• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیپاٹائٹس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے ہر شخص کی اسکریننگ کرنی ہوگی

انسدادِ ہیپاٹائٹس کا عالمی یوم، ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد سے خصوصی بات چیت
انسدادِ ہیپاٹائٹس کا عالمی یوم، ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد سے خصوصی بات چیت

بات چیت: منور راجپوت

 بدقسمتی سے پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں ہر سال ہزاروں افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہو رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایک جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اِس کی ایک بڑی وجہ اِس مرض سے متعلق عوامی شعور و آگہی کی کمی ہے، اِسی لیے ہر سال 28جولائی کو’’ انسدادِ ہیپاٹائٹس کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ 

اِسی مناسبت سے گزشتہ دنوں فیکلٹی آف میڈیسن ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، اوجھا کیمپس کے سابقہ ڈین، ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کے سربراہ، اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کے ڈائریکٹر اور ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس میں اُنھوں نے ہیپاٹائٹس سے متعلق مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی۔

پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد مُلک کے معروف معالج ہونے کے ساتھ، تدریس اور انتظامی امور کے طویل و شان دار تجربے کے حامل ہیں۔ اُنہوں نے 1990ء میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1995ء میں ایم سی پی ایس(فیملی میڈیسن)، 1996ء میں ایف سی پی ایس(میڈیسن) اور 2021ء میں پی ایچ ڈی(میڈیسن) کی اسناد حاصل کیں۔ نیز، کینیڈا سمیت کئی ممالک کے معتبر اداروں کی اسناد کے بھی حامل ہیں۔اِن کے 30سے زاید تحقیقی مقالے شایع ہوچُکے ہیں۔

کینیڈین لائسنس کوالی فائیڈ ہیں، جب کہ اُن کے پاس رائل کالج کی فیلو شپ بھی ہے۔ خود کو جدید ترین تحقیقات سے باخبر رکھنے کے لیے آن لائن کورسز کے ساتھ، مُلک و بیرونِ مُلک سیمینارز، کانفرنسز اور ورکشاپس میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ 

فیکلٹی آف میڈیسن ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، اوجھا کیمپس کے ڈین سمیت کئی شعبوں کے سربراہ رہے، جس کے دَوران تعلیم و تحقیق کے فروغ اور عام افراد کو بہتر طبّی سہولتوں کی فراہمی کے کئی کام یاب منصوبوں پر کام کیا۔پوسٹ گریجویٹ سطح کے کئی امتحانات، جیسے ایف سی پی ایس اور ایم ڈی میں بطور ممتحن خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

کئی اداروں کے بورڈز آف گورننگ کے رُکن ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد اِن دنوں ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں،جب کہ ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کے سربراہ اور اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔

س: سب سے پہلے تو اپنی تعلیم اور کیرئیر سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: مَیں بنیادی طور پر ایک فزیشن ہوں۔ ایف سی پی ایس اور پی ایچ ڈی اِن میڈیسن ہوں۔ نیز، کینیڈین لائسنس کوالی فائیڈ بھی ہوں، جب کہ میرے پاس رائل کالج کی فیلوشپ بھی ہے۔ ڈاؤ یونی وسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی فیکلٹی آف میڈیسن کا ڈین رہا ہوں۔ ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن کا سربراہ اور اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کا ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ، اِن دنوں ڈاؤ میڈیکل کالج کا پرنسپل بھی ہوں۔

س: ہیپاٹائٹس کیا ہے؟ نیز، اِس کی وجوہ اور اقسام پر بھی روشنی ڈالیے؟

ج: دیکھیں، جس لفظ کے آخر میں‘‘ itis‘‘آجائے، تو اس کا مطلب سوزش ہوتا ہے۔hepa لیور یا جگر کو کہتے ہیں۔ یوں ہیپاٹائٹس کا مطلب ہوا، جگر کی سوزش۔ اِسی طرح’’ Arthritis‘‘جوڑوں کی سوزش،’’Tonsillitis ‘‘ٹانسلز کی سوزش۔ ہیپاٹائٹس دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ ایک ایکیوٹ(Acute) اور دوسرا کرانک (Chronic)۔ ایکیوٹ کا مطلب ہوتا ہے، مکمل اٹیک کے ساتھ، جس کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، متاثرہ فرد کو اس کا پتا بھی ہوتا ہے اور مرض کی شدّت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

جب کہ کرانک میں دشمن آہستہ آہستہ اور گھات لگا کر حملہ کرتا ہے اور پتا بھی نہیں چلتا کہ کس وقت اٹیک ہوا تھا۔ جب بڑا نقصان ہوچُکا ہوتا ہے، تب خرابیاں سامنے آتی ہیں۔ اس میں علامات زیادہ شدّت کے ساتھ نہیں ہوتیں، لیکن نقصان بہت ہوجاتا ہے۔ اِن دونوں اقسام کی وجوہ ایک جیسی بھی ہوسکتی ہیں اور الگ الگ بھی۔ ایکیوٹ ہیپاٹائٹس میں سب سے اہم وائرل کازز ہیں۔ اس ضمن میں پانچ وائرسز اے، بی، سی، ڈی اور ای بہت اہم ہیں۔ اے اور ای کرانک ہیپاٹائٹس نہیں کرتے۔ بی، سی اور ڈی وائرسز کرانک ہیپاٹائٹس بھی کرسکتے ہیں۔

