اپنے دورہ ٔامریکہ میں جرنل عاصم منیر نے پاکستانی قونصل جرنل کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں جو کہا اس سےحکومت کی جوہری پالیسحالیہ ی واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، اگر ہمیں لگا کہ ہم تباہ ہونے والے ہیں تو ہم آدھی دنیا کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے"۔سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھی سخت انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہم انتظار کریں گے کہ بھارت دریائےسندھ پر ڈیم بنائے اور جب وہ بنا لے گا تو ہم دس میزائلوں سے اسےتباہ کر دیں گے"۔ ان کے مطابق دریائےسندھ ہندوستانیوں کی خاندانی جاگیر نہیں جبکہ ہمارے پاس میزائلوں کی کوئی کمی نہیں۔ الحمداللہ! سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس کی منسوخی سے 25 کروڑ پاکستانی بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ امریکی "سینٹ کام" کے سربراہ جرنل مائیکل کوریلا کی الوداعی تقریب میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود تھے جنہوں نے کانگرس کی کمیٹی میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف بہترین ساتھی قرار دیا تھا۔فیلڈ مارشل کے اس بیان پر ہندوستانی حکومت تلملا اٹھی کہ جرنل عاصم منیر نے یہ دھمکی امریکی سرزمین پر اپنے دورے کے دوران کیسے دی؟ جس پر امریکہ نے کوئی مؤقف دینے سے یکسر انکار کر دیا ۔ ہندوستانی میڈیا اور حکومت اس دھمکی کو یومِ آزادی کی اصل تھیم "نیا بھارت" کے برعکس پاکستان کی جانب سے ایٹمی بلیک میلنگ بتا کر اسی پر یکسو رہےاور واضح کرتے رہے کہ وہ ایٹمی بلیک میل کے آگے نہیں جھکیں گے اور اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتے رہیں گے۔ "موذی" نے اپنے یومِ آزادی کے خطاب میں پاکستان کے ساتھ 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کو غیر منصفانہ اور یکطرفہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ہندوستانی کسانوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔حالانکہ کسانوں نے "موذی" کی کسان دشمن پالسیوں کے خلاف سوا سال احتجاج کر کے زبردستی مطلبات منوائے تھے۔ اپنی زندگی کی طویل ترین تقریر (دو گھنٹے) کے دوران "موذی" نے ہندوستان کے مستقبل کا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ دفاع، سلامتی، معاشی، سماجی اور تکنیکی میدانوں میں خود کفیل ہونے کے لیے نئی نئی سکیموں کا اعلان کیا۔ تقریر میں ہر وہ اعلان کئے جو کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں تھے۔ لڑاکا طیاروں کے لیے مقامی طور پر انجن بنانے سے لے کر جوہری توانائی کی صلاحیت میں توسیع، تیل اور گیس کے لیے گہرے سمندروں میں تلاش سے خود کفالت کے سہانےخوابوں جیسے کئی اعلانات شامل تھے جبکہ خلاء میں اپنی جھوٹی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے رہے۔ ان کی تقریر سے واضح تھا کہ وہ اپنی ڈوبتی حکومت بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ پاکستان سے چار روزہ جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد جس طریقے سے ہندوستان نے ہٹ دھرمی سے اپنے نقصانات اور طیارے گرنے کے حوالے سے جھوٹ بولا اس سے نہ صرف بیرونِ ملک ہندوستان کی سبکی ہوئی بلکہ ہندوستانی عوام میں بھی حکومت پر بد اعتمادی پیدا ہوئی۔ اس پر حزب ِمخالف جو ہندتوا کی شدت پسندی، جارحانہ رویوں اور دیگر متعصبانہ الزامات کے سامنے پچھلے گیارہ برس سے کُسک بھی نہ پائی تھی اچانک نیندسے جاگ گئی ہے۔ اسکی "موذی" حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ، الیکشن کمیشن سے مل کر دھاندلی اور جعلی ووٹر لسٹوں کے ٹھوس شواہد دینا جبکہ امریکہ سے روز بروز بگڑتے تعلقات کی ذمہ داری کے بوجھ تلے "موذی" کی خاموشی اور سفارتی محاذ پر تنہائی ہندوستانی عوام سے چھپی نہیں۔ گو تقریب کے شروع میں "موذی" کا رویہ جارحانہ،کر و فر والا تھا لیکن آہستہ آہستہ آنکھوں میں شکار ہونے والے جانور سی وحشت اور تھکن کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان کا ہندوستان سے موازنہ کرنے پر اعترازکرنے والا "موذی" بار بار اپنی تقریر میں پاکستان کی طرف اشارے کرتا رہا۔
