زندگی کیا ہے؟ اِس مختصر سے سوال پر ہزاروں سال سے بحث جاری ہے اور شاید ہمیشہ جاری رہے گی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی بے ثباتی عیاں ہونے کے باوجود، اِس کی دل چسپیوں کا طلسم کبھی ماند نہیں پڑا۔ ہمارا اِس امر پر اتفاق ہے کہ زندگی کے میلے کبھی کم نہیں ہوں گے، اگرچہ ہم نہیں ہوں گے۔
زندگی بنانے والے نے مقصدیت اور فنا کا ایک ایسا منفرد مجموعہ بنا دیا ہے کہ نہ چھوڑے بَن پاتی ہے اور نہ باندھے۔ حد سے زیادہ لگائو کے اپنے مضرات ہیں، تو درویشی کے نتائج بھی انوکھے۔ اب کریں، تو کیا کریں؟
ہم میں سے کسی کو بھی زندگی کی بے ثباتی پر شک نہیں ہے۔ کچھ تو اِس کی نا پائے داری ہی کی بنا پر اِسے بے معنی قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے سُنے جاتے ہیں کہ’’ سب فنا ہو جائے گا، سب بے معنی ہے۔‘‘ لیکن اِسی مِٹنے والی دنیا میں بعض یوں رنگ بھرتے ہیں کہ؎ ’’سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں…زندگی گر کچھ رہی، تو یہ جوانی پِھر کہاں۔‘‘ ایسے لوگوں کے ہاں زندگی کی بے ثباتی میں بھی ایک موقع اور کشش ہے۔
اِس لیے زندگی کو غفلت کی نذر نہیں کرنا چاہتے اور اس کی رعنائیوں سے خُوب لُطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، قبل اِس کے کہ بڑھاپا چھا جائے اور جذبے پژمُردہ ہوجائیں۔ ہم یہ بھی سُنتے ہیں کہ زندگی اپنی اپنی ہے۔ کسی کے لیے راحت، تو کسی کے لیے غم۔ کسی کے لیے کھلکھلاتا گلستاں، تو کسی کے لیے چٹیل میدان۔
کوئی اسے امتحان سمجھے، تو کوئی کُھلی کتاب۔یہ بھی حیران کُن ہے کہ انسان کے لیے زندگی ویسی ہی بن جاتی ہے، جیسی اُسے نظر آتی ہے یا پھر جیسی وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ تب ہی تو کسی نے کہا ہے کہ؎ ’’لے دے کے اپنے پاس فقط اِک نظر تو ہے…کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم۔‘‘
یہ بھی عجب حقیت ہے کہ کچھ انسان زندگی کو بے معنی اور غیر معقول مانتے ہیں اور یہ کہتے پِھرتے ہیں کہ’’ خود زندگی کا نہ کوئی مقصد ہے اور نہ کوئی معنی، بلکہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی پسند کے رنگ بَھرنے کے لیے آزاد ہے تاکہ ایسی زندگی جی سکے، جیسی وہ چاہتا ہے۔‘‘ لیکن زندگی کبھی بھی اِس قدر بے لگام نہیں رہی کہ کوئی جو چاہے، کرتا پِھرے اور جیسے چاہے زندگی بسر کرتا رہے۔
زندگی کو بے معنی سمجھنے والے اِس امر پر غور کرنے سے قاصر رہے کہ پھر زندگی اِس قدر منظّم کیوں ہے؟ زندگی میں ترتیب اور تسلسل کیوں ہے؟ زندگی قابلِ قیاس کیوں ہے؟ اگر زندگی فطرتاً بے معنی ہوتی، تو اِس قدر عُمدگی سے پروئی ہوئی نہ ہوتی۔ ہاں، البتہ ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ زندگی کچھ اور ہو نہ ہو، ایک خاصیت تو رکھتی ہے اور وہ ہے، بہتری کی تلاش۔ انسان ہر دَور میں بہتر سے بہتر بننے کی کوشش میں رہا ہے۔
چاہے اپنے اندر بہتری لانی ہو یا معاشرے میں۔ یہی ایک پہلو زندگی کو طاقت بخشتا اور انسان کو موقع فراہم کرتا ہے کہ زندگی کو جی لے، لیکن پھر انسان کا زندگی سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے؎ ’’عُمردراز مانگ کے لائی تھی چار دن…دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں۔‘‘یہ آرزوئوں اور انتظار ہی کا شاخسانہ ہے کہ انسان خسارے میں ہے، اگر ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ حق پر قائم نہ رہا اور صبر کی تلقین نہ کی۔
گویا، انسانی زندگی کو گھاٹے سے نکالنے کے اجزائے ترکیبی ایمان، عملِ صالح، حق کا ساتھ اور صبر کی تلقین ٹھہرے۔؎ ’’آئینِ جواں مرداں، حق گوئی وبے باکی…اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔‘‘ لیکن اِس بات پر بھی بحث ہے کہ زندگی کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ رُوح اور جسم کا تعلق کیا ہے؟ کام ران کون ہوگا اور قصوروار کون ٹھہرایا جائے گا؟ یہ سب سوال انسان کے ذہن میں ہمیشہ سے گھوم رہے ہیں۔