ایکیوٹ ہیپاٹائٹس کی وائرسز کے علاوہ بھی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اِن میں سرِفہرست وہ ادویہ ہیں، جو ہم دن رات استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ ایلوپیتھک بھی ہوسکتی ہیں اور دیگر حکیمی دوا یا کُشتے وغیرہ بھی۔ یہ وہ ادویہ ہیں، جنہیں یہ جانے بغیر دھڑا دھڑ پھانکا جاتا ہے کہ اِن کے کیا سائیڈ ایفیکٹس ہوسکتے ہیں۔ مَیں کسی خاص طریقۂ علاج کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، مگر یہ واضح ہے کہ کوئی بھی ایسی دوا، جسے باقاعدہ چیک نہ کیا گیا ہو، ہیپاٹائٹس کا سبب بن سکتی ہے۔ 

مثلاً پیراسٹامول ہی کو دیکھ لیں، جسے ہم ڈاکٹر کی ہدایت کے برعکس، خود ہی معمولی سے درد میں بھی پھانک لیتے ہیں۔ پھر کچھ اینٹی بائیوٹکس ہیں، جن کا استعمال عام ہے، یہ سب ہیپاٹائٹس کا باعث ہوسکتی ہیں۔ اِسی طرح ٹی بی کی ادویہ سے بھی ہیپاٹائٹس ہوسکتا ہے۔ گویا، میڈیسن کی ایک لسٹ ہے، اِسی لیے دوا ہمیشہ مستند معالج کے مشورے ہی سے استعمال کی جانی چاہیے۔ پھر الکوحل بھی ہیپاٹائٹس کا سبب بن سکتا ہے۔

شراب ہمارے مذہب میں منع ہے اور معاشرے میں بھی اِسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، مگر پھر بھی بہت سے لوگ اِسے استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مقرّرہ مقدار سے زاید استعمال بھی ہیپاٹائٹس سے دوچار کر سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ، کچھ نسل در نسل چلنی والی بیماریاں ہیں، جو بہت سے خاندانوں میں پائی جاتی ہیں، جن کے سبب جسم میں آئرن اور کاپر وغیرہ جمع ہوجاتا ہے اور یہ موروثی بیماریاں بھی ہیپاٹائٹس کی وجہ بن جاتی ہیں۔

اب ایک نئی چیز بھی سامنے آئی ہے اور وہ ہے، جگر میں چربی کا جمع ہوجانا، یعنی فیٹی لیور۔ یہ چربی وہاں صرف جمع ہی نہیں ہوتی، بلکہ جگر کو نقصان پہنچانا بھی شروع کردیتی ہے اور اس ڈیمیج کا مطلب ہے، ہیپاٹائٹس۔ اس کے لیے ہم لفظ MASH)Metabolic Dysfunction Assciated SteatoHepatitis) استعمال کرتے ہیں۔ اِس عمل میں میٹابولک ڈس آرڈرز ہو جاتے ہیں، جسن سے انسان موٹا ہوجاتا ہے، شوگر لیول بڑھ جاتا ہے اور ایسا ہماری بے قاعدگیوں کے سبب ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے، فیٹی لیور سے متعلقہ معاملات پر ہماری توجّہ بہت کم ہے، حالاں کہ اِس شعبے میں بہت کام کی ضرورت ہے۔ یہ ماش(فیٹی لیور) بھی ایکیوٹ ہیپاٹائٹس کرتا ہے۔ سی اور ڈی وائرسز کرانک ہیپاٹائٹس بھی کرسکتے ہیں، جب کہ ڈی اکیلا بھی ایسا کرسکتا ہے، اگر بی موجود ہو، کیوں کہ یہ اس کا پیرا سائٹ ہے۔نیز، الکحول اور میڈیسن کے غیر محتاط استعمال سے ایکیوٹ کے ساتھ، کرانک ہیپاٹائٹس بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

س: ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کی علامات کیا ہوتی ہیں؟

ج: ایکیوٹ ہیپاٹائٹس تو بتا کر آتا ہے، یعنی یہ چُھپا دشمن نہیں ہے۔جراثیم جسم کے اندر جاکر ملٹی پلائی ہوتے رہتے ہیں، لیکن ابتدائی مرحلے میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن جب جگر کے افعال میں مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں، تو پھر علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایکیوٹ میں سب سے پہلے تو بھوک نہیں لگتی، ہلکا ہلکا بخار رہتا ہے، جو کبھی تیز بھی ہوسکتا ہے، پیٹ میں دائیں طرف درد رہنے لگتا ہے، پیشاب کا رنگ پیلا ہوجاتا ہے۔ 

مریض کہتا ہے کہ اُس کا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کر رہا، متلی ہونے لگتی ہے، شدّت بڑھنے پر اُلٹیاں شروع ہوجاتی ہیں اور آنکھیں پیلی ہونے لگتی ہیں۔ اِس مرحلے پر چند باتیں سمجھنا بے حد ضروری ہیں۔Incubation مرحلے میں ہیپاٹائٹس اے کے جراثیم متاثرہ شخص کے فضلے کے ذریعے خارج ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بظاہر وہ شخص ٹھیک ہے کہ ابھی علامات واضح نہیں، مگر اِس حالت میں بھی وہ اِن جراثیم کے ذریعے دوسرے افراد تک مرض پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے۔ 

