ہندوستان کو 78 سال میں یہ دوسرا بڑا جھٹکا لگا ہے۔کہاں وہ سفارتکاری کے نام پر چاپلوسی اور مکاری کے تیر جنہوں نے کبھی اپنا ہدف خطا نہیں کیا اور کہاں آج کے حالات کہ اچانک ہی ہندوستان کی مضبوط معیشت، اعلیٰ سفارتکاری،عالمی مقام و مرتبہ سب دھڑن تختہ ہوا۔ امریکہ سے ایسے عاشقانہ روابط کہ وزیراعظم ہندوستان کے امریکی دورے پر "ہاؤ ڈی موڈی" کی تحریک،کانگرس سے خطاب کا اعزاز اور اراکین کا انہیں سلامی دینا، یورپ سے بہترین تجارتی تعلقات، روس کے گھوڑے پر سوار سرپٹ دوڑتے "موذی" اندرونِ اور بیرونِ ملک کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔امریکی ایماء پر صف آرا ،چین کو نیچا دکھانے کو ہمہ وقت تیار رہتے،اپنی تقاریر میں پاکستان کا ذکر تمسخرانہ انداز میں کرتے ہوئے پیشنگوئی کیاکرتے کہ پاکستان ختم ہو جائے گا۔خدانخواستہ! آج سب کچھ بدل گیا،دوست دوست نہ رہے! جھوٹے وعدوں اور جعلی یقین دہانیوں پر یہی نتیجا آنا تھا۔امریکہ سے کھچاؤ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ہر طرف سے دھتکارے جانے پر چین سے بگڑے تعلقات دوبارہ بحال کرنے کی کوششیں "تھوک کر چاٹنے "کے مترادف ہیں۔ روس کا رویہ بھی سردمہری کا ہے کہ برازیل میں "برکس "کے حالیہ اجلاس کی سائیڈ پر روسی اور ایرانی سفارتکاروں کی وزیراعظم ہندوستان سے ملاقات میں عدم دلچسپی،"برکس اور شنگھائی کوآپریشن اجلاس" کا پہلگام واقعہ پر بِنا شواہد پاکستان کی مزمت کرنے سے انکار سے ثابت ہے کہ ہندوستان کے لئے حالات موافق نہیں رہے،ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے۔
ہندوستان کو پہلا جھٹکا 16 اگست 1946 مسلم لیگ کی "راست اقدام" کال پر لیے گئے فیصلے سے لگا تھا جس کے تین روز کے دوران ہندو مسلم فسادات میں چار ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دو قومی نظریے کے حوالے سے غلط فہمی میں تھا جبکہ کچھ کی مخالفت بدنیتی پر مبنی تھی۔جب انگریز سرکار نے جمہوریت کے نام پر نو آبادیاتی نظام کا متبادل برصغیر میں رائج کرنا شروع کیا تو 1885 میں 72 ارکان سے انڈین نیشنل کانگرس بنا کر انکی بھرپور تربیت کی۔کانگرس عوامی نمائندہ جماعت نہیں بلکہ سلطنتِ برطانیہ کے قابلِ اعتماد ہندوؤں پر مشتمل تھی جبکہ عام لوگ اس میں رکنیت نہیں لے سکتے تھے۔اُدھر اپنے حقوق کے حوالے سے مایوس مسلمانوں نے 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ بنائی لیکن انگریز سرکار نے اسے بنانے میں تعاون کیا نہ ہی وہ اس سے کسی قسم کا خطرہ محسوس کرتی تھی ۔قائد اعظمؒ اور ان کے ساتھی بڑے عرصے تک آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس کے باہمی اشتراک سے برِصغیر کے عوامی حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتے تھے، اسی لیے دونوں جماعتوں کے درمیان 1916 لکھنؤ میں ایک معاہدہ بھی ہوا۔ لیکن بعد ازاں کانگرس اور ہندوؤں کے مسلمانوں سے متعصبانہ رویے کے باعث قائد اعظمؒ کو اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑا کیونکہ ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ نا گزیر ہو گیا تھا۔کانگرس کے سرکردہ نمائندوں نے جب حالات اس نہج تک بگڑتے دیکھے تو انہوں نے انگریز سرکار سے ملی بھگت کر کے قیامِ پاکستان کو بحالتِ مجبوری قبول کیاتاہم وہ اپنی ہندو قوم کو بتلاتے رہے کہ ابھی ہم جناح کو پاکستان بنانے دے رہے ہیں لیکن جلد ہی ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ وہ ہاتھ جوڑ کر واپس ہندوستان میں ضم ہونے کی درخواست کریں گے۔ برطانوی وزیراعظم ایٹ لی، لارڈ ماؤنٹ بیٹن، کانگرسی اراکین و ان کے ہمدرد اور ساتھی سب تقسیمِ ہند کو عارضی سمجھتے ہوئے طوعاً و کرہاً تیار ہو گئے۔ اسی لیے برطانیہ میں کانگرسی اراکین کی رضا و منشا سے، پہلے سے طے شدہ تقسیم کے فارمولے کے مطابق، ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو محض خانہ پُری کے لیے اتنے بڑے ہندوستان کی تقسیم کے لئے پانچ ہفتے کا وقت دیا گیا۔ ادھر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ "پاکستان کو ہم نے اس قدر مخدوش اور کٹی پھٹی حالت میں آزاد کیا کہ جیسے وہ دوبارہ اتحاد کے لیے تقسیم ہوا ہو"۔ دراصل نئے بننے والے پاکستان کے ایسے ہاتھ پاؤں باندھے گئے کہ وہ ایک سال بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ رہ سکے۔جان بوجھ کر قائد اعظم ؒکو مفلوک الحال، کٹا پھٹا پاکستان دیا گیا جس کی ناکامی سے دو قومی نظریہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتا۔ یہ بات آج بھی منصوبہ سازوں کے وارثوں سے ہضم نہیں ہو پا رہی کہ پاکستان کیسے 78 سال بعد بھی قائم دائم ہے۔ الحمدللّٰہ!
