پاکستان تحریک انصاف (پی-ٹی-آئی) نے 9مئی کے واقعات کے بعد اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف ایک غیر منطقی بیانیہ اپنا رکھا ہے۔ اس بیانیے کی بنیاد یہ ہے کہ یہ سزائیں غیر قانونی اور غیر منصفانہ ہیں اور یہ کہ ان کا مقصد سیاسی انتقام لینا ہے تاکہ پی ٹی آئی کو کمزور کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ ان کے رہنما اور کارکن بے گناہ ہیں اور انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔حکومت،اس کی اتحادی پارٹیوں اور عمران خان کے’’نظریات‘‘ سے مطابقت نہ رکھنے والوں کو ’’جھوٹے مقدمات‘‘ کے الفاظ سے اختلاف ہے کیونکہ 9مئی کی بغاوت کوئی خفیہ یا ڈھکی چھپی نہیں تھی بلکہ اعلانیہ تھی اور فوجی عمارتوں اور حساس تنصیبات پر سرعام حملے کئے گئے اور دنیا بھرمیں یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان کی افواج کمزور ہو چکی ہے اور انہیں آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔پارٹی قیادت کا مؤقف ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوئی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن عدالتوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے حامل میاں نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کیلئے جو غیر آئینی اور غیر قانونی راستے اپنائے گئے ان عدالتوں کے جج ہی منصف اور وکیل بھی جج ہی تھے جبکہ تحریک انصاف کے بیانیہ کی نفی کرنے والی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے پی-ٹی-آئی کو آئینہ دکھاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی بنیاد جھوٹے بیانیوں پر قائم ہے جبکہ ان کے اپنے دور حکومت میں عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کوجس انداز میں انتقام کا نشانہ بنایا اس کی مثال جمہوریت پر یقین رکھنے والی دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے اس مؤقف کہ ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کو غلط سزائیں دی گئیں، مضحکہ خیز اور غیر منطقی قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 9مئی کی بغاوت عمران خان کی نگرانی میں طے شدہ منصوبے کی بنیاد پر فوج کے اندر تفریق پیدا کرنے کی ناکام سازش کے بعد آغاز ریاست کے خلاف بغاوت کے طور پر کیا گیا۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا رہی ہے اس منصوبے کی تیاری میں فیض حمید اور عمران خان کے علاوہ بھارتی ایجنسی را بھی شامل تھے جس میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے اہداف طے کئے گئے تھے۔ ریاست کے خلاف اعلانیہ بغاوت کرنے والی پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے ان سزاؤں کو ’’سیاسی دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے لیکن یہ ظاہر نہیں کیا ریاست کے خلاف یہ دہشت گردی پی-ٹی-آئی نے ہی پاکستان دشمنوں کی خواہش پر کی تھی۔اس میں دو رائے نہیں کہ عمران خان کے نزدیک انصاف وہی ہے جو ان کے ’’ہمخیال‘‘ ججوں کے ذریعے ہو۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور تحریک انصاف کے’’رہنما‘‘ ثاقب نثار سے’’صادق و امین‘‘ کی سند حاصل کرنے والے عمران خان کسی ایسے عدالتی فیصلے کو قبول نہیں کرتے جو ثاقب نثار سے کم ’’اہلیت‘‘کا حامل ہو۔لیکن دور ایک سا نہیں رہتا، آئین پاکستان ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لئے سزائیں متعین ہیں۔عدالتی نظام میں، کسی بھی فیصلے کو اس وقت تک درست مانا جاتا ہے جب تک کہ اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر کے کالعدم قرار نہ دیا جائے۔ 9مئی کے واقعات میں متعدد انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے شہادتوں اور شواہد کی بنیاد پر سزائیں سنائی ہیں۔ 9مئی کے واقعات کی ویڈیوز اور تصاویر عوامی اور سرکاری سطح پر موجود ہیں۔ ان میں مظاہرین کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرتے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے اور توڑ پھوڑ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ فوجی قیادت اور حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ حملے ایک ’’سوچے سمجھے منصوبے‘‘ کا حصہ تھے اور ان میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔پی ٹی آئی کا بیانیہ کہ ان کے رہنما اور کارکن بے گناہ ہیں اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سیاسی انتقام ان کی اپنی پرتشدد جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ تاہم، اس بیانیے کو زمینی حقائق، قانونی کارروائیوں اور فوجی و حکومتی مؤقف کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملے ایک سنگین نوعیت کے واقعات تھے، اور ان میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس یہ قانونی حق ہے کہ وہ ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرے اور ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت پیش کرے۔ فی الحال، عدالتی فیصلے موجود ہیں اور جب تک وہ کالعدم قرار نہیں دیے جاتے، ان کا قانونی جواز برقرار ہے۔