جب علامات ظاہر ہوتی ہیں، تب تو اُسے دیگر افراد سے الگ کر دیا جاتا ہے، مگر اُس مرحلے سے قبل ہی وہ مرض پھیلا چُکا ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای میں بعض اوقات شدّت بڑھنے پر پیچیدگیاں ہوجاتی ہیں، مگر عموماً یہ ریکور ہوجاتے ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ اے اور ای کے جراثیم کرانک ہیپاٹائٹس کی شکل اختیار کرلیں۔ چند ہفتوں میں مریض اچھا بھلا ہوجاتا ہے اور اُس میں قوّتِ مدافعت بھی پیدا ہوجاتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خطرناک نہیں ہے۔ خاص طور پر ہیپاٹائٹس-ای حاملہ خواتین کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے۔

چوں کہ مریض کچھ کھا پی نہیں پاتا، تو اس میں نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے۔ لیور میں بلیڈنگ بھی شروع ہوجاتی ہے اور وہ غشی میں بھی جاسکتا ہے، یہاں تک کہ اگر صُورتِ حال سنبھالی نہ جائے، تو مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای میں بھی مریض کم ازکم دو ماہ تک تو گھر پر پڑا رہتا ہے۔ اگر کمانے والا وہی ہو، تو معاشی حالات دگرگوں ہوسکتے ہیں۔ اِسی طرح اگر کوئی بچّہ ہے، تو اُسے تعلیمی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مریض، دیگر افراد میں جراثیم منتقل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

ہمارے ہاں پیلیے اور ہیپاٹائٹس سے متعلق بہت سے مفروضے عام ہیں۔ مثلاً ٹی بی کی دوا سے پیشاب کا رنگ پیلا ہوجاتا ہے، تو ایسے افراد سمجھتے ہیں کہ اُنھیں پیلیا ہوگیا ہے۔ دیکھیں، یہ بات عوام تک پہنچانے کی بے حد ضرورت ہے کہ پیلیا اور ہیپاٹائٹس میں فرق ہے۔ پیلیا کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم کے اندر ایک مادہ ہوتا ہے، جسے بلوربن کہا جاتا ہے اور یہ پیلاہٹ دیتا ہے۔ اگر وہ جسم میں بڑھ جائے، تو پیلیا ہوجاتا ہے۔ اِس کی تین وجوہ ہوتی ہیں۔ 

اگر وہ زیادہ بننے لگے، جب ریڈ سیل میں زیادہ ٹوٹ پُھوٹ ہو، تو ہلکا سا پیلیا ہوجاتا ہے۔ یہ ہیپاٹائٹس نہیں ہے، خلیوں کی بیماری ہے، جس میں پیلاہٹ ہوجاتی ہے، مگر ہم ہیپاٹائٹس کے علاج کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ بلوربن، جگر سے آنتوں کے راستے جسم سے باہر نکل جاتا ہے، لیکن اگر اِس راستے میں کوئی رکاوٹ اُسے روک دے، جیسے پتھری وغیرہ، تو یہ خون میں شامل ہوجائے گا، اُس سے بھی پیلا پن ہوجاتا ہے، مگر یہ بھی ہیپاٹائٹس نہیں ہے۔

پیلیا کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ ہیپاٹائٹس ہی ہے۔ پیلیا بس ہیپاٹائٹس کی ایک علامت ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کی ہیپاٹائٹس میں کبھی کبھار پیلیا ظاہر نہیں بھی ہوتا، جیسے کہ ابتدائی اسٹیج پر۔ آنکھوں میں پیلاہٹ نہیں ہے، مگر مریض کو بخار ہے۔ اگر آپ کے مریض کو بھوک نہیں لگ رہی، تو دوا دیتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے کہ ہوسکتا ہے، ابھی وہ اُس اسٹیج پر ہو، جہاں پیلیا ظاہر نہیں ہوتا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:زاہد رحمان)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:زاہد رحمان)

س: مریض کو کس مرحلے پر ڈاکٹر سے لازماً رجوع کرنا چاہیے؟

ج: اِس کا سادہ سا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ جب بھی جسم میں کچھ تبدیلیاں محسوس ہوں، ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے، مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈھائی، تین ہزار روپے فیس لینے والے ڈاکٹر ہی کے پاس جانا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ہیپاٹائٹس خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ 

لوگ کہتے ہیں کہ گلے میں دھاگا ڈال لیں، وہ سُکڑتا جائے گا اور یہ مرض ختم ہوتا جائے گا، تو بھائی گلے میں دھاگا ڈالیں یا جوتا، یہ مرض اپنے مقرّرہ وقت پر خود بخود ختم ہوجائے گا اور کریڈٹ خوامخواہ پھونک مارنے، دھاگا دینے والے کو چلا جائے گا۔

ڈاکٹر کے پاس جانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریض غیر ضروری ادویہ سے بچ جاتا ہے، اُس کی پراپر کاؤنسلنگ اور ٹریٹمنٹ ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اِسے باقاعدہ علاج کے لیے داخل کرنے کی ضرورت ہے یا ہلکا پُھلکا ٹریٹمنٹ ہی کافی ہے۔

