• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرن نعمان

مغرب میں ڈوبتے سورج کے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکنیں بھی ڈوب رہی تھیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سے مسائل کا سامنا رہا تھا مجھے، لیکن اِس طرح بھی جینا دوبھر ہوگا یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ وسیم کے نماز پڑھ کر آنے تک میں بھی دُعا مانگ کر فارغ ہوچُکی تھی۔

آج مجھے اُن سے دو ٹوک بات کرنی تھی۔ وہ فون پر کسی سے الجھ رہے تھے۔ کان سے فون ہٹایا تو مَیں نے کہا۔ ’’وسیم! میری بات سُنیں۔‘‘ اُسی لمحے پھر فون بج اُٹھا۔ اُن کا دبا دبا سا لہجہ مجھے یہ باور کروا گیا کہ دوسری طرف اُن کے اور میرے جیٹھ معیز بھائی کے مشترکہ ساجھے دار قریشی صاحب ہیں۔

حال ہی میں اُنھوں نے کاروبار میں خاصی بڑی سرمایہ کاری کی تھی اور جب کوئی آپ کے کاروبار میں سرمایہ لگاتا ہے، تو پھر اپنی منوانے کا حق بھی اُسی کا ہوتا ہے۔ لائن کے کٹتے ہی مَیں نے پھر اُن سے کہا۔ ’’وسیم! میری بھی بات سُن لیں۔‘‘ وہ جھلا سے گئے۔ ’’پہلے قریشی صاحب سُنا رہے تھے، اب تم سُنا لو…اچھا بولو، کیا مسئلہ ہے؟‘‘ اُنھیں شاید میری مسکینیت ٹپکاتی صورت پر ترس آگیا تھا۔ ’’وسیم! ایسا کب تک چلے گا، پورے گھر نےعائشہ کا جینا حرام کر دیا ہے۔ 

میری ہنستی بولتی بچّی کے ہونٹوں کو چُپ لگ گئی ہے۔ جس عمل کے لیے وہ لائقِ تحسین تھی، اُس پر سب نے اُس کا مذاق بنا ڈالا۔ آخر آپ کسی سے کچھ کہتے کیوں نہیں…!!‘‘وہ چند لمحے خاموشی سے میرا چہرہ تکتے رہے، پھر ٹھنڈی سانس بھر کر بولے۔ ’’دیکھو صاعقہ! دین کے رستے پر جہاد کرنے والوں کو بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ 

اپنی بیٹی کے اس عمل پر مَیں تو اُس کے خلاف نہیں ہوں ناں۔ میری خاموشی ہی اُس کی سپورٹ ہے، لیکن مَیں اپنے خاندان سے الجھ پڑوں، یہ کوئی دانش مندی نہیں، گھر کی فضا مکدّر ہوجائے گی اور ہمارا دین بھی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ چند دن کی بات ہے، آہستہ آہستہ سب لوگ اُس کے اِس فیصلے کو قبول کر لیں گے بلکہ قدر کریں گے، مجھے پورا یقین ہے اس بات کا۔‘‘

وہ تو یہ باتیں کر کے چلے گئے، پیچھے مَیں سوچتی رہی کہ نہ جانے یہ چند دنوں کا بَن باس کیسے کٹے گا۔ عائشہ، میری چودہ سالہ بیٹی ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں پلتے بڑھتے نہ جانے اُس کے مَن میں کیا سمائی کہ حجاب پہننا شروع کردیا۔ یقیناً اگر وہ جانتی ہوتی کہ جدیدیت اور آگے سے آگے بڑھتے جانے کا رجحان رکھنے والے خاندان میں ایسی باتیں دقیانوسی خیال کی جاتی ہیں، تو وہ خُود کو حجاب سے ڈھکنے سے پہلے سو بار ضرور سوچتی، مگر نوجوانی کا ہرعمل ہی شاید شدّت پسندانہ ہوتا ہے۔

انسان گناہ کی طرف بڑھے یا پھر نیکی کی طرف، جوش وجذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ اِسی لیے گھر والوں کے زہریلے رویّوں کے باوجود اُس کے قدم ایک دن بھی نہ ڈگمگائے۔ اُس کے حجاب لینے پر بمشکل دوپٹے اوڑھنے والی گھر کی خواتین نے تو بُرے منہ بنا کر حیرت کا اظہار کیا ہی، لیکن سب سے زیادہ شور میرے جیٹھ معیز بھائی نے مچایا۔ ’’یہ کیا حجاب پہن کرنئی رِیت ڈالنے چلی ہے، کیا یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ بس یہی پارسا ہے، گھر کی باقی بچیاں بےحیا ہیں۔‘‘ اور پھر جس دن عائشہ نے حجاب کے ساتھ نقاب بھی لگالیا تو گھر میں وہ طوفانِ بدتمیزی اُٹھا کہ اللہ کی پناہ۔ گھر بھر نے اُسے ’’بی بی نقاب پوش‘‘ کا لقب دے ڈالا، جب کہ سنگی ساتھی بھی ’’حجابی حسینہ‘‘ کہہ کہہ کر چھیڑنے لگیں، پھوپھیوں نے تو باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی۔ ’’یہ کیا ڈھاٹا باندھنا شروع کردیا ہے، اُتارو اِسے۔ 

بھلا ہمارے خاندان میں کبھی کسی نے منہ چُھپایا ہے، جو تم اتنی سی عُمر میں مُلانی بننے چلی ہو۔‘‘ معیز بھائی نے تو کُھل کر کہہ دیا۔ ’’دیکھ لینا وسیم! اب کوئی اچھا خاندان اِس کا رشتہ نہیں لائے گا۔‘‘ یہ سب باتیں سُن کر مَیں اندر ہی اندرکھولتی رہتی تھی۔ میری بیٹی نیکی کے رستے پر آگے بڑھ رہی تھی، خدا نہ خواستہ کسی بُرے فعل میں تو مبتلا نہیں ہوئی تھی، تو پھر کیوں اُسے اچھائی کو اپنانے کی آزادی نہیں دی جارہی تھی؟

اُسے سراہنے کی بجائے اُس کامذاق کیوں بنایا جارہا تھا؟ مگر نہ جانے عائشہ کس مٹّی کی بن گئی تھی۔ اُس پر کسی کی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا، حالاں کہ چودہ سال کی عُمر ہوتی ہی کیا ہے۔ اِس کم عُمری میں وہ ایک بڑے کرب ناک تجربے سے گزررہی تھی۔ مَیں اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ مسلسل ایک درد سہہ رہی ہے اور وہ درد کیسا تھا، یہ مَیں نے اُس دن جانا، جس دن مَیں نے وہ درد خُود اپنی جان پر سہا۔

رمضان کا پہلا عشرہ تھا، جب مَیں نے ٹی وی پر ایک عالم کے منہ سے سُنا۔ ’’خاتونِ جنّتؓ، جنّت کے دروازے پر اُس عورت سے بانہیں کھول کر ملیں گی، جو دنیا میں باحیا، باکردار اور باپردہ زندگی گزار کر آئے گی۔ بس، یکایک ہی دل میں یہ امنگ جاگی کہ کاش! مَیں بھی ان عورتوں میں شامل ہوجاؤں۔ سو، اُس روز، مَیں پہلی بارمعمول کا سودا سلف لانے کے لیے بڑی سی چادر اوڑھ کر، چہرہ نقاب سے ڈھک کے گھر سے باہر نکلی۔

عجیب بات یہ تھی کہ گھر سے تو چوروں کی طرح نکلی کہ کوئی دیکھ نہ لے، لیکن گھر سے باہر ایک بے پایاں اعتماد کے ساتھ چلتی چلی گئی۔ میرے دل کو میرے رب نے دنیا سے لڑ جانے کی ہمّت اور طاقت عطا فرما دی تھی۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ حجاب کی مخالفت کا اصل مرکز صرف میرا خاندان تھا، جب کہ خاندان سے باہر ہر شخص کی نگاہوں میں مجھےعزت و احترام ہی دکھائی دیا۔

عید کےبعد اچانک ایک دن وسیم اورمعیز بھائی نے باہر کھانےکا پروگرام بنا لیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیسے میرے اور عائشہ کے ساتھ اپنی فیملی کو لے جارہے ہیں؟ تب وسیم نے بتایا کہ قریشی صاحب بھی اپنی فیملی کے ساتھ آرہے ہیں ڈنر پر۔ سارا رستہ معیز بھائی مجھے اور عائشہ کو دیکھ دیکھ کر بُرے منہ بناتے رہے، پھر جب ہم ریستوران میں جا بیٹھے، تب بھی چُپ نہ ہوئے۔ ’’خدا کے واسطے بھابی! نہ شرمندہ کرواؤ، پورے ہوٹل میں تم دونوں کے سوا کوئی عورت کارٹون بن کر نہیں آئی۔‘‘ اُن کی بیوی اور بچیاں منہ نیچے کرکے ہنستی رہیں۔

معیز بھائی کی باتیں سُن کر ایک لمحے کو دل چاہا، یہاں نقاب ہٹا دیتی ہوں، لیکن اگلے ہی پل عائشہ کے چہرے پر چٹان جیسی سختی دیکھ کرسوچا۔ اگر آج مَیں نے نقاب الٹ دیا، تو پھر شاید زندگی بھر کبھی واپس نہ ڈال سکوں۔ سو، ٹکڑے ہوتے دل کو سنبھالے بیٹھی رہی۔ تھوڑی دیر بعد ہی وسیم بولے۔ ’’لو، قریشی صاحب بھی آگئے۔‘‘ ساٹھ کے لگ بھگ قریشی صاحب کے پیچھے، تین سر سے لے کر پیر تک ڈھکی خواتین بھی چلی آرہی تھیں۔ 

وسیم اور معیز بھائی بہت گرم جوشی سے قریشی صاحب سے ملے، پھر معیز بھائی اُن کی خواتین کی طرف دیکھ کر بولے۔ ’’ماشاءاللہ، ماشاءاللہ… آپ کے گھرانے کی خواتین بھی پردےدار ہیں۔ دیکھیے، الحمدُللہ ہماری بھابی، بھتیجی بھی…‘‘اور ہماری طرف دیکھتے اُن کے باقی الفاظ، شاید اُن کے ہونٹوں ہی پر دَم توڑ گئے تھے۔