برطانیہ کی جانب سے 5سال بعد قومی ایئر لائن پی آئی اے کی پروازوں پر عائد پابندی کے خاتمے کی خبر ملک اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے یقیناََ مسرت کا باعث ہے۔ برطانیہ نے پی آئی اے پر یہ پابندی اُس وقت عائد کی تھی جب پی ٹی آئی دور میں جون 2020ءمیں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ میں یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ ’’پاکستانی کمرشل پائلٹوں کی بڑی تعداد کے لائسنس جعلی ہیں۔‘‘ وزیر موصوف کا مذکورہ بیان 24 ؍مئی 2020 ءکو کراچی میں پی آئی اے طیارے کے حادثے کے بعد سامنے آیا تھا جس میں 97افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ غلام سرور خان کے اس بیان کے بعد جولائی 2020 ءمیں یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی اور بعد ازاں برطانیہ نے پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کیلئے پروازوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ برطانیہ کی جانب سے پی آئی اے پر عائد پابندی کے خاتمے کے اعلان سے قبل رواں سال جنوری میں یورپی یونین نے بھی قومی ایئر لائن پر عائد پابندی ختم کردی تھی جس کے بعد پی آئی اے کے طیاروں نے یورپی ممالک کی طرف پروان بھریں۔ حکومت کی ان کامیابیوں پر وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’پاکستان ایک بار پھر سرخرو ہوا اور قومی ایئر لائن کی برطانیہ کیلئے پروازوں کی بحالی پاکستان کی ساکھ کی بحالی کا ثبوت ہے۔‘‘ واضح رہے کہ برطانیہ میں 16لاکھ سے زائد پاکستانی نژاد مقیم ہیں۔ قومی ایئر لائن پر پابندی برطانیہ اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کیلئےکسی صدمے سے کم نہ تھی جس کے باعث انہیں نہ صرف مہنگے ایئر لائنز کے ذریعے سفر کرنا پڑتا تھا بلکہ براہ راست پروازیں نہ ہونے کی وجہ سے وقت کا ضیاع بھی ہوتا تھا اور ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو وفات پانیوالے اپنے پیاروں کی میتیں پاکستان لانے کیلئے بھاری اخراجات اٹھانے پڑ رہے تھے تاہم پابندی کے خاتمے کے بعد اب پاکستانیوں کو پی آئی اے کی براہ راست فلائٹ کے ذریعے برطانیہ اور یورپ کے سفر کا موقع دستیاب ہوگا اور وہ دیگر ایئر لائنز کے مہنگے ٹکٹ کے جھنجھٹ سے بھی بچ جائیں گے۔
پی آئی اے پہلے ہی خسارے کا شکار ہے جس کے باعث قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں پی آئی اے کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے جن میں مالی مشکلات اور انٹرنیشنل فلائٹس پر پابندی جیسے مسائل ہیں۔ یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے پابندی کے اطلاق سے قبل پی آئی اے کی سالانہ آمدنی میں یورپ اور برطانیہ کا حصہ 37فیصد یعنی 40ارب روپے تھا۔ اس طرح گزشتہ 5سالوں میں پی آئی اے کو تقریباً 200ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ پابندی کے باعث قومی ایئر لائن کی ساکھ کو اس سے کہیں زیادہ ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے پی آئی اے پر پابندی ایسے وقت اٹھائی گئی جب حکومت پاکستان پر قومی ایئر لائن کی نجکاری کے حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے کافی دبائو ہے اور ادارے کی نجکاری جلد متوقع ہے۔ پابندی کے خاتمے کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کے عمل اور اس کی قدر میں بھی اضافہ ہوگاکیونکہ یورپ اور برطانیہ کے روٹ سے پی آئی اے کو سالانہ 45 ارب روپے سے زائد کی آمدنی حاصل ہوگی۔ پابندی کے خاتمے کے بعد پی آئی اے کی فلائٹس جب دوبارہ برطانیہ کیلئے شروع کی جائیں گی تو یہ صرف تجارتی کامیابی نہیں بلکہ ایک بار پھر پاکستانی پرچم بردار طیارے یورپ اور برطانیہ کی فضائوں میں پرواز کریں گے۔ پی ٹی آئی دور کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے پاکستان اور اس کی قومی ایئر لائن کی ساکھ کو عالمی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے پی آئی اے کو برسوں تک یورپ اور برطانیہ جیسے اہم فضائی روٹ سے محروم رہنا پڑا۔ 2020 ءمیں وزیر ہوا بازی نے جو کچھ کیا، وہ ریاست کے خلاف ایک جرم تھا جس کے نتیجے میں قومی ایئر لائن کی شناخت دنیا بھر میں مجروح ہوئی اور ادارے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ پی آئی اے پر پابندی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بھی ایک صدمہ تھی جنہیں پابندی کے باعث اپنے پیاروں کی میتیں یورپ اور برطانیہ میں دفن کرنا پڑیں۔ قومی ایئر لائن کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ 2005ءسے پی آئی اے بیرون ملک وفات پانے والے پاکستانیوں کی میتیں مفت پاکستان لارہی ہے لیکن گزشتہ 5 سالوں کے دوران برطانیہ اور یورپی ممالک میں وفات پانے والے سینکڑوں پاکستانی پی آئی اے پر پابندی کے باعث اپنی مٹی میں دفن ہونے سے محروم رہے۔ آج اُن پاکستانی پائلٹوں جن کا مستقبل وزیر موصوف نے برباد کیا، اُن کی فیملیاں اور یورپ اور برطانیہ میں مقیم وہ پاکستانی جن کے پیارے اپنی خواہش کے مطابق وطن میں دفن نہ ہوسکے، بھی دہائیاں دے رہے ہوں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست ہے کہ قومی ایئر لائن کی ساکھ مجروح کرنے اور ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے پر سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی وزیر ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کی جرات نہ کرسکے۔