• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے پاس اتنے بڑے تیل کے ذخائر ہیں کہ وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے جوبہت سوں کومستند دعویٰ نہیں لگتا۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ کے ناقابلِ یقین بلند و بانگ اعلانات نے دنیا کو مزید الجھا دیا ۔ جبکہ عالمی شہرت یافتہ ادارے "ورلڈومیٹر" کے انڈیکس کے مطابق پاکستان تیل کے ذخائر میں 52 نمبر پر آتا ہے ۔ ستمبر 2024 میں ایک مؤقر اخبار کے مطابق پاکستان کے سمندروں میں دوست ملک کے تین سالہ جیوگرافک سروے کے نتیجے میں پاکستانی حدود میں تیل و گیس کے چوتھے بڑے ذخائر کا انکشاف ہوا ۔البتہ ساتھ ہی بتایا گیا کہ اس سلسلے میں بہت سے مراحل طے کرنا ہونگے۔ یہ بھی بتایا کہ کمزور معیشت کے باعث پاکستانی حکومت گہرے سمندر میں ڈرلنگ کے اخراجات برداشت نہ کر سکتی تھی لٰہذا ان ذخائر کو دریافت کرنے میں اتنا وقت لگا البتہ اگر دریافت کی پیداوار و سائز، امید و اندازوں کے مطابق ہوا تو پاکستان کا تمام بیرونی قرضہ با آسانی اتر سکے گا۔ تاہم ان ذخائر کو باقاعدہ نظام کے تحت لانے میں چار سے پانچ سال تک لگ سکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں سمندر سے تیل کی پیداوار لینے کے لیے بہت بڑا پلیٹ فارم بنانا پڑتا ہے جہاں سے پائپ لائنز کے ذریعے گیس اور تیل کو پراسیسنگ پلانٹس تک لانے کا نظام بنانا ہوتا ہے۔ اسکو پراسیسنگ کے مرحلے سے گزر کر ہی اندرونِ وبیرونِ ملک فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اس سب عمل پر اربوں ڈالر کے اخراجات اٹھیں گے جنہیں اگر ہماری حکومتیں اپنے الّلے تلوں کو ختم یا کم ہی کر لیتیں تو شاید ممکن ہوتا لیکن ایسا نہ ہوا۔

صدر ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں اور اپنی کاروباری سلطنت کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاہم دوسرے 4 سالہ صدارتی دور میں سے بھی 7 ماہ سے اوپر ہوگئے ہیں، اسی لئے وہ "ھل من مزید"کے سفر پر برق رفتاری سے دوڑ رہے ہیں۔ٹیرف کی جنگیں ہوں یا عسکری جنگیں چھیڑنے کا معاملہ ، وہ اور انکے ساتھی اسٹاک مارکیٹوں کے اتار چڑھاؤ سے بھر پور مالی استفادے حاصل کر رہے ہیں۔اسلحہ یا عسکری سازوسامان کی ڈیل ہو یا کمرشل طیاروں کے معاہدے، سب ہی میں کمیشن بنایا جارہا ہے۔کہیں ٹیرف کم کرنے کے دام ہیں تو کہیں ٹیرف بڑھانے کے ۔ امریکی جمہوریت کا یہی المیہ ہے کہ "لابی" (انسانی اثر ورسوخ کے ذریعے کام نکلوانا)کے نظام کے ذریعے انکی جمہوریت،ان کی آزادی،انکا قومی مفاد سب یرغمال ہیں۔اسی لابی کا نتیجہ ہے کہ امریکی عوام آج فلسطین کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ان کے اداروں کی فنڈنگ بند کی جاتی ہے،ان کو ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ہر امریکی صدر جو اپنے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے، اپنے ملکی مفاد کے برعکس لابیوں کے ہاتھوں بے بس ہو جاتا ہے۔اسے یہ لابیاں(سیاسی لوٹے خریدکر) بتاتیں ہیں کہ صدر کے اپنے مفاد میں کیا ہے! کچھ یہی حال صدر ٹرمپ کا بھی ہے کہ کہاں وہ انتخابات میں نعرے لگاتے تھے کہ یوکرائن، فلسطین کی جنگوں کو ختم کرائیں گے اور کہاں انہیں مزید کئی جنگیں شروع کرنا پڑیں۔ ان سب جنگوں کے پیچھے وہی لابییاں کارفرما ہیں جنہوں نے امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے ساتھ گٹھ جوڑسے دنیا بھر میں جنگیں بپا کی ہوئی ہیں۔ انہیں فرق نہیں پڑتا کہ فریقین میں کون ظالم اور کون مظلوم ہے بلکہ مال و دولت کی ہوس میں یہ ظالم انسانیت کی سب حدیں عبور کر چکے ہیں۔ انہی کا ایک ابلیسی نمائندہ "شیطن یاہو" ہے جو اسرائیلی صیہونی ریاست کو بھی اس کے دیرپا مفاد کے برعکس اپنے خطے میں تمام ہمسایوں سے جنگوں یا عسکری چپقلشوں میں الجھائے رکھتا ہے۔ اسے بخوبی علم ہے کہ لابیوں کے زیرِ اثر امریکی جمہوری نظام سب کچھ داؤ پر لگا کر، قومی مفاد کے برعکس، بُری طرح مقروض معیشت کے باوجود، اسرائیل کی بقاء کے لیے اسلحہ و فنڈز فراہم کرے گا۔ یہ لابیاں دونوں جانب انتخابات میں فنڈز لگا کر امریکی صدور اور انتظامیہ کو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور لابیوں کے غلام بنا لیتی ہیں۔ اسی طرح دوسرے ملکوں میں دریافت ہونے والے معدنی وسائل پر بھی ان کی چیل سی نگاہ ہوتی ہے جیسے افریقی ممالک میں سونے اور ہیرے جواہرات کی کانیں، مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر اور یوکرائن میں نایاب زمینی ذخائر۔ ایسے ممالک میں جنگ کرا کر سیاسی ، گروہی و مذہبی فرقہ واریت پیدا کر کے،ان کو قرضوں کے جال میں باندھ کر، انکے وسائل پر ناانصافی پر مبنی معاہدے کیے جاتے ہیں۔ بعد ازاں انہی معاہدوں کے بہانے وہ نہ صرف وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں بلکہ وہاں کی حکومتیں بھی ان کے رحم و کرم پر بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔

پاکستان کے حالیہ تیل کے ذخائر بازیافت کرنے کے معاہدے اور اس سے پہلے بھی معدنیات بازیافت کرنے کے معاہدات پر نہ تو قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ قوم راضی ہے۔اِسے خوف ہے کہ تیل نکالنے کے بہانے ہمارے سمندروں پر ہی امریکہ قبضہ نہ کر لے کیونکہ خطے میں چین کے قدموں کے نقوش امریکہ کے لئے ناقابلِ برداشت ہیں جبکہ پاکستان چین کے مابین تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اسی لیے امریکہ نے سی پیک معاہدے کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکائے یہاں تک کہ ہندوستان اور اسرائیل کو بھی استعمال کیا۔ اب جب کسی طور پاکستان کو چین سے دور کرنا ممکن نہ رہا تو بلوچستان میں تیل نکالنے کے بہانے علیحدگی پسندوں کو شہ دے کر آزاد ملک کے نام پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جبکہ جو علیحدگی پسند اور شر پسند ہیں وہ پھر بھی تہی دامن بے دست وپا، اسی انجام کو پہنچیں گے جو غداروں کا مقدر ہوتا ہے۔ اس طرح بِنا پارلیمان میں بحث کرائے، بِنا قوم کو اعتماد میں لیے، پاکستان کی سلامتی و بقاء سے جڑے معاہدات کرنا ہمارے لیے سود مند نہ ہوں گے۔ بعینی ہمیں اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ ہماری امریکہ اور چین سے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی خواہش بھی حقیقت پسندی پر مبنی نہیں۔ امریکہ تسلط پسند اور دوسرے ملکوں کو ان کی کمزوریوں پر بلیک میل کرنے والا ملک ہے ۔اس لئے بلیک میل ہونے والے کے حق میں یہ بہتر ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو لٹکائے بجائے یہ کہ فوری سرنڈر کر دے، یوں گزرتے وقت کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے۔ پاکستان کے حق میں بھی یہی بہتر ہوگا کہ وہ پارلیمان میں اس پر بحث کرائے اور ایسے معاہدوں کے لیے "ریٹیفیکیشن " (توثیق ) کا قانون پاس کرے۔ ہمیں اس بات پر قطعا ًخوشی کے شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ کے ہندوستان سے تعلقات خراب ہو گئے ہیں اور اسکی محبت اچانک پاکستان کیلئے جاگ اُٹھی ہے۔ کہتے ہیں "بنیئے کا بچہ کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے"۔ امریکہ و ہندوستان پکے اتحادی ہیں جبکہ ہندوستان میں امریکی بزنس مینوں کی بہت سرمایہ کاری ہے۔ وہ ہر صورت اپنے سرمائے کا تحفظ کریں گے ویسے بھی ابھی چین کے خلاف جنگ میں امریکہ کو ہندوستان کی بہت ضرورت ہوگی۔ یہ خفگی ہندوستان میں رجیم چینج یا روس سے تعلقات کم کرنے پر فوراً دور ہوجائے گی۔ مومن کی نشانی ہے کہ وہ ایک بِل سے دوبارہ نہیں ڈسا جاسکتا! سوال ہے کہ کیا ہم ٹرمپ اور امریکہ سے لاتعداد مرتبہ دھوکا کھانے کے بعد انہیں دوبارہ آزمانے چلے ہیں؟

؎میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا

چڑتا ہوا دریا ہے اگر تُو تو اُتر جا

تازہ ترین