• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم ہندوستان ہر طرف سے بے پناہ دباؤ کا شکار ہیں۔ امریکی خوشنودی کے لیے پاکستان پر بنا سوچے سمجھے حملے سے نہ صرف منہ کی کھانا پڑی بلکہ اپنی فوج و ایئر فورس کو بھی شرمندگی کے گہرے گڑھے میں گرا دیا، اس پر اندھا دھند جھوٹ بول کر قوم کو بھی متنفر کر دیا۔ حکمران جماعت بی جے پی بھی ان سے اس ناکامی پر بہت نالاں ہے اسی لئے اندر خانے ان کی تبدیلی پر کام کر رہی ہے ۔ اپنی بقاء اور ساکھ بچانے کے لیے "موذی" اب چومکھی لڑ رہا ہے اس لئے پاکستان سے جنگ میں بدترین شکست کے بعد عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا گیاہے ۔ یہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل انفارمیشن کا دور ہے لہٰذا سیٹلائٹ کے ذریعے رن ویز، جہازوں کے ہینگروں، ائیر ڈیفنس سسٹم کی تباہ شدہ بیٹریوں اور دیگر نقصانات کے حوالے سے کوئی خبر اب عام آدمی کی پہنچ سے دور نہیں رہی۔ دنیا "پاکستان ہندوستان" جنگ میں ہندوستان کے غیر معمولی نقصانات اور واضح شکست ثبوتوں سمیت بیان کر رہی ہے۔ جنگ ہارے ہوئے قریباً تین ماہ بعد بھی "موذی" حکومت قوم کو حقیقتِ حال بتانے کیلئے تیار نہیں۔تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے متعدد مرتبہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان ہندوستان کے درمیان سیز فائر کروانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے اور سیز فائر بھی "موذی" کی درخواست پر کرایا گیاجبکہ حال ہی میں انہوں نے پاکستان کی جانب سے پانچ ہندوستانی لڑاکا طیارے مار گرانے کی بھی تصدیق کی ہے۔ ہندوستان نے جنگ بندی کے تین ہفتے بعد چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان اور مختلف سیاسی رہنماؤں کے ذریعے آہستہ آہستہ جنگ میں ہونے والے نقصانات اور شکست کے حوالے سے خبریں لیک کی تھیں۔ حزب ِاختلاف نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر امریکہ کو باور کرایا کہ "موذی" میں ایسی صلاحیت اور قابلیت کا فقدان ہے جو چین کے خلاف امریکی جنگ میں ہندوستانی قیادت سے متوقع ہے۔ امریکہ کے دورے پر "موذی"کو کہا گیا تھا کہ وہ ایران پر اسرائیلی حملے سے پہلے پاکستان کو نیوٹرلائز اور کمزور کرے یا ایف 35 طیارے خریدے۔ ایف 35 طیاروں میں موجود "کل سوئچ" سے طیارہ ساز کمپنی جب چاہے طیارے کی کسی بھی صلاحیت کو ختم کر سکتی ہے۔ "موذی" کسی صورت بنا "سورس کوڈ " ایف 35 لینے کے حق میں نہیں تھا اور نہ کل ادائیگی کر کے سالہا سال انتظار کرنے پر ۔ اسی لیے دوسری آفر قبول کی گئی اور پاکستان کو اس کی اوقات میں رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پاکستان نے ہندوستان کو صرف چار روز میں ناقابلِ بیان نقصان دے کر بازی ہی پلٹ ڈالی۔ اب صدر ٹرمپ کا "آئی لو یو پاکستان" کہنا یا ہمارے فیلڈ مارشل کو ظہرانے پر بلانا، سمجھنے والے اسے پاکستان کی کایا پلٹ جانے کے بجائے ہندوستان میں رجیم چینج کا امریکی اشارہ سمجھ رہے ہیں ورنہ کہاں ہم اور کہاں یہ امریکی محبتوں کا اظہار۔

