• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائدِ اعظم نے جس ریاست کی بنیاد رکھی، وہ تمام تر آزمائشوں، سازشوں، کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود مسلسل آگے بڑھ رہی ہے
قائدِ اعظم نے جس ریاست کی بنیاد رکھی، وہ تمام تر آزمائشوں، سازشوں، کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود مسلسل آگے بڑھ رہی ہے

اگر تاریخِ انسانی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اقوام کی تشکیل، تہذیبوں کی تبدیلی اور سلطنتوں کی بنیاد اکثر ہجرت کے عمل سے مشروط ہے۔ ہجرت محض ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک تہذیبی، فکری اور جذباتی سفر ہے، جس میں انسان اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نئے خواب کی تعبیر کے لیے نکلتا ہے۔14 اگست کی مناسبت سے جب ہم پاکستان کی بنیاد اور نظریے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے ہجرت کا یہ عالم گیر تصوّر سمجھنا ہوگا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہجرت صرف ایک مذہبی یا سیاسی عمل نہیں بلکہ بعض اوقات یہ فطری و حیاتیاتی ضرورت بھی بن جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کا مصر سے خروج، ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ جیسے واقعات نے دنیا کی تاریخ پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ اِسی طرح یورپ میں بھی بڑی بڑی ہجرتیں ہوئیں۔

رومن ایمپائر کے زوال کے بعد بازنطینیوں کی ہجرت، روسی انقلاب کے بعد روسی اشرافیہ کی یورپ کی طرف نقل مکانی اور بعد ازاں دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں لاکھوں افراد کا اپنی اپنی سرزمین چھوڑ کر دوسری جگہوں پر بسنا۔ ہر ہجرت کے پیچھے ایک درد، جدوجہد اور خواب ہوتا ہے۔ خواب ایک ایسی دنیا کا، جہاں انسان اپنی شناخت، عقیدے، نظریے اور اپنی زندگی کے حق کے ساتھ زندہ رہ سکے۔

برّ ِعظیم میں انگریز سام راج کے خلاف مزاحمت نے مسلمانوں میں اپنے تشخّص کی جستجو پیدا کی۔ انگریز کی غلامی میں جب مسلمانانِ ہند نے خود کو کچلا ہوا پایا، تو یہ سوال اُبھرا’’کیا ہمیں آزادی کے بعد بھی ایک اقلیت بن کر جینا ہے یا ہم ایک علیٰحدہ وطن حاصل کر کے اپنی خود مختاری کا پرچم بلند کریں گے؟‘‘

یہ وہ لمحہ تھا، جب ڈاکٹر علّامہ اقبال کے خواب اور قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی قیادت نے مسلمانانِ ہند کو ایک نئی سمت دی۔ 1930 ء کے خطبۂ الٰہ آباد سے لے کر 1940 ء کی قراردادِ پاکستان تک، اور پھر1947 ء کی تقسیم تک، مسلمانوں نے اِس خواب کو عملی شکل دینے کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ لیکن اس خواب کی تعبیر ممکن نہ ہوتی، اگر لاکھوں لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک نئی سرزمین کی طرف ہجرت نہ کرتے۔1947 ء کی ہجرت محض ایک سیاسی یا جغرافیائی تبدیلی کا سفر نہیں تھا، یہ تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی اجتماعی نقل مکانی تھی۔ 

لاکھوں خاندان اپنے پیاروں، گھروں، جائیدادوں، قبرستانوں، ثقافتوں اور یادوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک ایسے وطن کی طرف روانہ ہوئے، جو ابھی صرف نقشے پر وجود رکھتا تھا۔ اُن کے دِلوں میں قائدِ اعظم کا دیا ہوا یقین اور علّامہ اقبال کا خواب بس رہا تھا۔ دورانِ ہجرت جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا ایک خوں چُکاں باب ہے۔ٹرینیں لاشوں سے بَھری ہوئی پہنچتی تھیں، خواتین کی عصمتیں لُٹیں، بچّے یتیم ہوئے، خاندان بکھر گئے،مگر اس کے باوجود ہجرت جاری رہی۔ ان کے جذبے کو کوئی طاقت نہ روک سکی۔ کیوں؟کیوں کہ یہ ہجرت کسی زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں تھی، بلکہ یہ ایک نظریے کے تحت تھی اور وہ نظریہ تھا، نظریۂ پاکستان۔