س: علاج معالجے کے مراحل پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

ج: ایکیوٹ ہیپاٹائٹس کے لیے کوئی خاص دوا نہیں۔ یاد رکھیں، ادویہ آخرکار جگر ہی میں جاکر میٹا بولائز ہوتی ہیں۔ تو دوا نہ دینا، دینے سے زیادہ عقل مندی کی بات ہے۔ یوں ڈاکٹر، مریض کو غیر ضروری ادویہ سے بچا لیتا ہے۔ یہاں عوام میں مشہور چند باتوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ اگر کسی کی آنکھیں پیلی ہوجائیں، تو ہر ملنے والا اُسے کچھ چیزوں کے استعمال سے باز رہنے کا مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ مت کھانا، وہ مت کھانا، آخر میں اُس کے پاس ٹینڈے اور کدو ہی رہ جاتے ہیں۔

یہ بات عوام تک پہنچانی بہت ضروری ہے کہ ایک شخص، جسے پہلے ہی مرض کی وجہ سے اشتہا نہیں ہے، کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا، ایسے میں اُسےکھانے کو وہ چیز دی جا رہی ہے، جو اُسے ویسے ہی پسند نہیں، اوپر سے نہ مرچ مسالا اور نہ ہی گھی۔ ایک تو پہلے ہی کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا، اوپر سے بالکل پھیکا کھانا، تو وہ بے چارہ بھوکا ہی رہے گا، حالاں کہ ریکوری کے لیے اُسے اچھی غذا کی ضرورت ہے۔ تو اُسے ایسی متوازن غذا دی جائے، جو وہ رغبت سے کھا سکے۔ تھوڑا تھوڑا کرکے کھلائیں، لیکن ہر چیز کھلائیں۔

اگر مریض کو متلی ہوتی ہے، تو کہتے ہیں’’ یہ چیز مت کھلاؤ‘‘، حالاں کہ وہ متلی اُس غذا سے نہیں، بلکہ زیادہ کھانے سے ہوتی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اِن مریضوں کو گنّے کا رس ہی پلاتے رہیں۔ دیکھیں، اگر وہ گنے کا رس پی رہا ہے، تو اُسے ضرور پلائیں، مگر اُسے صرف کاربوہائیڈریٹس تو نہیں چاہیے، پروٹین وغیرہ بھی چاہئیں، یعنی متوازن غذا درکار ہوتی ہے، تو اگر آپ اُس کی بھوک گنّے کے رس ہی سے مارتے رہے، تو اُسے باقی چیزیں کہاں سے ملیں گی۔ اُس کی ہائیڈریشن تو ٹھیک ہوجائے گی، مگر باقی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی۔

پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ جسے پیلیا کا شک ہوتا ہے، وہ گنّے کے رس کے ٹھیلوں پر پہنچ جاتا ہے، تو وہاں صفائی کی کیا صُورتِ حال ہے، سب جانتے ہیں۔ جن افراد کو ہیپاٹائٹس اے یا ای ہے اور وہ وہاں جاتے ہیں، تو اگر وہاں حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، تو اس کی وجہ سے یہ مرض دوسروں میں بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے مریضوں کو فوراً ڈرپ لگانے کا بھی تصوّر ہے۔ اگر وہ غذا لے رہا ہے، پانی پی رہا ہے، تو ڈرپ کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی۔ 

ہاں اگر کوئی ڈی ہائیڈریشن کی طرف جا رہا ہے، غشی یا بلیڈنگ ہو رہی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے اسپتال میں داخل کروانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں علاج کے تین درجات ہیں۔ پہلا تو فیملی ڈاکٹر ہے اور ایسے ڈاکٹر ہر جگہ موجود ہیں۔ بس اُنہیں اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ غیر ضروری ادویہ استعمال نہ کروائیں۔ اگر مریض آگیا ہے، تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تھیلی بَھر کے دوا دینی ہی دینی ہے۔

ویسے ہماری نفسیات بھی کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ اگر ڈاکٹر ادویہ نہ دے، تو کہتے ہیں۔’’ عجیب ڈاکٹر ہے، فیس تو لے لی، مگر دیا کچھ نہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے مریض کو اپنی کاؤنسلنگ سے بتانا ہے کہ یہ غیر ضروری دوا نہ دینے ہی کی فیس ہے۔ علاج کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اگر کوئی پیچیدگی ہوگئی ہے اور مریض کو باقاعدہ داخل کرکے علاج کی ضرورت ہے، تو اُس کے لیے ہمارے یہاں کراچی میں جناح اسپتال، سول اسپتال اور ڈاؤ یونی ورسٹی اسپتال موجود ہیں، جہاں ہیپاٹائٹس کا مفت علاج ہوتا ہے۔

اِن اسپتالوں پر دباؤ اِس وجہ سے ہے کہ اگر یہی سہولتیں گاؤں دیہات کی سطح پر دست یاب ہوں، تو اِن اسپتالوں پر اِتنا دباؤ نہ آئے۔ اگر کبھی لیور ٹرانس پلانٹ بھی کرنا پڑے، تو ڈاؤ یونی ورسٹی اسپتال اور گمبٹ میں بھی ہوتا ہے۔ بہت سارے کیسز میں سندھ حکومت مالی معاونت کرتی ہے، جس سے مریضوں کو بہت کم پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

یہ ایکیوٹ ہیپاٹائٹس کی بات تھی۔ کرانک ہیپاٹائٹس کی بھی میڈیسن موجود ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ایکیوٹ ہیپاٹائٹس اے اور ای کلیئر ہوجاتا ہے اور بی ختم بھی ہوسکتا ہے، مگر بعض اوقات کیریئر اسٹیج پر چلا جاتا ہے، تو اس میں یہ نقصان ہے کہ متاثرہ فرد باقی افراد کو یہ مرض منتقل کرسکتا ہے، لیکن خود اُس میں کوئی ڈیمیج نہیں ہوتا۔ 

ایسے مریضوں کو صرف واچ کرنا ہے کہ اُن میں کوئی ڈیمیج تو نہیں ہو رہا۔ اگر کچھ ڈیمیج ہونا شروع ہوجائے، جسے ہم’’کرانک ہیپاٹائٹس‘‘ کہتے ہیں، تو اُنہیں باقاعدہ ٹریمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی کے لیے بھی یہی ہے۔ گو کہ ان کا علاج مشکل ہے، مگر ہوجاتا ہے۔ نیز، حکومت نے ہیپاٹائٹس کے علاج معالجے سے متعلق کئی پراجیکٹس بھی شروع کر رکھے ہیں۔

س: بچاؤ کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں؟

ج: عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کسی شخص کو ہیپاٹائٹس کیوں ہوتا ہے اور اِس ضمن میں میڈیا کی بہت اہمیت ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای کے جراثیم تو ملتے جُلتے ہیں، جو منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ گھر میں کسی کو ہیپاٹائٹس ہوگیا، علامات ظاہر ہوئیں یا نہیں، مگر وہ ایسے ہی گھوم پِھر رہا ہے۔

گھروں میں عموماً مشترکہ واش رومز ہی ہوتے ہیں، تو وہ جو واش روم استعمال کر رہا ہے، باقی لوگ بھی اُن ہی چیزوں کو استعمال کر رہے ہیں، جیسے تولیا، نل، صابن وغیرہ۔ بازار سے کوئی کھانا کھایا، جسے ہیپاٹائٹس کے مریض کے ہاتھ لگے ہوں، فوڈ رائیڈر میں اس کے جراثیم ہوں، تو یوں یہ مرض پھیل جاتا ہے۔ 

انگلینڈ میں ایک زمانے میں ٹائی فائیڈ بخار پھیلا۔ جب تحقیقات کیں، تو پتا چلا کہ ٹائیفی نامی ایک شخص کے بنائے گئے کھانے کی وجہ سے یہ مرض دوسروں میں منتقل ہو رہا تھا، تو سب سے پہلے اُس شخص کا علاج کیا گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ورکرز کی اسکریننگ نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے ہاں تمام ورکرز کی ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کی ہے۔ یہاں کوئی شخص بغیر اسکریننگ کھانا پکانے کے کاموں سے وابستہ نہیں ہوسکتا۔

فوڈ اتھارٹی والوں نے فوڈ پوائنٹس، ریسٹورینٹس یا ہوٹلز والوں کے لیے اسکریننگ لازمی قرار دی ہے اور شاید اُنہوں نے بی اور سی کی کروائی بھی ہے مگر اے اور ای کا کیا کریں گے، یہ معلوم نہیں۔ اگر کسی میں ہیپاٹائٹس-بی کی علامات ہوں، تو اگر اُس کا واش روم الگ نہیں کرسکتے، تو کم ازکم صابن کا استعمال تو اچھے سے کریں۔ بہتر ہے کہ پہلے لیکوڈ سوپ استعمال کریں، پھر صابن سے ہاتھ وغیرہ دھوئیں تاکہ جراثیم اُس پر نہ لگے رہیں۔

ہیپاٹائٹس-بی اور سی براہِ راست خون کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔اب شاید ہی کوئی سرنج شئیر کرتا ہو، تاہم وائلز کا اِس طرح استعمال عام ہے، جیسے انسولین کا ایک وائل لے لیا اور اُسی کو بار بار استعمال کرتے رہے۔ گو کہ بہت سی چیزوں میں وائل ختم کردئیے گئے ہیں، مگر اب بھی بہرحال اُن کا استعمال ہو رہا ہے۔ اسپتالوں میں ہر مریض کا الگ وائل ہونا چاہیے۔

نیز، حجامت بنوانے، کان چھدوانے اور ٹیٹوز وغیرہ کے دَوران بھی بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ اِتنا شعور تو آچُکا ہے کہ بلیڈ نیا ہے یا نہیں، مگر آپ نے دیکھا ہوگا کہ حجّام بلیڈ کو مزید صاف کرنے کے لیے ایک کٹوری میں آپ کے سامنے ڈیٹول ڈالتا ہے، اُسے خشک کرنے کے لیے نیا ٹشو پیپر استعمال کرتا ہے، مگر پانی تو وہی ہے۔ آپ حجامت کے لیے اپنی کِٹ ساتھ لے کر جائیں۔ پھر یہ بھی آپ کا حق ہے کہ اگر کبھی کسی ڈینٹسٹ کے پاس جائیں، تو استعمال ہونے والے اوزاروں سے متعلق اچھی طرح اطمینان کرلیں۔

س: آپ نے صاف پانی کا ذکر کیا، تو اِس سے کیا مُراد ہے؟

ج: اگر پانی آر او پلانٹ میں اسٹینڈرڈ مراحل سے گزرا ہے، تو صاف پانی ہے، مگر صاف پانی کی ہمارے ہاں جو مجموعی صُورتِ حال ہے، اِس ضمن میں سپریم کورٹ کی جانب سے کروائے گئے سروے میں بہت سے انکشافات ہوئے تھے۔ لہٰذا جو پانی بوتل میں مل رہا ہے، ضروری نہیں کہ وہ صاف بھی ہو۔ گھر میں کسی برتن میں پانی اُبال کر اُسے ٹھنڈا کرکے پئیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر مریض کو یہ مشورہ دیتے ہیں، تو دیکھنا ہوتا ہے کہ گھروں میں گیس کتنی آتی ہے۔

اِس طرح کے ایشوز تو ہیں، مگر یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔ آپ کو پتا ہے، لیور ٹرانس پلانٹ پر کتنا پیسا لگتا ہے؟ ہیپاٹائٹس کے علاج معالجے پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، تو ہمیں بیماری کی جڑ کو پکڑنا چاہیے کہ یہ مرض پیدا کہاں سے ہو رہا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای پر تو ہم صرف صاف پانی کے ذریعے بہت حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں، اِس طرح بوتلوں کے نام نہاد صاف پانی کے نام پر ہمارے جو کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، وہ بچ جائیں گے۔ 

اب عام آدمی بھی بوتل کا پانی خریدنے پر مجبور ہے، حالاں کہ دس، پندرہ سال پہلے ہم اسے عیاشی سمجھتے تھے۔ ہم یہ بات حیرت سے سُنتے تھے کہ سعودیہ میں لوگ باہر کی کمپنیز کا پانی پیتے ہیں۔ پھر کہتے کہ’’ اُن کے پاس تیل جو ہے‘‘، مگر اب باہر کی کمپنیز کا پانی ہمارے ہاں بھی گلی محلّے کی دُکانوں پر مل رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جو پیسا علاج معالجے پر اُٹھ رہا ہے، اُسے صاف پانی پر لگائے۔ حکومت کوئی ایسی حکمتِ عملی بنا سکتی ہے، جس کے تحت نجی شعبے کی شراکت سے گلی، محلّوں میں صاف پانی کے پلانٹس لگ جائیں۔ 

مساجد میں بھی لگائے جاسکتے ہیں اور کچھ شہروں میں ایسی مثالیں موجود بھی ہیں، جہاں سے لوگ پانی بَھرتے ہیں۔ مخیّر افردا بہت سے نیک کام کر رہے ہیں، وہ اِس طرف بھی اپنی توجّہ مرکوز کریں۔ جگہ جگہ دستر خوان قائم کیے گئے ہیں، اِن پیسوں سے صاف پانی کے پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں، جہاں سے یہ لوگ صاف پانی پی سکتے ہیں اور ہیپاٹائٹس اے اور ای سے بچ جائیں گے۔

ہمارا ٹائی فائیڈ اور کالرا پر جو پیسا لگ رہا ہے، صاف پانی کی فراہمی سے وہ بھی بچے گا۔ یہ کہنا آسان ہے کہ باہر کا کھانا نہ کھائیں، مگر ہمیں حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ لاکھوں افراد، چھوٹے چھوٹے ٹھیّوں سے لے کر بڑے بڑے ریسٹورینٹس اور ہوٹلز تک، کھانے پینے کے کاروبار سے وابستہ ہیں، اُنہیں کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ 

اب گھروں میں کھانے کم بنتے ہیں، جاب کے معاملات ہیں، یا کبھی گیس نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ضروری قانون سازی کی جائے اور جو قوانین موجود ہیں، اُن پر عمل درآمد یقینی بنائیں، نیز، عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کریں۔

س: عوام میں ہیپاٹائٹس سے متعلق آگاہی مہم کے ضمن میں کیا تجویز کریں گے؟

ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ہرگز نااُمید نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہنا کہ ’’ہماری قوم ہے ہی ایسی، کبھی نہیں سدھرے گی‘‘شاید درست نہیں۔ کورونا اِس کی ایک بہترین مثال ہے، جب میڈیا نے عوام کو ایجوکیٹ کیا اور قانون سازوں کی طرف سے اقدامات ہوئے۔ ہیپاٹائٹس سے متعلق بھی یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جن افراد کو شعور ہے، وہ دوسروں میں یہ شعور بانٹیں۔ وہ کسی حجّام کی دُکان یا کھانے پینے کی جگہ جائیں، تو اُنھیں اچھے انداز سے سمجھا سکتے ہیں۔ 

حجاموں کے لیے کورسز ہونے چاہئیں۔ اِسی طرح بیوٹی پارلرز والوں، کھانے پکانے اور بیچنے والوں کے ساتھ، آئمۂ مساجد کو بھی اِس مہم میں ساتھ رکھنا ہوگا۔ ہم نے اپنے طلبہ کے ساتھ مل کر مختلف علاقوں میں آگاہی مہم چلائی اور بہت سے افراد کی اسکریننگ کی۔ گھر گھر جا کر ہیپاٹائٹس سے متعلق شعور دیا۔اِس مہم میں تیس فی صد افراد میں ہیپاٹائٹس کی شناخت ہوئی۔ 

ہم نے پورے پورے علاقوں کا سروے کیا۔ گروپس کی صُورت حجاموں کے پاس گئے۔ مَیں نے طلبہ کو ساتھ لے کر گلشنِ اقبال اور گلستانِ جوہر میں کچرا چُننے والے بچّوں کی اسکریننگ کی، تو اُن میں ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس بی، سی پائے گئے۔ دو، تین ماہ تک ہم نے یہ کام کیا، تو باقی ادارے بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