درحقیقت پاکستان تو 1947 سے ہی ہندوستانی قیادت اور عوام کے حواس پر سوار ہے۔ 78 سال سے تقسیم کو نہ ماننے، پاکستان کو ختم کرنے اور ہندوستان میں ضم کرنےکی ناکامی نے انکی سوچنے سمجھنے اور حقیقت کا ادراک کرنے کی صلاحیت مفلوج کر دی ہے ۔ اسی لئے اپریل میں پہلگام واقعہ کا فالس فلیگ آپریشن پاکستان کے سر منڈھا گیا اور اسکی آڑ میں "آپریشن سیندور" کیا جو ہندوستان کی فاش غلطی تھی جس کا انجام ہندوستان کی شکست اور بین الاقوامی سبکی پر ہوا۔ ہندوستان شروع سے ہی "نان الائن موومنٹ" کا رکن رہا ہے اور بین بین چل کر جانبین سے بھرپور فوائد اٹھاتا رہا ہے۔ پہلی دفعہ بی جے پی کی حکومت نے 2014 سے ماضی کے واضح مؤقف سے ہٹ کر اپنے سارے انڈے امریکہ کی ٹوکری میں ڈال دیے۔ ان کا خیال تھا کہ روس اور دیگر ممالک سے فائدے لیتے ہوئے امریکہ کو اپنی مٹھی میں کرنا بہت ضروری ہے۔ اُدھرامریکہ کو خطے میں چین کے خلاف ایک متبادل طاقت کی ضرورت تھی اور ہندوستان نے امریکہ کو یقین دلایا کہ وہ یہ کام بخوبی کر سکتا ہے۔ اسی لیے اپنی معاشی ترقی کو پاکستان سے جوڑنے کے بجائے" چمکدار انڈیا"، "ابھرتا انڈیا" جیسے نعرے دے کر خود کو چین کے برابر لانے کی کوشش کی جو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ وہ چین کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے کہ آج بھی ہندوستان کے 80 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے ہیں اور ایک وقت کھانے کے لیے حکومت کے جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ چین کے برعکس ہندوستانی معیشت سے بھر پور فائدہ اٹھانے والے چند مخصوص منظورِ نظر لوگ ہیں جبکہ ہندوستانی عوام معاشی ترقی کی اس دوڑ میں انگشت بدانداں ایک جانب کھڑی دیکھ رہی ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کے باعث ہندوستان کبھی بھی چین کے برابر نہیں آ سکتا۔
اُدھر "موذی" اور ٹرمپ کی چپقلش بڑھتی ہی جا رہی ہے۔دنیا حیران ہے کہ دونوں کے بیچ ایسا کیا ہوا ہے کہ بات سنبھالے نہیں سنبھلتی ۔ٹرمپ حسبِ عادت کھل کر وار کررہے ہیں لیکن "موذی" کی چپ سے بہت کچھ عیاں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ سے کچھ ایسے وعدے کئے تھے جن سے وہ منحرف ہو گیا کیونکہ ان پر عمل کرنے کا ارادہ ہی نہ تھا۔کیا وہ ایف-35 طیاروں کی خریداری کا وعدہ تھا یا چین کے خلاف عملی جنگ کا اعادہ ،کیا وہ ٹرمپ خاندان کے ہندوستان میں ذاتی کاروبار کی سہولیات کا وعدہ تھا یا اس سے بھی پرکشش کوئی پیشکش؟ بحرحال اب تو گیارہ سالہ امریکہ اور ہندوستان کا ہنی مون اختتام پزیر ہوا۔روسی تیل کی خریداری تو صرف بوقتِ ضرورت گھڑا ہوا جواز لگتا ہے وگرنہ یہ تیل تو امریکی آشیرباد سے پچھلے تین سال سے خریدا جا رہا ہے۔صدر ٹرمپ بہت جھوٹ بولتے ہیں اور اسے اپنی اعلیٰ حکمتِ عملی قرار دیتے ہیں لیکن جب کوئی کمزور ملک جھوٹ بولے تو اسے معاف نہیں کرتے۔اسی لئے "موذی" کے جھوٹ اور ڈرامے اس کے گلے کا طوق بن گئے ہیں۔ پاکستان کے لئے بھی اس میں سبق ہے کہ اربابِ اختیار قوم کی طرف سے ایسی کوئی یقین دہانی امریکہ کو نہ کرائیں جو قابلِ عمل نہ ہو اور اختلاف کا باعث بنے۔پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے بمشکل گرداب سے نکلا ہے کہیں دوبارہ نہ پھنس جائے۔محتاط بہت محتاط !
؎طاقتے نامش دروغِ با فروغ
از بطونِ او نزاید جُز دروغ