لوک سبھا میں جنگ کے حوالے سے حزبِ اختلاف کے تُند و تیز سوالات کے جواب دینے پر آمادگی ، سی ڈی ایس کا اعلان کرنا کہ آپریشن سیندور اب بھی جاری ہےاور اپنی افواج کو جنگ کے لیے ہر دم چوکس رہنے کا حکم دینا۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ جلد ہی ہندوستان اپنے تئیں دوبارہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔"موذی"تو 14 جولائی کو پاکستان پر حملہ کروانے کا جوتشیوں سے مہورت نکلوا چکا تھا لیکن ہندوستانی فوج بنا بھرپور تیاری و جدید اسلحہ میدانِ جنگ میں اترنے کو تیار نہ تھی۔ ہندوستانی حکومت کے لئے امریکہ سے تعلقات میں سردمہری اور بی جے پی کی "موذی" سے مایوسی دور کرنے کے لئے پاکستان کو نیچا دکھانا ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ اس جنگ کے لیے ہندوستان نے اسرائیل سے جدید ترین ہتھیار و اسلحہ، ڈرون، ڈرون ٹیکنالوجی، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے میزائل اور جہاں سے جو ملا منہ مانگے داموں خرید لیا ۔ پاکستان سے دوبارہ جنگ کرنے کے لیے ہندوستان کی جنگی مشقیں عید الاضحیٰ سے پہلے شروع ہو کر وقفے وقفے سے جاری تھیں۔ حال ہی میں راجھستان بارڈر کے ساتھ دو روزہ جنگی مشقیں اختتام پذیر ہوئیں جس کے فوراً بعد سی ڈی ایس کا یہ بیان جاری ہوا۔ بہِار میں ہونے والے انتخابات اتنے اہم نہیں کیونکہ وہ محض چار نشستوں کے لئے ہیں۔ البتہ 27 ستمبر کا دن آر ایس ایس کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز آر ایس ایس کو وجود میں آئے ہوئے سو سال مکمل ہو جائیں گے۔ "موذی" آر ایس ایس کی صد سالہ تقریب میں عوام سے کیے گئے وعدے کے مطابق آزاد کشمیر ہندوستان میں ضم کر کے اوتار کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لئے "موذی" باز نہیں آئے گا۔مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں یا ہندوستانی مسلمانوں سے ناانصافی کا معاملہ، ہر قدم پر انکے خلاف اسرائیل کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی ماڈل پر عمل کیا جاتا ہے۔اسرائیل ہر حالت میں پاکستان اور ایران کی جوہری صلاحیت کے درپے ہے کیونکہ پاکستان و ایران کی جوہری صلاحیت کے باعث اسکی خطے میں کبھی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی۔وہ خطے میں ہر اس ملک پر حملہ آور ہو چکا ہے جو اس کی اجارہ داری کے لئے خطرہ بن سکتا ہے ماسوائے پاکستان کے ۔حال ہی میں ایران پر حملہ کرکے اسے اتنی مار پڑی کہ امریکہ کو اسرائیل کی مدد کو آنا پڑا اور صدر ٹرمپ نے بمشکل جنگ بندی کروائی۔ اب ہندوستان اور اسرائیل دو زخمی سانپوں کی طرح بپھرے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی صورت اپنی گری ساکھ کو بحال کریں کیونکہ "موذی" کی طرح "شیطن یاہو" کو بھی اپنے اندر سے بےپناہ مخالفت کا سامنا ہے۔امریکہ کا طفیلی غنڈہ ہونے کی وجہ سے بارہا امریکی مداخلت پر "شیطن یاہو" کی حکومت بچی جو زیادہ تر شدت پسند صیہونیوں ،دہشت گرد اور ظالم و کٹر صیہونی یہودیوں پر مشتمل ہے۔ایران ابھی جوہری ملک نہیں بنا لیکن پاکستان جو قریباً تین دہائیوں سے جوہری طاقت ہے کیسے اسرائیل کو قبول ہوسکتا ہے ؟جبکہ پاکستان اسرائیل کو مقبوضہ فلسطین مانتا ہے اور اس کے وجود کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔

قرین از قیاس ہے کہ ایران سے بھی پہلے اب ہندوستان اور اسرائیل مل کر پاکستان کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کے لیے جوہری تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے خدانخواستہ! پاکستان کے انداز و تیوروں سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس نے بھی کمر کس لی ہے نتیجتاً یہ دو طرفہ جنگ انتہائی خطرناک رنگ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کو اپنے اتحادی ممالک اور قوم کو اعتماد میں لینا ازحد ضروری ہے۔جو جنگیں قومیں لڑتی ہیں انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔اس لئے ہماری اپنی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم دامے درمے سُخنے قدمے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہو۔

؎سوچا بھی ہے اے مردِ مسلماں کبھی تو نے

کیا چیز ہے فولاد کی شمشیرِ جگردار

تازہ ترین