دنیا کی 17نادر معدنیات Rare Earth Elements میں سے 12نایاب معدنیات کی بلوچستان اور گلگت بلتستان میں موجودگی کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ ریئر ارتھ منرلز (REEs) وہ نادر معدنیات ہیں جو دنیا میں بہت کم پائی جاتی ہیں لیکن سائنسی اور صنعتی اہمیت کے باعث انکی جدید ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں بہت طلب ہے۔ مختلف جیالوجیکل سروے کے مطابق پاکستان میں بلوچستان میں چاغی اور گلگت بلتستان میں ان معدنیات کے قیمتی ذخائر چھپے ہیں مگر انہیں کمرشل بنیادوں پر نکالنے کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے کیونکہ پاکستان کے پاس جدید ریفائننگ اور پروسیسنگ کا انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ ان معدنیات میں گرینائٹ اور مونا زائٹ ریت میں پائی جاتی ہیں جن کا حصول اور ریفائننگ کا عمل نہایت مشکل ہوتا ہے۔ یہ معدنیات دنیا میں الیکٹرونکس، بیٹریز، سیمی کنڈیکٹرز (چپس)، الیکٹرک گاڑیوں، موبائل فونز، LEDs اسکرینز، لیزر ٹیکنالوجی، سولرپینل، دفاعی ٹیکنالوجی اور ایرو اسپیس کی جدید ٹیکنالوجی اور صنعتوںکیلئے بہت اہم ہیں ۔ان معدنیات کو دفاع کے شعبے میں ڈرونز، میزائل اور ریڈار میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ان معدنیات کا تخمینہ 4000 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قدرتی معدنیات سے مالا مال کیا ہے۔ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ریکوڈک اور سینڈک میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ریکوڈک میں 14 ملین ٹن تانبا اور 557 ٹن سونا پایا جاتا ہے جسے کمرشل بنیادوں پر نکالنے کیلئے حکومت پاکستان نے دنیا کی سب سے بڑی کینیڈین مائننگ کمپنی بیرک گولڈ سے معاہدہ کیا ہے۔ بیرک گولڈ کے پاکستان کے علاوہ امریکہ، سعودی عرب، کینیڈا، ارجنٹائن اور چلی میں بھی مائننگ پروجیکٹس میں جوائنٹ وینچرز ہیں جبکہ سینڈک میں 3لاکھ 41ہزار ٹن تانبے اور 206 ٹن سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا ہے جسے نکالنے کیلئے حکومت پاکستان نے چین کی سرکاری مائننگ کمپنی MCC کیساتھ معاہدے کیا ہوا ہے جسکی کئی بار تجدید کی جاچکی ہے۔ اسکے علاوہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سندھ میں تھر کے مقام پر 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر سے نوازا ہے جن کی مجموعی مالیت سعودی عرب اور ایران کے تیل کے ذخائر سے زیادہ ہے لیکن ہم اس کالے سونے کو زمین کے سینے سے نکال کر ملکی معیشت کی بہتری کیلئے استعمال نہیں کرسکے بلکہ انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے اب بھی بجلی پیدا کرنے کے کئی بڑے آئی پی پیز منصوبے درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔ آئی پی پیز معاہدوں کی نظرثانی میں انہیں وقت دیا گیا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کو مقامی کوئلے پر منتقل کریں۔ پاکستان میں زمرد، یاقوت، پکھراج کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں جن کو پروسیسنگ کرکے خطیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے جس میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کو اتنے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر سے اب تک وہ فائدہ نہیں پہنچا جو دنیا کے دوسرے ممالک نے اپنی معدنیات سے حاصل کیا ہے جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ میری SIFC کو تجویز ہے کہ فوری طور پر ایک نیشنل ریئر ارتھ پروگرام کا آغاز کرے جسکے تحت ملک میں پائی جانے والی نادر معدنیات کی کھوج، پروسیسنگ، ریفائننگ اور ایکسپورٹ سے پاکستان اربوں ڈالر کماسکتا ہے۔ اسکے علاوہ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں کان کنی سے ہزاروں افراد کیلئے روزگارکے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔اگست 2023 میں SIFC نے اسلام آباد میں پاکستان منرلز سمٹ ’’ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ‘‘منعقد کی تھی جس میں پاکستان میں معدنی وسائل کی ترقی اور کان کنی کی صنعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی 3یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ خصوصی سرمایہ کاری کونسل (SIFC) کو پاکستان میں موجود نادر معدنیات کی جدید کان کنی، ریفائننگ اور پروسیسنگ پلانٹس لگانے کیلئے سعودی عرب ،امریکہ اور دیگر ممالک سے جوائنٹ وینچرز کا ٹاسک دیا جائے۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور انکی ٹیم نے واشنگٹن میں پاکستان کے وزیر تجارت جام کمال اور انکے وفد سے ملاقات میں بلوچستان میں نادر معدنیات، تیل اور گیس کی تلاش کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، شراکت داری اور لیز گرانٹ کی مراعات کی پیشکش کی۔ دنیا میں نایاب معدنیات کا سب سے بڑا سپلائر چین ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین کا متبادل سپلائر ڈھونڈ رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان میں معدنیات کی مائننگ اور ریفائننگ کے شعبے میں امریکی کمپنیوں سے جوائنٹ وینچر کی تجویز دی ہے ۔ دنیا میں ریئر منرلز (REEs) کے سب سے بڑے ذخائر چین میں پائے جاتے ہیں جو عالمی طلب کا 60 سے 70 فیصد ہیں۔ دیگر ممالک میں آسٹریلیا، امریکہ، بھارت، برازیل اور ویت نام شامل ہیں۔ امریکہ نے 2024 میں چین سے اپنی ضرورت کا 77 فیصد 10 ملین کلوگرام REEs امپورٹ کیا جبکہ یورپی یونین نے 13000 ٹن (46فیصد)، جاپان نے 6000 ٹن (67 فیصد) اور جنوبی کوریا نے 777ٹن REEs امپورٹ کیا۔ اس ڈیٹا سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور کوریا کی جدید صنعتیں اور ٹیکنالوجی کا بھاری انحصار چین سے درآمدی نایاب خام مال، معدنیات پر ہے۔ ان ممالک کی کوشش ہے کہ وہ چین کے علاوہ دیگر ممالک سے ریئر منرلز کو امپورٹ کرسکیں تاکہ انکی جدید صنعتوں اور ٹیکنالوجی کے خام مال کا کسی ایک ملک پر انحصار نہ ہوسکے۔ پاکستان گلوبل سپلائی چین میں ایک نئے سپلائر کی جگہ لے سکتا ہے۔