جب ہم 14 اگست مناتے ہیں، پرچم لہراتے ہیں، ملی نغمے گاتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ دن صرف جشن کا نہیں، بلکہ احتساب، تجدیدِ عہد اور قربانیوں کی یاد کا دن ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے ہجرت کی، اپنا خون بہایا، اپنا سب کچھ چھوڑا، کیا ہم اُن کے خواب کی تعبیر بن سکے؟ کیا ہم نے اُس نظریے کی حفاظت کی، جس کے لیے پاکستان بنا؟14 اگست1947 ء کو جب پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرا، تو دنیا نے یہ تصوّر کیا کہ شاید ایک نوزائیدہ مُلک سیاسی انتشار، اقتصادی دباؤ اور انتظامی بدحالی کی نذر ہو جائے گا۔ 

مگر اس کے برخلاف، پاکستان نے اپنی نظریاتی بنیادوں پر قیادت کے وژن سے ایسا سفر شروع کیا، جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد، قائدِ اعظم محمّد علی جناح کو ایک ایسی ریاست کی تعمیر کرنی تھی، جہاں لاکھوں مہاجرین بے سرو سامانی کے عالم میں آ رہے تھے۔ ایک طرف تقسیم کے فسادات کا زخم، دوسری طرف بھارت کی جانب سے کشمیر پر قبضے کی سازش، تو تیسری طرف مالی و انتظامی وسائل کی شدید کمی۔

اِن تمام چیلنجز کے باوجود، قائدِ اعظم نے کہا’’ہم نے پاکستان کو صرف حاصل نہیں کرنا بلکہ اسے کام یاب بھی بنانا ہے۔‘‘ اُنہوں نے دن رات ریاستی اداروں کے قیام پر توجّہ دی۔ گورنر جنرل ہاؤس سے لے کر اسٹیٹ بینک، سِول سروسز اور افواجِ پاکستان تک، ہر ادارہ بغیر کسی پرانی بنیاد کے کھڑا کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب رہنمائی کے لیے صرف نظریہ، اصول اور خلوص تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد فاطمہ جناح، صرف ایک بہن ہی نہیں تھیں، قائدِ اعظم کے لیے سائے کی طرح موجود تھیں۔ جب قائدِ اعظم بیمار ہوئے، تو وہ نہ صرف اُن کی تیمارداری کرتی رہیں، بلکہ حسّاس سیاسی ملاقاتوں میں بھی اُن کا مکمل ساتھ دیا۔ بعد ازاں، ایّوب خان کے دورِ آمریت میں محترمہ فاطمہ جناح نے جس جرأت سے صدارتی انتخاب لڑا، وہ پاکستانی خواتین کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک مثال بن گیا۔ اُن کی زبان میں سچّائی، بات میں اصول اور شخصیت میں وقار تھا۔ اُن کی جدوجہد صرف ایک شخص یا کرسی کے لیے نہیں تھی، پاکستان کی جمہوری روُح کی بقا کے لیے تھی۔

نئی ریاست کے بڑے چیلنجز

پاکستان کو قیام کے بعد فوری طور پر کئی خطرناک اور سنجیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔مہاجرین کی آباد کاری:لاکھوں افراد ہجرت کر کے پاکستان پہنچے۔ اُن کے لیے رہائش، خوراک، صحت اور روزگار کا انتظام ایک دیوہیکل چیلنج تھا۔ کیمپ قائم کیے گئے، اسکولز اور اسپتالوں کو عارضی پناہ گاہیں بنایا گیا۔ ان گم نام کارکنوں، اساتذہ، ڈاکٹرز اور رضاکاروں کا کردار بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔معاشی ڈھانچے کی عدم موجودگی: پاکستان کے پاس نہ کوئی مرکزی بینک تھا، نہ اپنی کرنسی اور نہ ہی زرِمبادلہ کے ذخائر۔ اِن حالات میں1948 ء میں اسٹیٹ بینک کا قیام ایک عظیم سنگِ میل ثابت ہوا، جس سے مُلکی مالیاتی خود مختاری کی بنیاد پڑی۔

ریاستی اداروں کا قیام: پاکستان کی بیوروکریسی، عدلیہ، تعلیم، دفاع، مواصلات اور دیگر شعبہ جات میں ایک نیا نظام تشکیل دینا تھا۔ اقوامِ متحدہ میں نمائندگی، بین الاقوامی سفارت کاری اور دفاعی محاذ کی تشکیل جیسے بڑے کام ایک محدود ٹیم نے محض دو برسوں میں مکمل کیے۔نظریاتی سمت کی وضاحت: قائدِ اعظم نے یہ بات کئی مواقع پر واضح کی کہ پاکستان کو مذہبی رواداری، قانون کی حُکم رانی اور اقلیتوں کے تحفّظ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔

اِس ضمن میں اُن کی 11 اگست 1947 ء کی تقریر تاریخ کی ایک روشن مثال ہے، جس میں اُنھوں نے کہا کہ’’آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں…‘‘یہ الفاظ پاکستان کے اصل نظریاتی رُخ کو ظاہر کرتے ہیں۔

ایک ایسا مُلک جہاں اسلامی اصولوں کی روشنی میں سب کو برابری، انصاف اور تحفّظ حاصل ہو۔مسئلۂ کشمیر: قیامِ پاکستان کے فوری بعد پہلا بڑا قومی بحران کشمیر کے مسئلے کی صُورت سامنے آیا۔ بھارت نے الحاق کی آڑ میں کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ قائدِ اعظم اور اُن کے رفقاء نے اس قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور پاکستان نے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر یہ مسئلہ آج تک درپیش ہے اور اس کی جڑیں قائدِ اعظم کے اُس اصولی مؤقف میں ہیں کہ“کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘میڈیا، تعلیم اور زبان: ریاستی ڈھانچے کے ساتھ زبان، میڈیا اور تعلیم کے شعبوں میں بھی نئی جہتیں متعارف کروائی گئیں۔ ریڈیو پاکستان، اردو زبان کی ترویج اور نصاب کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل، وہ کام تھے، جو پاکستان کی نظریاتی شناخت کو تقویت دے رہے تھے۔

11 ستمبر1948 ء کو قائدِ اعظم کی وفات ایک بڑا سانحہ تھی، مگر اُنہوں نے جس ریاست کی بنیاد رکھی تھی، اُس نے اپنا سفر جاری رکھا۔گرچہ یہ سفر آسان نہ تھا، لیکن اخلاص، قربانی اور جذبۂ حب الوطنی جیسے اوصاف نے پاکستان کو سنبھالے رکھا۔ بعدازاں، ریاست داخلی بحرانوں کا شکار ہونے لگی۔ قائدِ اعظم، محمّد علی جناح اور لیاقت علی خان جیسے بانیان کی وفات کے بعد ریاستی مشینری بے سمت ہونے لگی۔ سیاست دان باہم دست و گریباں، ادارے غیر مستحکم اور بیرونی دباؤ بڑھنے لگا۔ 

ایسے میں اقتدار پر قبضے کی راہ ہم وار ہوئی اور پاکستان میں مارشل لاء کا سیاہ باب کُھل گیا۔1958 ء میں پاکستان کے پہلے فوجی حُکم ران جنرل محمّد ایّوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ سیاست دان مُلک کو غیر مستحکم کر رہے ہیں اور قومی مفاد میں فوج کو مداخلت کرنی پڑی۔ ابتدا میں عوام نے اُن کے وعدوں، دعووں پر بھروسا کیا۔

ترقّی، نظم و ضبط اور گورنینس کے نعروں کے ساتھ ایّوب خان نے ایک کنٹرولڈ ڈیموکریسی متعارف کروائی، جسے’’بنیادی جمہوریت‘‘ کا نام دیا گیا، لیکن جلد ہی عوام کو احساس ہونے لگا کہ یہ جمہوریت نہیں، آمریت ہے، جہاں اظہارِ رائے محدود، سیاسی جماعتیں کم زور اور آئین کو بار بار معطّل کیا جا رہا ہے۔ایّوب خان نے 1962 ء میں ایک نیا آئین متعارف کروایا، جو صدر کو غیر معمولی اختیارات دے کر پارلیمان کو صرف دکھاوے کا ادارہ بنا رہا تھا۔ 

یہ آئین، پاکستان کی پارلیمانی رُوح کے خلاف تھا۔ایّوبی آمریت کے خلاف سب سے جرأت مند مؤقف محترمہ فاطمہ جناح نے اپنایا اور1965 ء میں ایّوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا۔ پورے مُلک میں اُن کے جلسوں میں عوام کا جمِ غفیر اُمڈ آتا، خاص طور پر کراچی، ڈھاکا، لاہور اور حیدرآباد جیسے شہروں میں خواتین، نوجوان، بزرگ سب اُن کے حق میں نکل آئے، مگر انتخابات میں بڑی دھاندلی ہوئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ اگر الیکشن شفّاف ہوتا، تو فاطمہ جناح پاکستان کی پہلی صدر منتخب ہوتیں۔ اُن کی ہار، دراصل جمہوریت کی ہار تھی۔ بہرکیف، ایّوب خان کے خلاف نفرت کی لہر بڑھنے لگی۔ 1969 ء میں ایّوب خان کے استعفے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔ اُنہوں نے عام انتخابات کا وعدہ کیا اور1970ء میں انتخابات ہوئے بھی، جو پاکستان کی تاریخ کے پہلے منصفانہ انتخابات تھے۔

عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کی،پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی بنی،لیکن اقتدار منتقل نہ کیا گیا۔ طاقت کا نشہ، نفرت کی سیاست، اور فوجی حل نے ایک ریاست کو دو لخت کر دیا۔1971 ء میں بھارتی مداخلت کے ساتھ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلا دیش بن گیا اور یہ سقوطِ ڈھاکا صرف جغرافیائی سانحہ نہ تھا،پاکستان کے نظریاتی انتشار کا کرب ناک نتیجہ تھا۔

قیادت کا نیا دَور

سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان شدید صدمے اور غیر یقینی کی حالت میں تھا۔ قوم کو ایک مضبوط اور عوامی قیادت کی ضرورت تھی، جو اعتماد بحال، ادارے مستحکم اور پاکستان کو ازسرِ نو تعمیر کرے۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹّو سامنے آئے اور پاکستان نے اُن کی قیادت میں مختصر سے وقت میں وہ سنگِ میل عبور کیے، جو کئی دہائیوں میں ممکن نہ ہو پاتے۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا جامع، جمہوری اور متفّقہ آئین دیا گیا، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے دست خط کیے۔ یہ آئین آج بھی ہماری ریاست کا بنیادی ڈھانچا ہے۔

بھٹو نے کہا تھا’’ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘یہ صرف ایک جملہ نہ تھا، بلکہ قومی خودمختاری کا عہد تھا۔ اُنہوں نے پاکستان کے سائنسی دماغوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وطن واپس بلایا اور ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔وہ صرف قومی نہیں، عالمی سطح کے رہنما تھے۔ 

اُن کی قیادت میں 1974 ء کی لاہور، او آئی سی کانفرنس ہوئی، جس میں مسلم دنیا کے تمام بڑے رہنما شریک ہوئے۔5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا۔ بھٹو صاحب گرفتار کر لیے گئے اور ایک سیاسی و عدالتی کھیل کے ذریعے4 اپریل 1979 ء کو اُنہیں پھانسی دے دی گئی۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا کہ ایک منتخب وزیرِ اعظم، جس نے مُلک کو آئین دیا، ایٹمی طاقت کی راہ پر ڈالا، مزدوروں اور کسانوں کو آواز دی، اُسے ایک غیر منصفانہ ٹرائل کے ذریعے خاموش کر دیا گیا۔

والد کی پھانسی کے بعد جب قوم مایوس تھی، تب محترمہ بے نظیر بھٹو نے قیادت کا عَلم اُٹھایا۔ اُنہوں نے نہ صرف والد کی فکر کو زندہ رکھا، بلکہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بن کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔1986 ء میں اُن کی تاریخی واپسی پر لاہور کی سڑکیں انسانی سروں سے بھر گئیں۔ یہ صرف واپسی نہ تھی، بلکہ جمہوریت کی بحالی کا آغاز تھا۔

دو مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے باوجود ہر بار غیر جمہوری قوّتوں نے اُن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں، مگر وہ نہ جُھکیں، نہ تھکیں۔27 دسمبر2007 ء کو لیاقت باغ میں اُنہیں شہید کر دیا گیا اور یہ صرف ایک شخصیت کی موت نہ تھی بلکہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کے سینے میں لگنے والا وہ زخم تھا،جو مندمل نہیں ہوسکتا، مگر اُن کے افکار، جدوجہد اور اُن کا وژن آج بھی زندہ ہے۔ 

ہر اُس شخص کے دل میں، جو پاکستان کو جمہوریت کے رستے پر گام زن، ایک خوش حال اور روادار مُلک دیکھنا چاہتا ہے۔اور پھر بی بی شہید کی وصیّت کے مطابق، بلاول بھٹّو زرداری نے19 برس کی عُمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ہر طرف سے کہا گیا کہ’’یہ ناتجربہ کار ہے، سیاست نہیں سمجھتا‘‘ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ صرف ایک وارث نہیں، ایک وژنری لیڈر بھی ہے۔ ( مضمون نگار، سندھ حکومت کی ترجمان ہیں)