س: یہ بتائیے، جگر کی صحت کیسے بہتر بنائی جاسکتی ہے؟

ج: صحت مند جگر کا مطلب ہے، ہمارا جسم صحت مند ہو۔ جسم میں چربی جمع ہو رہی ہے، تو وہ جگر کو بھی متاثر کرے گی اور یوں جگر صحت مند نہیں رہے گا۔ پھر ہمارا لائف اسٹائل اہم ہے، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ ہم آگے چل کر ہیپاٹائٹس سی، بی، اے اور ای کو تو شکست دے دیں اور شاید چیزیں بہتر بھی ہو رہی ہیں، لیکن ہمارا جو طرزِ زندگی ہے، اُس سے فیٹی لیور کے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ گھی ڈالو گے تو اچھا سالن بنے گا،’’ گھی بنائے سالنا، بڑی بہو کا نام‘‘، مگر اب بچّے جو کھا رہے ہیں، وہ ہمارے سامنے ہے۔

اسکولوں کے بچّوں کو دیکھیں، سارے گبلو، گبلو، موٹے موٹے سے ہوگئے ہیں، اسمارٹ بچّے کم ہی نظرآتے ہیں۔ گلیوں میں دیکھیں، تو فوڈ رائیڈرز کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ روایتی کھانے ختم ہوگئے، ہم نے پراٹھا زندگی سے نکال دیا، مگر پیزا کو داخل کرلیا۔ ہمیں اپنے بچّوں کا ذائقہ ڈیویلپ کرنا ہوگا، آپ بچّے کو کہیں ذرا ٹینڈے کھا کر دیکھو، شوربے والا سالن چکھو، وہ یہی کہیے گا’’ نو مام، مَیں فون کرکے برگر منگوا لیتا ہوں‘‘، ہر گھر میں یہی ہو رہا ہے۔

دراصل، ہم نے بچّوں کا ذائقہ ڈیویلپ ہی نہیں کیا۔ ہم عُمر کے جس حصّے میں ہیں، شاید ہمیں پیزا اچھا نہ لگتا ہو، کیوں کہ ہمارا یہ ذائقہ ڈیویلپ نہیں ہوا، ہمارے ذہن میں تو وہی کھانے اور ذائقے ہیں، جو والدین نے بچپن میں کھلائے تھے، جیسے زردہ اور ہم سمجھتے ہیں کہ مزہ وہی ہے۔ اچھا اِس میں بچّوں کا بھی قصور نہیں ہے، وہ ٹی وی کھولتے ہیں، تو کالے رنگ کی بوتل کے ساتھ بڑا سا برگر نظر آتا ہے۔ دوسری طرف گھر بیٹھے فاسٹ فوڈ منگوانا بھی آسان ہوگیا ہے۔ 

ماؤں کو آگے بڑھنا ہوگا، وہ اپنے بچّوں کے لیے اِتنا کچھ کرتی ہیں، تو یہ بھی کریں کہ اُن کے بچّوں کی صحت کا معاملہ ہے۔ مِڈل ایسٹ میں تو اچھی لسّی مل جاتی ہے، مگر یہاں نہیں ملتی۔ اٹلی نے اپنا کھانا ہمیں بیچ دیا، ہر جگہ عجیب و غریب ناموں سے اٹالین فوڈ دست یاب ہے، مگر ہم لوگوں نے اپنی چیزیں مارکیٹ نہیں کیں۔ اُنہوں نے اپنا پیزا بیچ دیا، ہم اپنے آلو بَھرے پراٹھے اور چھاچھ کو مارکیٹ نہیں کر پائے۔ نئی جنریشن کو بتائیں کہ ذائقہ اِن میں بھی ہے، ورنہ اگلی نسل جگر پکڑے بیٹھی ہوگی۔

س: آپ ماہر فزیشن بھی ہیں، تو ہیپاٹائٹس کے علاج کے ضمن میں ڈاکٹرز کو کیا کہنا چاہیں گے؟

ج: ایک تو یہ کہ معالج زمینی حقائق سامنے رکھے۔علاج سے متعلق گائیڈ لائن تو طے ہے، مگر اسے معاشرے کے لحاظ سے بھی بات کرنی ہوگی کہ جب تک اُسے ہماری روایات اور معاشرتی زندگی کا علم نہیں ہوگا، وہ معاشرے کو سمجھا نہیں پائے گا۔ اگر ڈاکٹر کے پاس کوئی ایسا مریض آتا ہے، جسے دوا کی ضرورت نہیں اور وہ اُسے دوا دئیے بغیر واپس بھیج دے، تو مریض کسی اور کے ہتّھے چڑھ جائے گا۔ 

اِس لیے مریض کی اچھی کاؤنسلنگ بھی ضروری ہے، جس کے لیے ڈاکٹر کو مریض کو وقت دینا ہوگا۔ اگر مریض کے ذہن میں اشکالات رہ گئے، تو وہ گوگل، یوٹیوب کے ذریعے اُسے پُر کرے گا، یا پھر لوگ اُسے مشورے دیں گے کہ فلاں آئل فلاں مرض کے لیے ہے۔