؎ ’’نکلی جو رُوح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا…جب شمع بُجھ گئی، تو رہا انجمن میں کیا۔‘‘ یہ سب اپنی جگہ، مگر یہ بھی امر واقعہ ہے کہ زندگی عناصر کی ترتیب اور ایک پیہم نظام سے عبارت ہے۔ اِسی لیے زندگی توقّعات کے عین مطابق چلتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، زندگی نے سراسر اَن ہونی ہونے کا ثبوت کبھی دیا ہی نہیں۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ کوئی ہونیوں کا ادراک نہ رکھ پاتا ہو۔ اِسی لیے کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ؎ ’’زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب…موت کیا ہے، اِنہی اجزاء کا پریشاں ہونا۔‘‘ اور غالب نے موت سے پہلے کے اضمحلال کو کیا خُوب صُورتی سے بیان کیا ہے کہ؎ ’’ مضمحل ہوگئے قویٰ غالب …وہ عناصر میں اعتدال کہاں۔‘‘
ہم بہتری کی بات کر رہے تھے، تو بہتری نہ رُکنے اور نہ مکمل ہونے والا ایک ایسا پہلو ہے، جس نے انسانی زندگی میں بے شمار رنگ بھرے۔ بہتری کی تمنّا اور بہتری کا سفر ہی انسان کو نئی سے نئی منزلوں تک پہنچا رہا ہے۔ اِس بہتری کو یقینی بنانے کا بس سادہ سا نسخہ ہے اور وہ یہ کہ اپنا آج اپنے گزشتہ کل سے بہتر بناتے جائیے اور ترقّی کی منزلیں طے کرتے جائیں۔
ہم سب کا ایمان بھی یہی ہے کہ انسان کے پاس کچھ بھی نہیں، سوائے اس کی کوشش کے۔ انسان کے مقدّر میں وہی ہوگا، جس کے لیے وہ کوشش کرے گا۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ، لیکن زندگی کی مشکلات اور دشواریوں کا بوجھ تو وہی جانتے ہیں، جو اُن سے گزرتے ہیں۔؎ ’’زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دِل سے پوچھ…جوئے شِیر و تیشہ وسنگِ گراں ہے زندگی۔‘‘
زندگی جیسی بھی ہو، خود ہی جینی پڑتی ہے۔ کوئی دُکھ ہو یا مشکل، صُورتِ حال کا سامنا خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ساتھ دینے والے موجود بھی ہوں، تو بھی انسان کے حصّے کا درد یا تکلیف دوسروں کو منتقل کرنے کا کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں، جس سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ نتائج کا سامنا بہرحال خود اکیلے ہی کرنا ہوگا، چاہے دنیاوی زندگی ہو، برزخی یا اُخروی۔ اندازہ لگائیں کہ زندگی اور اس سے وابستہ نتائج ہمارے لیے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں کہ اُن کے اثرات موت کے بعد بھی موجود ہوں گے۔
اِس لیے فلاسفر زندگی کو ایک پیچیدہ شئے سمجھتے ہیں، جو شعور، ادراک اور وجود کے مجموعے سے بھی بڑھ کر کچھ ہے۔ ہم اکثر یہ کہتے یا سُنتے ہیں کہ’’ ایک پَل کا بھروسا نہیں اور سامان سو برس کا جمع کرنے میں لگے ہیں۔‘‘ زندگی اِس قدر متحرّک کیفیت ہے کہ روز و شب گزرتے پتا ہی نہیں چلتا۔
دہائیوں کے سفر کے بعد پلٹ کر دیکھیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کل کی بات ہے۔ بہ زبان شعر؎’’تُو اِسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ… جاوداں، پیہم دواں، ہر دَم جواں ہے زندگی۔‘‘لیکن سُود و زیاں سے بے پروا ہو جانا بھی اِس قدر آسان نہیں۔
اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے تصوّر نے ہماری زندگیوں میں خُوب رنگ بَھرے، پھر کیا کرے کہ؎ ’’اِک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زَد میں ہے…زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا۔‘‘ جہاں زندگی کی بے بسی اور بے ثباتی اسے کم زور بناتی ہے، وہیں جستجو، تجدید اور تسخیر ایسے عوامل ہیں، جو زندگی کو ایک بھرپور اور پُرزور تجربہ بنا دیتے ہیں۔
؎ ’’آشکارا ہے یہ اپنی قوّتِ تسخیر سے…گرچہ اِک مٹّی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی۔‘‘ یہی جستجو، تجدید اور شوقِ تسخیر زندگی کی رنگیں روانی کا باعث ہیں۔ انسان روزِ اوّل سے اب تک، رموزِ کائنات کی کھوج اور چھان بین میں لگا ہوا ہے۔ نہ یہ کھوج مکمل ہوگی اور نہ ہی انسان کی زندگی کی لگن ماند پڑے گی۔
کبھی کچھ بنا کر جانے یا پانے کی تڑپ کم ہوگی اور نہ ہی زندگی کی دل کشی۔ نہ ہی کبھی تسخیر مکمل ہوگی اور نہ ہی زندگی کی گرم جوشی کبھی ماند پڑے گی۔ (مضمون نگار، سینٹر آف اسلامک فنانس، کامسیٹس یونی ورسٹی اسلام آباد، لاہور کیمپس کے سربراہ ہیں)