ہر دوسرے سال پاکستان کو بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا رہتا ہے۔ بلکہ اب تو ان بارشوں اور تباہ کاریوں کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جو کچھ خیبر پختون خوا، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس سال دیکھا اور اب بھی دیکھا جا رہا ہے یہ تو پہلے نہ کبھی سنا نہ دیکھا۔ ایک طرف بابو سر ٹاپ پر حالیہ سیلابی ریلوں کی وجہ سے تباہی مچی، جس میں بابو سر ٹاپ اور چلاس کے درمیان سڑکیں، پل اور زیر زمین انفراسٹرکچر متاثر ہے، دیہات بھی سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر تباہ ہوئے اور کئی سیاح گاڑیوں سمیت بہہ گئے، دوسری طرف خیبر پختون خوا میںبونیر میں دیہات کے دیہات بہہ گئے اور پانی کے ریلوں کے ساتھ بہت بڑے بڑے پتھر اس طرح رستےمیں سب کچھ روندتے جا رہے تھےکہ کسی آنکھ نے پہلے یہاں ایسا کبھی نہ دیکھا۔ کشمیر اور سوات میں بھی پانی بپھرا رہا اور تباہیاں ہو رہی ہیں جبکہ پنجاب کی سوکھے دریا بھارت کی جانب سے پانی کھولے جانے پر اتنے بپھر گئے کہ کنٹرول سے ہی باہر ہو گئے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے سے پنجاب کے تین بڑے دریاؤں راوی، چناب اور ستلج میں سیلاب سے صورتحال سنگین ہوگئی جس کے سبب لاہور، سیالکوٹ، وزیرآباد سمیت دوسرے شہروں کے علاوہ ہزاروں دیہات زیرآب آنے سے سینکڑوں مویشی ہلاک اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جبکہ مختلف حادثات میں 33 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اب تک ان بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں ہونے والی اموا ت سینکڑوں میںہیں، صرف بونیر میں 350 سے افراد جاں بحق ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں ابھی سیلاب کی صورتحال جاری ہے جبکہ اب یہ سارا پانی سندھ میں داخل ہو گا اور پھر خطرہ ہے وہاں تباہی مچائے گا۔ کراچی پہلے ہی بارشوں کی وجہ سے متاثر ہے، اب خطرہ ہے کہ سندھ میں داخل ہونے والا سیلابی ریلا کوئی 15-20لاکھ افراد، ہزاروں گاؤں، مال مویشیوں اور بڑے علاقے کی فصلوں کو متاثر کرے گا۔ بارشوں اور سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر ایک طرف خوف طاری ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں تنبیہ کی جا رہی ہو کہ اپنے آپ کو سیدھا کر لو، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ اور ہر طرح کی معاشرتی برائیوں سے توبہ کر لو۔ دوسری طرف یہ سب مانتے ہیں کہ نہ تو ہم ڈیم بناتے ہیں، نہ کینال بننے دیتے ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کو ہمارے پاس ساٹھ سال پہلے کے ڈیموں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کسی نئے ڈیم، کسی نئی کینال کے بنانے کا نام لیں تو اُس پر سیاست شروع ہو جاتی ہیں، صوبائیت کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں۔ ڈیم کی کمی اور نئی کینالز نہ بنانے کے باعث سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کو جگہ نہیں جسکی وجہ سے کبھی ہمیں پانی کی کمی اور کبھی سیلابوں کا سامنا ہی رہتا ہے۔ پہلے کالا باغ ڈیم کو سیاست کی نذر کیا گیا پھر حال ہی میں اضافی بارشی پانی اور سیلابی پانی کے بہتر استعمال کیلئے چاروں صوبوں میں چھ کینال بنانے کے منصوبے کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ تاثر دیا گیا جیسے یہ چھ کینال پنجاب میں اور پنجاب ہی کیلئےبن رہی ہیں جبکہ منصوبہ کے تحت دو دو کینال پنجاب اور سندھ اور ایک ایک کینال خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بننی تھی تاکہ اضافی پانی سے پاکستان بھر میں لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا جا سکے۔ اب ہماری ضد اور سیاست کی وجہ سے نہ نئے ڈیم بن رہے ہیں نہ نئی کینالز جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کہا جا رہا ہے کہ ہمیں سیلاب اور بارشوں کے اب زیادہ خطرات کا سامنا ہو گا۔ بحیثیت قوم ایک تو ہمیں اجتماعی توبہ کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور دوسرا پانی پر سیاست سے باز رہیں ورنہ کبھی ہم پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے تو کبھی ہم سب کو زیادہ بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں کا سامنا رہے گا۔