لہٰذا ڈاکٹر کو اچھا کاؤنسلر بھی ہونا چاہیے اور اُسے مریض کے لیول پر اُتر کر اُس سے گفتگو کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے گلے میں دھاگا یا بوٹیاں وغیرہ پہنی ہوئی ہیں، ڈاکٹر اُسے دیکھتے ہی ترش لہجے میں کہے کہ انھیں فوراً اُتار پھینکو، تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ پھر یہ کہ ادویہ ساز کمپنیز کا خواہ کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ہو اور مریض بھی دوا کے لیے اصرار کر رہا ہو، آپ کو وہی کرنا ہے، جو طے شدہ ہے۔

ادویہ کا غیر ضروری استعمال نہیں کرنا، تو بس نہیں کرنا۔ اور اُسے یہ سب کچھ اچھی کاؤنسلنگ کے ذریعے کرنا ہے۔ یہ بات شاید عجیب لگے، مگر ایک ڈاکٹر کو چاہیے کہ اگر اُس کے علاقے میں صاف پانی نہیں آ رہا، تو اُسے مقامی کاؤنسلر سے بات کرنی چاہیے، کیوں کہ ڈاکٹرز بنیادی طور پر معاشرے کے لیڈر ہوتے ہیں اور اُن کی آواز عام آدمی کی نسبت زیادہ توجّہ سے سُنی جاتی ہے۔ 

ڈاکٹر کو صرف دوا لکھنے والا نہیں ہونا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش بھی کرے۔اگر اُس کے پاس کسی خاص علاقے سے ہیپاٹائٹس کے مریض آ رہے ہیں، تو ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ فوڈ اتھارٹی کو وہاں کے کھانے کے مراکز چیک کرنے کے لیے لکھے۔

س: ہیپاٹائٹس کے علاج معالجے سے متعلق دیواروں پر بھی بہت کچھ لکھا نظر آتا ہے؟

ج: دیکھیں، مارکیٹنگ سے بڑا فرق پڑتا ہے۔ اگر ہم جگہ خالی چھوڑیں گے، تو کوئی اور وہاں قبضہ جما لے گا۔ یہی کچھ حکیم یا عامل کر رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ ہیپاٹائٹس سے متعلق شعور کی کمی بھی ہے۔ گلی محلّوں میں ہیپاٹائٹس-بی اور سی کے علاج کے دعوے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے، اِس لیے بھی کہ اُن کی وجہ سے مرض بگڑ جاتا ہے، کیوں کہ پراپر علاج نہیں ہوپاتا۔

حکیموں کو یہی کہتا ہوں کہ وہ لوگوں کو’’ جگر کی گرمی‘‘ کا کہہ کہہ کر تختۂ مشق نہ بناتے رہیں، ایسے افراد کو ڈاکٹرز کے پاس بھیج دیا کریں کہ جب خود اُنہیں ہیپاٹائٹس ہوجاتا ہے، تو وہ ہم ہی سے رجوع کرتے ہیں۔ ایک حکیم صاحب کی مختلف امراض کے علاج کے دعووں پر مبنی جگہ جگہ چاکنگ ہوا کرتی تھی۔ ایک بار مَیں نے دیکھا کہ وہ اپنے علاج کے لیے ہمارے اسپتال آئے ہوئے تھے۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ لوگ واقعتاً اِن امراض کا علاج کر رہے ہوتے، تو مغرب اُنہیں جہاز بَھر بَھر کے اپنے ہاں نہ لے جاتا۔

س: جگر کے امراض میں مبتلا بعض افراد علاج کے لیے بھارت بھی جاتے ہیں، تو کیا یہاں سہولتوں کا فقدان ہے؟

ج: مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ بھارت کیوں جاتے ہیں۔ اگر یہاں پیچیدگیاں ہیں، تو وہاں بھی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں سے کچھ ڈاکٹرز، مریضوں کو وہاں بھیجتے ہوں اور اُن کی وہاں کمیونی کیشن ہو، کیوں کہ آج کل میڈیکل ٹورازم کا بھی بہت چرچا ہے۔ پھر یہ کہ شاید لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ وہاں علاج سَستا ہے، مگر مَیں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پاس اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولتیں ہیں۔

مَیں اپنے ایک سینئیر ڈاکٹر کے ساتھ سنگاپور گیا تاکہ لیور ٹرانس پلانٹ سے متعلق جان سکیں، کیوں کہ ابھی یہاں سیٹ اپ قائم نہیں ہوا تھا۔ ہم جاننا چاہ رہے تھے کہ پاکستان میں یہ کام کرسکتے ہیں یا نہیں۔ وہاں سرجن بھارت کا تھا، جس نے بڑی رعونت سے کہا کہ ’’آپ لوگ یہ نہیں کرسکتے، یہ آسان نہیں ہے۔‘‘ ہم نے کہا’’ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کچھ عرصے کے لیے ڈاؤ آجائیں اور یہاں لوگوں کو سِکھا دیں۔‘‘ 

اُنہوں نے پھر ہماری ہمّت توڑتے ہوئے کہا ’’نہیں، یہ آسان نہیں ہے۔‘‘ لیکن دیکھیں، ہمارے ہاں لیور ٹرانس پلانٹ ہو رہے ہیں اور اس ضمن میں ہم عالمی طور پر طے شدہ معیارات پر پورے بھی اُتر رہے ہیں۔ حکومتِ سندھ بھرپور مدد کر رہی ہے اور اِسی لیے مَیں کہتا ہوں کہ ہمیں ہر معاملے میں حکومت پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