• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان میں شب و روز انتہا پسندی،دہشت گردی،مختلف مذاہب اور مختلف مسالک کے درمیان مختلف مقامات پر تصادم کی کیفیات پیدا ہو رہی ہیں۔ جب ان حالات میں پاکستان علماء کونسل کی قیادت نے گزشتہ چند ماہ کے دوران لاہور، خانیوال ، کراچی اور اسلام آباد میں مختلف مسالک اور مختلف مذاہب کے مرکزی قائدین کو جمع کر کے باہمی رواداری کا پیغام دینے اور بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قومی کانفرنس کے نام پر ملک کی تمام مذہبی و سیاسی قیادت اور مختلف مذاہب کے قائدین کے درمیان مکالمہ کیوں ضروری ہے کہ عنوان پر جو کانفرنس کی گئی اس میں جہاں بین المذاہب بین المسالک ہم آہنگی پر بات ہوئی وہاں موجودہ حالات میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور بالخصوص عزت، غیرت کے نام پر بچیوں کا قتل ، بچی کی پیدائش پر اس کو منحوس قرار دیا جانا ، جائیداد میں سے حصہ نہ دینے کی خاطر بہنوں ، بیٹیوں کا نکاح درختوں ، قبروں اور قرآن کریم سے کر دینا جیسے مسائل پر بھی ایک مفصل فتویٰ جاری کیا گیا۔ اسی طرح اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر اور مذاہب کے نمائندوں نے ایک ضابطہ اخلاق پر بھی اتفاق کیا جس میں سب سے اہم بات ایک دوسرے کے مکاتب فکر اور مذاہب کی مقدس شخصیات کا احترام ہے اور کسی بھی مسلمان مکتبہ فکر کو کفر کے فتوے سے بچانا ہے۔ قومی کانفرنس میں ہندو رہنمائوں کے اس شکوے کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی بچیوں کو اغوا کے بعد مسلمان بنا لیا جاتا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر یہ بات کہی کہ اسلام جبر کی بنیاد پر کسی کو دین اسلام میں شامل کرنے کا حکم نہیں دیتا اور اگر ایسے کوئی واقعات ہو رہے ہیں تو ان کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں اور ہندو برادری کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح سکھ برادری کی اس شکایت کو بھی ہندو قائدین کے ساتھ مل کر حل کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی کتاب کو مختلف مندروں میں جلایا جا رہا ہے جس پر ہندو اور سکھ برادری نے اتفاق کیا کہ وہ ان مسائل سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے اور کسی قسم کے تصادم کی طرف نہیں جائیں گے۔ قومی کانفرنس میں پاکستان میں موجود قادیانیوں کے حوالے سے بھی تفصیلی بات ہوئی اور یہ بات واضح طور پر کہی گئی کہ پاکستان کے اندر کسی بھی مذہبی رہنما نے نہ کبھی قادیانیوں کو قتل کرنے کا فتویٰ دیا ہے اور نہ ہی مذہبی قائدین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ قادیانیوں کے ساتھ مسلمانوں کے واضح مذہبی اختلافات ہیں اور پاکستان کا آئین اور قانون مسلمانوں اور قادیانیوں کو بطور شہری جو حقوق دیتا ہے اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ قادیانیوں کو بھی آئین اور قانون کا پابند ہونا چاہئے اور مسلمانوں کو بھی اس کا احترام کرنا چاہئے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کا شکار ہے جس کا نشانہ مسلمان بھی بن رہے ہیں اور غیر مسلم بھی لہٰذا یہ کہنا کہ صرف غیر مسلموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ درست نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ بعض جگہوں پر مسلم مکاتب فکر بھی آپس میں متصادم نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں مکالمہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی میں کمی لا سکتے ہیں اور جب مختلف مذاہب کی قیادت آپس میں مل بیٹھتی ہے تو اس سے بہت سارے مسائل کا حل نکل آتا ہے۔ قومی کانفرنس میں یورپی یونین کے سفیر ، آسٹریلین ہائی کمشنر اور ناروے، پولینڈ، ارجنٹائنا، تاجکستان اور فلسطین کے سفیروں نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بین المسالک و بین المذاہب مکالمہ صرف پاکستان کی نہیں پوری دنیا کی ضرورت ہے اور پاکستان کے اندر اس مکالمہ کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر ہوا ہے اور رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کے مطابق غیر مسلموں کے جان و مال، عزت و آبرو اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ مسلمانوں کے ملک میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قومی کانفرنس اور اس طرح کی دیگر کانفرنسیں عوام الناس کے لئے ایک رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہیں اور مکالمے کے ذریعے پیدا ہونے والی رنجشوں اور عداوتوں کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے جیسا کہ اندرون سندھ کے اندر حالیہ دنوں میں مسلم ہندو اور ہندو سکھ تصادم کا خاتمہ اس کی ایک مثال ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر یا مذاہب کے نمائندوں کی سطح پر ہونے والے ان تمام اقدامات اور معاہدوں پر عمل درآمد اسی صورت ممکن ہے جب حکومت وقت اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ہونے والی ایک ملاقات میں انہوں نے پاکستان علماء کونسل کے وفد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان کے لئے بین المسالک و بین المذاہب رواداری کے لئے ہر طرح سے اقدامات کرنے کو تیار ہیں اور قومی کانفرنس میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وفاقی وزیر قانون و اطلاعات جناب پرویز رشید نے بھی اس بات کو دہرایا ہے کہ ضابطہ اخلاق اور دیگر امور پر قانون سازی کے لئے وہ پاکستان علماء کونسل اور اس کانفرنس کی تجاویز کو ہر صورت اہمیت دیں گے۔ اس کانفرنس کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں تھا کہ ملک بھر کے چیدہ چیدہ افراد مل بیٹھیں، اچھی اچھی تقریریں کریں اور رخصت ہو جائیں ، اس کانفرنس میں16 اپریل کو کراچی میں قائم کی جانے والی قومی مصالحتی کونسل کی تشکیل پر بھی غور کیا گیا اور انشاء اللہ رمضان المبارک کے اختتام پر قومی مصالحتی کونسل مرکزی اور صوبائی سطح پر قائم کر دی جائے گی اور انشاء اللہ اس کا دائرہ کار شہروں اور دیہاتوں تک بڑھایا جائے گا تاکہ مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگ آپس میں الجھنے کے بجائے معاملات کے حل مقامی سطح پر ہی کر سکیں۔ پاکستان علماء کونسل اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، دہشت گردی ، مذہبی منافرت کا خاتمہ مکالمہ اور قانون کی بالادستی سے ہی ممکن ہے اور اگر مکالمے کے دروازے بند کر دیئے جائیں اور قانون انتہا پسندوں کے ہاتھوں یر غمال بن جائے تو پھر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا آج ہم کر رہے ہیں لیکن مایوسی تو رب کریم کے مطابق گناہ ہے۔ ہمیں قرآن کریم کے حکم کو کہ ’’تمہارے لئے تمہارا دین ، ہمارے لئے ہمارا دین‘‘۔ اپنا شعار بنانا چاہئے اور تصادم کے راستے مکالمے اور قانون کی بالادستی کے ذریعے بند کرنے چاہئیں ۔ اگرچہ یہ پُرخطر راستہ ہے لیکن حوصلہ اور ہمت سے ہی اس راستے پر چل کر امن ، رواداری ، محبت، پیار اور بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کی منزل پائی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین