ٹرمپ کی تجارتی جنگ اور امریکی اضافی ٹیرف پر میں کئی کالمز لکھ چکا ہوں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے نہایت سخت فیصلے کئے جس نے پوری دنیا کی تجارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ بھارت اور چین سمیت دیگر BRICS ممالک ،جو جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبوں میں تیزی سے ترقی اور خطے میں امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے لگے تھے، پر امریکہ نے بالترتیب 50 اور 34 سے 54 فیصد ٹیرف عائد کردیا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان کے دیگر مقابلاتی حریفوں کمبوڈیا پر 49 فیصد، ویت نام پر 46 فیصد اور بنگلہ دیش پر 37 فیصد امریکی اضافی ٹیرف عائد ہونے سے ان ممالک سے امریکہ ایکسپورٹ غیر مقابلاتی ہوجائیگی۔ پاکستان پر مجموعی 19فیصد ٹیرف لگانے سے پاکستان کیلئے یہ نادر موقع ہے کہ وہ ان ممالک کے مارکیٹ شیئر حاصل کرکے اپنی امریکہ ایکسپورٹ میں اضافہ کرے۔ بھارت، امریکہ کو فارماسیوٹیکل مصنوعات کا خام مال، ٹیکسٹائل مصنوعات، قیمتی پتھر، زیورات، چاول، مسالہ جات، چائے کی پتی اور پیٹرو کیمیکلز مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے جن کا مجموعی حجم 87ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت، امریکہ سے 42ارب ڈالر کی اشیاء امپورٹ کرتا ہے۔ اس طرح 45ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس بھارت کے حق میں ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دورہ امریکہ کے دوران بھارت اور امریکہ کے مابین دوطرفہ تجارتی حجم 500 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا تھا۔
امریکہ پاکستان کیلئے ایکسپورٹ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جو ہماری مجموعی ایکسپورٹ کا 20 فیصد ہے۔ مالی سال 2024-25 ءمیں پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ 32ارب ڈالر رہی جس میں ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ 17ارب ڈالر شامل ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تجارت 7.3 ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان سے امریکہ ایکسپورٹ 5.5ارب ڈالر اور امریکہ سے امپورٹ 2.15 ارب ڈالر ہے۔ اس طرح 3ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس پاکستان کے حق میں ہے جو امریکہ چاہتا ہے کہ کم ہو جس کیلئے پاکستان کی مذاکراتی ٹیم نے اضافی 2 ارب ڈالر کا کاٹن، سویا بین، مشینری، اسٹیل اسکریپ اور زرعی مصنوعات کی امپورٹ تجویز کی ہے لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ ان اشیاء پر ٹیرف کم کرنے کے علاوہ پاکستان نان ٹیرف بیریئرز بھی ختم کرے جو اِن مصنوعات کی پاکستان ایکسپورٹ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ گندم، پھل اور سویا بین کی امریکہ سے پاکستان ایکسپورٹ کیلئے سائٹو سینٹری (Phytosanitary) سرٹیفکیٹ، گوشت، ڈیری پروڈکٹس اور سیڈز کی ایکسپورٹ کیلئے ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن (DPP) سے امپورٹ لائسنس پرمٹ، پولٹری، پروسیس فوڈ اور گوشت کیلئے حلال سرٹیفکیشن، اردو اور انگریزی میں پیکیجنگ اور PSQCA سرٹیفکیٹ وہ نان ٹیرف بیریئرز ہیں جن پر عملدرآمد کیلئے امریکی ایکسپورٹرز کو بہت مشکلات اور وقت درکار ہوتا ہے جس سے شپمنٹ میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس وقت امریکہ سے پاکستان زرعی مصنوعات مثلاً پھل، خوردنی تیل، گیہوں، مکئی، بارلے، ملک پائوڈر اور ڈیری مصنوعا ت کی پاکستان ایکسپورٹ 500 ملین ڈالر ہے لیکن اگر پاکستان ان شرائط (نان ٹیرف بیریئرز) کو نرم کردے تو 1.3 سے 2 ارب ڈالر سالانہ اضافی مصنوعات امریکہ سے پاکستان ایکسپورٹ کی جاسکتی ہیں جس سے پاکستان اور امریکہ کے مابین تجارتی خسارہ کم ہوکر 3 ارب ڈالر سے ایک ارب ڈالر رہ جائے گا جو امریکہ کیلئے قابل قبول ہے جس کے بدلے ہم حریف ممالک کے مارکیٹ شیئرز حاصل کرکے اضافی ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔
امریکہ نے 2024 میں دنیا سے 113 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات امپورٹ کیں جس میں پاکستان کا حصہ 3.5 فیصد، بنگلہ دیش 6 فیصد، بھارت 9 فیصد، ویت نام 14 فیصد اور چین 25 فیصد شامل ہیں۔ بھارت، چین اور دیگر مقابلاتی حریفوں پر پاکستان سے زیادہ ٹیرف عائد کرنے کے بعد اگر پاکستان ان ممالک کے مارکیٹ شیئر میں سے ایک فیصد حاصل کرلیتا ہے تو اس سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں 1.1 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا لیکن اگر پاکستان آنے والے وقت میں ان ممالک کے مارکیٹ شیئر میں سے 10 فیصد شیئر حاصل کرتا ہے تو اس سے پاکستان کی امریکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 11 ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوگا کیونکہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات امریکی مارکیٹ میں دیگر حریف ممالک کی ٹیکسٹائل مصنوعات کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد سستی دستیاب ہوں گی۔ ٹیکسٹائل کے علاو ہ ہم سرجیکل گڈز، آئی ٹی اور چاول وغیرہ ایکسپورٹ کرسکتے ہیں ۔ امریکی اضافی ٹیرف کا اطلاق صدارتی آرڈر کے اجرا کے 21 دن بعد یعنی 27 اگست 2025 سے ہوگیا ہے۔ اگر بھارت پر 50 فیصد اور دیگر ممالک پر اضافی امریکی ٹیرف برقرار رہتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ پاکستانی ایکسپورٹرز کیلئے یہ نادر موقع ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرکے امریکی خریداروں سے مقابلاتی نرخوں پر ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے آرڈرز حاصل کریں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کیلئے بجلی، گیس، بینکوں کے مارک اپ کی شرح اور اضافی ٹیکسوں میں کمی کرے تاکہ پاکستان، امریکہ کی تجارتی جنگ سے پیدا ہونیوالے مواقعوں سے فائدہ اٹھاسکے۔