شام میں بھی دوبارہ اسرائیل نے جو کرنا چاہا وہ کر دیا مگر شام پر گفتگو سے قبل وطن عزیز پر خیالات کا اظہار ضروری ہے تا کہ ہم شام کے حالات سے سبق سیکھنے کی کوشش کر سکیں ۔ یہ واضح ہے کہ کمین گاہ بدلتی رہتی ہے اور کبھی یہ روز روشن کی مانند عیاں ہوتی ہے اور کبھی معاملہ ڈھکا چھپا رہتا ہے ۔ جب پاکستان نے انڈیا کو فوجی میدان میں دھول چٹا دی تو اس کے بعد یہ طے شدہ امر تھا کہ انڈیا دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے اپنی پالیسی کو مزید زور و شور سے آگے کی جانب گامزن کر ےگا ۔ ایک بات تو بالکل ہی طے ہو چکی ہے کہ پاکستان کو روایتی یا غیر روایتی جنگ میں اب کوئی خطرہ لاحق نہیں اور یہ بات بھی صرف ایک پروپیگنڈہ ہے کہ فلاں ، فلاں کی براہ راست مدد کی بنا پر یہ ممکن ہوا تھا ، پاکستان بار بار اس کی تردید کر چکا ہے ۔ پھر دشمن چاہتا کیا ہے ؟
دشمن یہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ پاکستان کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دینے سے ہی وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خدا نخواستہ کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے لئے مختلف حوالوں سے دہشت گردی کی تحریکوں کی مدد کرنا ایک پالیسی کے طور پر سامنے آیا ہے کیوں کہ دشمن نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس کو راکھی باندھنے کی خواہش پاکستان دشمنوں کے دل میں مچل رہی ہے ۔ اور اس خواہش کے رکھنے والوں سے دشمن کو کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن وہ اس کے ذریعے پاکستان کو نظم و نسق کے حوالے سے نہایت کمزور کر دینا چاہتا ہے کیوں کہ ہم اپنی غلطیوں کے سبب معاشی طور پر تو کمزوری کا شکار ہیں اور جب 2015 میں سی پیک کے ذریعے اس معاشی کمزوری کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی تو ڈاکٹرائن کا ہمیں سامنا کرنا پڑا اور جس نے 2015 میں ملک کو معاشی بد حالی سے نکالنے کی کوشش کی تھی اس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا کہ وہ اپنی دنیا سے رخصت ہوتی شریک حیات کا آخری لمحہ خیریت بھی دريافت نہ کر سکا ۔بہر حال یہ تو ایک ماضی کی تلخ تاریخ کی یاد دہانی تھی کہ ہم معاشی بحران سے کیوں نہ نکل سکے ۔ اب صرف عسکری طاقت ہی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو پاکستان دشمنوں کے دل میں کانٹے کی طرح پیوست ہے اور دہشت گردی کے ذریعے سے وہ اس کو ہی زک پہنچانا چاہتا ہے ۔ دشمن چاہتا کیا ہے ؟ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ گزشتہ دو عشروں سے دنیا بھر نے مشاہدہ کیا ہے کہ دنیا کے آزاد خود مختار ممالک کے نظام حکومت کو طاقت کی بنیاد پر تہ و بالا کر دیا گیا ۔
افغانستان سے شروع ہو جائیں ، یہ درست ہے کہ اس وقت بھی افغان طالبان کی افغانستان پر مکمل حکومت قائم نہیں تھی مگر اس کے باوجود ظاہر شاہ کی برطرفی اور سوویت یونین کی افواج کے افغانستان میں داخلے کے وقت کے بعد سے وہ سب سے مستحکم حکومت تھی اور اسکے گرنے کے بعد سے افغانستان آج کی تاریخ تک حکومتی امور میں مزید مسائل کا ہی سامنا کرتا جا رہا ہے ۔ پھر عراق کی باری آئی اور عراق میں اول تو باہمی کشت و خون کی نوبت آ گئی جبکہ ریاست بھی عملی طور پر ایک سے زیادہ حصوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی اور اس کی وجہ سے اس بات کا تو امکان ہی ختم ہو گیا کہ عراق اپنی فوجی طاقت کو بحال کرنے کی جانب راغب ہو سکتا ہے ۔ عراق کی فوجی طاقت کا ذکر اس لئے بھی ضروری ہے کہ عراق کی فوجی طاقت سے ہی ڈرتے ہوئے اسرائیل نے عراق پر حملہ کرکے اس کی نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا اور پھر بعد میں اس کی فوجی طاقت کو ہی بہانہ بناتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑے تھے ۔ ليبيا کی مثال بھی سب کے سامنے ہے اور وہاں تو معمر قذافی نے تعلقات کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کی تھی اور اس ہی غلط فہمی میں وہ مارا بھی گیا اور پھر جب قذافی کےطویل اقتدار کا اختتام ہو گیا تو ليبيا بھی مختلف علاقوں میں عملی طور پر تقسیم ہو کر رہ گیا مضبوط مرکزی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ليبيا کسی کے لئے بھی خطرے کا باعث بننے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ۔ ابتدا میں شام کی بات کی تھی جب بشار الاسد یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس نے عالمی برادری میں اپنے دشمنوں کو رام کر لیا ہے تو اس وقت ہی اس کو منظر سے ہٹانے کیلئے تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں ۔ شام کی خانہ جنگی کے آغاز میں ہی شام میں خود مختار ٹائپ کے علاقے معرض وجود میں آنے لگے تھے اور اسی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے عالمی دباؤ مسترد کرتے ہوئے برملا طاقت کے زور پر حکومتوں کو ہٹانے کے رویےکی مخالفت کی تھی ۔ بہر حال شام میں علوی ، دروز ، کرد وغیرہ کے معاملات کو اس حوالے سے بہت زیادہ استعمال کیا گیا تا کہ شام متحدہ طور پر رہتے ہوئے اسرائیل سے برابری کی سطح پر بھی بات کرنے کی استعداد سے محروم رہے ۔ ویسے ابھی ایران میں بھی رجیم چینج کا نعرہ لگاتے ہوئے ایران کو بھی اس جانب دھکیلنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ فوجی طاقت کے باوجود پاکستان کو کمزور کرنے کی غرض سے دہشت گردی کو بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے تا کہ خدا نخواستہ پاکستان میں بھی صورتحال خطرناک ہوجائے ۔ اگر ہم نے اس کاتدارک نہ کیا اور صرف زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کرتے رہے تو ہمارے فوجی ، پولیس اور عوام تو اس کی قیمت ادا کر ہی رہے ہیں مگر اس کے بھیانک نتائج سے وطن عزیز کو بھی پالا پڑ سکتا ہے کیوں کہ بتدريج یہ تصور مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ دہشت گردی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے ۔