• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی دوا ساز صنعت کا نیا رخ-آزاد قیمتیں، مسابقت اور مقامی اختراعات کی بدولت ابھرتی ہوئی خود کفالت

خصوصی تجزیاتی رپورٹ

پاکستان کی دوا ساز صنعت ایک اہم تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے، جہاں سخت حکومتی کنٹرول سے نکل کر اب یہ شعبہ ایک جدید، مسابقتی اور اختراعی طرز پر استوار ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کی آزادی نے اس شعبے میں کئی مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ اگرچہ ضروری ادویات اب بھی حکومتی قیمتوں کی نگرانی میں ہیں، تاہم دیگر ادویات کے لیے قیمتوں کو مارکیٹ کے اصولوں کے تحت طے کیے جانے سے نہ صرف مقابلہ بڑھا ہے بلکہ مقامی سرمایہ کاری اور ادویات کی دستیابی بھی بہتر ہوئی ہے۔

دو سطحی قیمتوں کا نظام

  • پاکستان میں اس وقت دواؤں کی قیمتوں کے تعین کا ایک دوہرا نظام رائج ہے:
  • ضروری ادویات: عالمی ادارہ صحت کی فہرست کے مطابق ان ادویات کی زیادہ سے زیادہ قیمت حکومت مقرر کرتی ہے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے کو ان تک مساوی رسائی حاصل ہو۔

غیر ضروری ادویات: ان کی قیمتیں اب بازار کے اصولوں کے مطابق طے ہوتی ہیں، جس سے نہ صرف مقابلہ پیدا ہوا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان ادویات کی رسائی اور قیمت کی برداشت بھی ممکن ہو گئی ہے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (DRAP) نے اگست اور ستمبر 2023 میں تقریباً 25 نئی جان بچانے والی ادویات پر قیمتوں کی حد مقرر کی، تاکہ عوام کو سستی اور معیاری صحت کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ مگر مجموعی طور پر غیر ضروری ادویات کے لیے قیمتوں کی آزادی کی پالیسی بدستور جاری ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جناب توقیر الحق اس تبدیلی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

قیمتوں کی آزادی نے ہماری صنعت کو بہتر سمت دی ہے۔ اب قیمتوں کا تعین اصل لاگت، مقابلے اور صارف کی بصیرت پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ کسی غیر حقیقی سرکاری حد پر۔ صنعت اب خود اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے منصفانہ قیمتوں پر زور دیتی ہے۔

بحالی سے استحکام تک

گزشتہ چند برسوں میں قیمتوں کے جمود، کرنسی کی قدر میں کمی، اور سپلائی چین میں رکاوٹوں نے دواؤں کی فراہمی کو متاثر کیا۔ تاہم اب آزاد پالیسی کے اثرات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں:

  • دواؤں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے، جس سے اسپتالوں اور فارمیسیوں میں قلت میں کمی آئی ہے۔
  • جعلی دواؤں کی رسد میں کمی آئی ہے کیونکہ منظم کمپنیوں نے دوبارہ مارکیٹ میں جگہ بنائی ہے۔
  • قیمتوں میں شفافیت آئی ہے، جو درآمدی خام مال، مہنگائی اور ترسیل کی لاگت کو ظاہر کرتی ہے۔

ان عوامل کی بدولت صنعت کے تمام شعبے — پیداوار، تقسیم، اور فروخت ایک نئے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

دائمی بیماریوں کی مہنگی دوائیں - ایک مسلسل مسئلہ

اگرچہ مجموعی صورتحال میں بہتری آئی ہے، مگر ذیابطیس، کینسر اور ویکسین جیسی بیماریوں کی ادویات عام آدمی کی مالی استطاعت سے باہر ہیں۔ اس کی وجوہات میں شامل ہیں:

  • مقامی سطح پر پیچیدہ حیاتیاتی ادویات کی تیاری کا فقدان
  • بڑی بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کا پاکستان سے اخراج یا سرمایہ کاری میں کمی
  • مہنگی اور مخصوص ادویات کے لیے حکومتی قیمتوں کے کسی ضابطے کا نہ ہونا

یہ خلا ایک بڑی قومی بحث کو جنم دے رہا ہے کہ آیا ہمیں ان شعبوں میں خود کفالت کی طرف بڑھنا چاہیے یا نہیں۔

اختراع اور تحقیق کا نیا دور

قیمتوں کی آزادی اور بہتر منافع نے مقامی صنعت کاروں کو جدید سرمایہ کاری پر آمادہ کیا ہے:

  • عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ پیداواری یونٹس کا قیام
  • فعال دوا جاتی اجزاء (API) کی مقامی تیاری تاکہ چین اور بھارت پر انحصار کم کیا جا سکے
  • ذیابطیس اور کینسر جیسے امراض پر تحقیق اور مشترکہ منصوبہ جات کا آغاز

سابق چیئرمین پی پی ایم اے، جناب فاروق بخاری کہتے ہیں:

یہ پہلا موقع ہے کہ مسابقت اور اختراع کے لیے ایک مؤثر ماحول تشکیل پا رہا ہے۔

ہماری پُرزور گزارش ہے کہ اگر حکومت ہم پر اعتماد کرے اور ایسی واضح اور قابلِ عمل پالیسی فراہم کرے، جس کے تحت ہم اپنے وسائل کو مؤثر انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے، سی آر ایف فنڈ کو تحقیق و ترقی کے لیے استعمال میں لا سکیں، تو ہم اپنے تحقیقی یونٹس میں جدید ادویات اور علاج کے نئے طریقوں پر عملی کام کا آغاز کر سکتے ہیں۔

فی الوقت، حکومت کی جانب سے ڈی ریگولرائزیشن پالیسی کے تحت جو اقدامات کیے گئے ہیں، اُن کے باعث ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو فروغ مل رہا ہے۔

جب یہ دونوں پالیسیاں — اعتماد و سہولت کاری اور ڈی ریگولرائزیشن — مکمل طور پر نافذ العمل ہوں گی، تو ملک میں ایک ایسی فضا قائم ہوگی جو تحقیق، جدید ادویات، اور اختراعی علاج کے رجحان کو بھرپور انداز میں آگے بڑھائے گی۔

جس طرح ہم نے برآمدات میں نمایاں ترقی کی ہے، اُسی جذبے اور حکمت عملی کے تحت ہم نئی ادویات کی تحقیق میں بھی قابلِ ذکر پیش رفت کر سکتے ہیں — بس ضرورت ہے ایک واضح وژن اور پالیسی سپورٹ کی۔