دوسرا جھٹکا ہندوستان کو پاکستان سے چوتھی جنگ میں شکست سے لگا۔ پچھلے چند سالوں سے ہندوستان نے امریکہ سے معاملات اس حد تک بہتر کر لئے تھے کہ وہ ہمارے اربابِ اختیار پر ہندوستان سے اپنے معاملات معذرت خواہانہ اور ہر حال میں مفاہمت آمیز رکھنے پر دباؤ ڈلوائے رکھتا رہا۔ اسی لیے ہماری ماضی کی حکومتوں نے قومی مفادات کے برعکس ہندوستان کو بِلا جواز و مقصد رعایتیں دیں جن سے اقوامِ عالم میں ہماری حیثیت ہندوستان کے مقابلے میں کم ہوئی۔ سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک ہونے کے باوجود ہندوستان کے فالس فلیگ آپریشنوں کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ پاکستان میں دہشت گردی پر ہماری حکومتوں نے کبھی کھل کر ٹھوس شواہد کے باوجود ہندوستان کا نام نہیں لیا۔حسبِ عادت اپریل 2025 میں ہندوستان نے ایک نئے فالس فلیگ آپریشن میں دہشت گردی کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا اور اس جواز پر 07 مئی کو پاکستان پر حملہ آور ہو گیا۔ تاہم اس دفعہ حالات نے ہندوستان کا ساتھ نہ دیا کیونکہ ماضی کے کمزور حکمرانوں کے برعکس موجودہ حکومت اور سپہ سالار، ہندوستان کے لغو الزامات اور فالس فلیگ آپریشنز کی حقیقت سے آشنا تھے جنکا مقصد ہندوستانی قوم کے سامنے اپنا قد بڑھا کر محض انتخابی فتح کےجھنڈے گاڑنا تھا۔ لٰہذا افواج ِپاکستان اور پاک ایئر فورس نے اپنی اعلیٰ اور زبردست جنگی حکمتِ عملی سے ہندوستان کو صرف چار روزہ جنگ میں شکستِ فاش دی۔ یہی وہ وقت تھا جب سے ہندوستان کی جھوٹی ساکھ،جعلی ترقی اور نام نہاد شان و شوکت و عزت کے زوال کا آغاز ہوا ۔ ببانگِ دہل یہ بھی ثابت ہوا کہ ہندوستان کی معاشی ترقی،اسکے "چمکدار انڈیا" کے دعوے،اسکے مخصوص لوگوں کے مفادات پر مبنی قومی فیصلے،کرپشن،اس کی غربت کی لکیر سے 80 کروڑ آبادی کی چشم پوشی جیسے سب معاملات کا پردہ فاش ہوگیا۔وہ جعلی طریقوں سے اسٹاک مارکیٹیں چڑھا کر معاشی ترقی کے نعرے پانی کے بلبلے تھے۔ حکومتوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ جب تک عوامی مفاد وفلاح کو ہرسطح پر مقدم نہیں رکھا جاتا، معاشی ترقی مضبوط بنیاد کے بِنا دیرپا نہیں ہو سکتی۔درحقیقت "موذی" کی کائیں کائیں ملکی ترقی و معیشت کے برتے نہیں بلکہ اس درخت کی اونچائی کے باعث تھیں جس پر وہ بیٹھا تھا۔ہمارے حکمرانوںکیلئے’’موذی‘‘اور ہندوستان کے حالات سے حاصل کرنے والا یہ اہم سبق ہے کہ معاشی ترقی ہو یا عوام کا اعتماد اور بھروسہ، وہ اس وقت تک عارضی اور ناپائیدار ہوگا جب تک مخصوص طبقہ نہیں بلکہ پوری قوم قومی فیصلوں اورمعاشی ترقی میں شامل نہ ہو۔
؎تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن
پیرانِ کلیسا کی دُعا یہ ہے کہ ٹل جائے