وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کی رہائی کے ساتھ ہی پی-ٹی-آئی کی مرکزی قائدین کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ ہر مرکزی لیڈر کو اپنی کرسی سرکتے ہوئے محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ ظاہر ہے کہ شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان کے جان نشین ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں شاہ محمود قریشی ہی چیئرمین کا منصب کے قانونی اور اخلاقی کے علاوہ طویل سیاسی تجربہ رکھنے کی بنیاد پر حقدار ہیں۔لیکن ’’نوجوان قیادت‘‘ نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے اور ’’بزرگ قیادت‘‘ کو دیوار سے لگانے کے لئے انتشار کا راستہ اختیار کر لیا ہے، وہ دن دور نہیں کہ جب دونوں گروپ ایک دوسرے کی توہین کرنے کے لئے پریس کانفرنسیں کرتے نظرآئیں گے اور آپس میں دست و گریبان دیکھے جا سکیں گے۔ ان حالات کی ابتری کی تمام تر ذمہ داری بانی پر عائد کی جا سکتی ہے جنہوں نے ’’ہائرنگ اور فائرنگ‘‘ کے تمام اختیارات اپنی مٹھی میں رکھے ہیں اور کسی دوسرے کی جرات نہیں کہ وہ تنظیم کے حوالے سے پی ٹی آئی پاکستان کی سیاست میں ایک اہم قوت بن چکی تھی، لیکن حالیہ دنوں میں اس کی مرکزی اور صوبائی قیادت کے درمیان گہری اور زہریلی تقسیم کا تاثر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ یہ تقسیم درتقسیم پارٹی کے مستقبل اور ملک کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ سنجیدہ سیاسی حلقے اس تقسیم کی ذمہ داری نوجوان اور انتہائی ناتجربہ کار قیادت کو قرار دے رہے ہیں جن کی خواہش ہے کہ پرانی قیادت کنارہ کشی اختیار کرلے تاکہ وہ سیاہ و سفید کے مالک ہوں اور انہیں کھل کر کھیلنے کے مواقع میسر آ سکیں۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات کارکنوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر کارکنان یہ دیکھیں کہ ان کی قیادت آپس میں ہی دست و گریباں ہے تو ان کا جوش و خروش ماند پڑ سکتا ہے، اور وہ پارٹی سرگرمیوں میں کم دلچسپی لے سکتے ہیں۔ اس سے پارٹی کی نچلی سطح کی تنظیم بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔اگر پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے اور اس کی قیادت میں اختلافات برقرار رہتے ہیں تو حکومتی معاملات چلانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قیادت کے تمام دھڑوں کے درمیان ) جو پانچ سے زائد بتائے جاتے ہیں( ایک وسیع اور بامعنی مکالمہ ہونا چاہیے۔ اس مکالمے کا مقصد اختلافات کی وجوہات کو سمجھنا اور انہیں باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ایک غیر جانبدار ثالث کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے اور اس میں ضروری اصلاحات کی جانی چاہئیں۔ ذمہ داریوں کی واضح تقسیم، اختیارات کی شفافیت، اور فیصلہ سازی کے عمل میں سب کو شامل کرنے سے اختلافات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پارٹی کو اپنی بنیادی نظریات اور اصولوں پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جب سیاسی رہنما ذاتی مفادات کے بجائے پارٹی کے نظریے کو ترجیح دیتے ہیں تو اختلافات خود بخود کم ہو جاتے ہیں اورایک مضبوط نظریہ پارٹی کو متحد رکھنے میں مدد دیتا ہے۔نچلی سطح کے کارکنوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جانا چاہیے۔ ان کے تحفظات اور تجاویز کو سنا جانا چاہیے تاکہ پارٹی کے اندر سے بھی حل کی تجاویز سامنے آ سکیں۔ یہ عمل پارٹی کو مزید جمہوری بنائے گا اور اختلافات کو سطح پر آنے سے پہلے ہی حل کرنے میں مدد دے گا۔اور اگر یہ تجربہ کارگر نہ ہو تو بانی کو تمام نوجوان قائدین کو فارغ کر دینا چاہئیے جو پارٹی میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔ بانی کی جانب سے پارٹی کو منظم رکھنے کے لئے کی جانے والی بے شمار غلطیوں میں ایک غلطی ایسی جو تمام غلطیوں پر حاوی ہے کہ انہوں تمام قیادت ایسی نوجوان قیادت کے سپرد کردی جن کا تعلق وکالت کے شعبہ سے ہے اور باقی سب کو یکسر نظرانداز کردیا۔پارٹی کو اپنے اندرونی اختلافات کو میڈیا پر آنے سے روکنے کے لیے ایک مؤثر میڈیا مینجمنٹ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ اندرونی معاملات کو پارٹی کے پلیٹ فارم پر ہی حل کیا جانا چاہیے نہ کہ میڈیا کے ذریعے۔لیکن یہاں مسئلہ یہی ہے کہ ’’نوجوان قیادت‘‘ ان اختلافات کو تشت از بام کرنے کے لئے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔پی ٹی آئی کی مرکزی اور وفاق کی قیادت میں سنگین تقسیم ایک الارم کی گھنٹی ہے۔ اگر اس مسئلے کو بروقت حل نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف پارٹی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کو بھی مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ ایک مضبوط، متحد، اور جمہوری پی ٹی آئی ہی ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ قیادت کو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پارٹی اور ملک کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا ہو گا۔