحلہ مکمل ہوگیا ہے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی منقسم اور منتشر نظر آرہی ہے۔ الیکشن میں پارٹی کے امیدوار مراد سعید سب سے زیادہ ووٹ لے کر سینیٹر بن گئے۔ مگر وہ گزشتہ دو سال سے روپوش تھے۔ پارٹی نے ان کے لئے تحفظ کی درخواست کی ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 145ہے جن میں سے 144نے ووٹ ڈالے۔ اس انتخاب کے نتیجے میں سینٹ میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اس کے ارکان کی تعداد 26ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف 22ارکان کے ساتھ دوسرے اور مسلم لیگ ن 20کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جے یو آئی اگر وفاقی اتحاد کا ساتھ دے تو اسے آسانی سے دوتہائی اکثریت حاصل ہوسکتی ہے۔ اور قرائن یہی ہیں کہ مشکل مراحل میں وہ ضرور ساتھ دے گی۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ دوتہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد وفاقی حکومت من مانی قانون سازی کرنا شروع کردے اسے متنازعہ قانون سازی سے گریز کرتے ہوئے تمام فیصلوں میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ تحریک انصاف کو بھی ضد، ہٹ دھرمی اور انا کی بجائے وفاقی حکومت سے مذاکرات کا دروازہ کھولنا چاہئے جس کا کامیاب تجربہ خیبرپختونخوا میں سینٹ کے انتخابات کے موقع کیا جاچکا ہے پارٹی کے بانی صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت پر زور دیتے آئے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی معاملات سیاسی پارٹیوں پر چھوڑ رکھے ہیں اور وہ کسی سیاسی پارٹی سے مذاکرات پر تیار نہیں۔سیاسی پارٹیوں کو افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین