رحمتِ دو عالم، فخرِ موجودات، سیّدِ ابرار، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کا تذکرہ ہو یا آپﷺ کے اوصاف و خصائل، عبادات و معاملات کا بیان، حتیٰ کہ وہ اشیاء، جن کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپ ﷺ کی ذاتِ والا سے ہو، اُن کا ذکر بھی باعثِ برکت و مؤجبِ سعادت ہے۔
وہ ذاتِ اقدس کہ جس کے نقوشِ قدم پرچلنا ہدایت اور جس کا نام لینا بھی عبادت ہے، اُس ہستی کا ظہورِ مبارک اس عالمِ خاکی پر ایک ایسی روشنی کی آمد کے مترادف تھا کہ جس نے جہالت کی صدیوں پر محیط تاریکی کو چیر کر انسانیت کوعلم، حکمت، انصاف اور امن کا راستہ دکھایا۔ ماہِ ربیع الاوّل کی وہ مقدّس ساعتیں کہ جب صحرائے عرب کی خُشک و بنجر فضاؤں میں بہارِ رسالتؐ کا پہلا جھونکا آیا اور تاریخِ انسانیت کے اس تاریخی لمحے نے وقت کی سمت ہی بدل دی۔
ولادتِ نبوی ﷺ کی ساعتِ سعید کوئی اچانک رُونما ہونے والا واقعہ نہ تھا، بلکہ قدرتِ الٰہی نے اِس مقصد کے لیے زمانے کو ایک خاص ترتیب اور تمہید کے ساتھ تشکیل دیا تھا۔ رسولِ دو عالم ﷺ کی دُنیا میں آمد سے قبل دو نہایت اہم اور معجزہ نُما واقعات رُونما ہوئے، جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے۔
پہلا واقعہ حضرت عبدالمطلب کا آبِ زم زم کی کنویں کی دوبارہ کُھدائی کا خواب دیکھنا اور اُس کی تعبیر ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے جب خواب میں یہ اشارہ پایا کہ وہ ایک بُھولی بسری نعمتِ خداوندی کو زمین سے نکالنے والے ہیں، تو بلا تاخیر آبِ زم زم کے کنویں کی جگہ کُھدائی شروع کردی اور پھرجیسے جیسے مٹی ہٹتی گئی، تاریخ کی تہوں میں دبی نشانیوں کا ظہور ہونے لگا۔
کنویں کی کُھدائی کے دوران، بنو جُرہم کے زمانے سے دفن خزینے، تلواریں، زرہیں اور سونے کے ہرن نمودار ہوئے۔ حضرت عبدالمطلب نے ان نعمتوں کو بیت اللہ کی خدمت میں وقف کردیا۔ سونے کے ہرن کعبے کے دروازے کی زینت بنے اورتلواروں کی مدد سے وہی دروازہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ درحقیقت اس بات کا اعلان تھا کہ اب بیت اللہ کوایک نیا امامِ اعظم ملنے والا ہے، جو صرف اس گھر ہی کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا ہادیٔ اعظم ہوگا۔
اسی اثنا، دوسراعظیم الشّان واقعہ پیش آیا، جسے قرآنِ مجید نے سورۃ الفیل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ فرما دیا۔ یمن کا حبشی گورنر، ابرہہ جب خانۂ کعبہ کی حُرمت کو چیلنج کرتا ہوا اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوا، تو اس کے غرور کو ربِّ کعبہ نے خُود ہی خاک میں ملا دیا۔ ساٹھ ہزار کا لشکرِ جرار، طاقت وَر ہاتھی اور اہلِ عرب کو مرعوب کرنے والا غرور، سب خاک میں مل گئے۔
آسمان سے آنے والے ابابیل، جن کے پنجوں میں چَنے جتنے کنکر تھے، ابرہہ کے لشکر پر موت کی مہر ثبت کرتے گئے۔ ہر کنکری اللہ کے دُشمن کے بدن میں چھید کر کے نکلتی اور وہ لمحوں میں کٹے ہوئے بُھوسے کی مانند زمین پر گرجاتا۔ ربِّ کعبہ نے اپنا گھر خُود بچایا اور پیغام دیا کہ عن قریب اس گھر میں ایک ایسا مہمان آنے والا ہے کہ جس کے ایک اشارے پر زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اس کے سامنے جُھک جائیں گی۔
یہ محض تاریخی واقعات نہ تھے، بلکہ قدرت کی جانب سے اس اَمر کا اشارہ تھے کہ دُنیا کی سمت بدلنے والی ہے اور نبیٔ آخر الزماں ﷺ کی آمد قریب ہے۔ اور پھر جب آپ ﷺ نے اس دُنیا میں آنکھ کھولی، تو کائنات نے اپنی خوشی کے آثار یوں ظاہر کیے کہ کِسریٰ کے محل لرز اُٹھے، چودہ کنگرے گر گئے اور وہ آگ، جو ایک ہزار برس سے فارس کے آتش کدے میں دہک رہی تھی، بُجھ گئی۔
جھیل ساوہ، جو مدّتوں سے اہلِ فارس کے لیے روحانیت کا ایک مظہر سمجھی جاتی تھی، خُشک ہوگئی۔ گویا کائنات میں موجود تمام مخلوقات نے نبیِ رحمت ﷺ کے استقبال کے لیے فرسودہ نظاموں کو توڑتے ہوئے ایک نئی روشنی کے ظہور کا خیرمقدم کیا۔
بعض روایات میں یہ واقعہ بھی منقول ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کا وقت آیا، تو مکّہ مکّرمہ میں موجود ایک یہودی عالم نے قریش کے کچھ افراد سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اے گروہِ قریش! آج رات اُس اُمّت کا نبی پیدا ہوچُکا ہے، جس کے دونوں شانوں کے درمیان نبوّت کی ایک مُہر ہے اور اس مُہر پر گھوڑے کے ایال کی طرح بالوں کی ایک قطار ہے۔ (خلاصۃ السیر)
اسی سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک روایت منقول ہے، جسے امام ابن جوزیؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ترجمہ: ’’قریظہ، نضیر، فدک اور خیبر کے یہودی نبی کریم ﷺ کے اوصاف اور علامات کو اپنی تورات کے ذریعے آپ ﷺ کی بعثت سے قبل ہی پہچانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ ﷺ کی ہجرت گاہ مدینہ منوّرہ ہوگی۔
جب رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی، تو یہودی علماء نے کہا۔ ’’آج رات احمد ﷺ پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘ پھر جب آپ ﷺ کو منصبِ نبوّت عطا ہوا، تو وہ کہنے لگے۔ ’’احمد نبی بنا دیے گئے ہیں۔‘‘ وہ اس حقیقت کو بخوبی جانتے تھے، اس کا اقراربھی کرتے تھے اور آپ ﷺ کے اوصاف لوگوں کے سامنے بیان بھی کرتے تھے۔ لیکن ان کے حسد اور سرکشی نے اُنہیں آپ ﷺ کی اتباع سے روک دیا۔‘‘ (خلاصۃ السیر، صفحہ 89) اور پھر جب حضرت آمنہؓ نے ولادت کی بشارت حضرت عبدالمطلب کو دی، تو وہ بیت اللہ کی جانب دوڑتے ہوئے گئے، اپنے رب کا شُکر ادا کیا اور عشق و عقیدت سے لب ریز دِل کے ساتھ پوتے کا نام ’’محمّد‘‘ ﷺ رکھا۔ ایسا نام، جو اس سے پہلے عرب میں عام نہ تھا۔
یہ نام جیسے آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا عنوان بنا، ویسے ہی آپﷺ کی بعثت پوری انسانیت کی نجات کا ذریعہ بن گئی۔ حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، بلکہ یہ ازل سے طے شُدہ خدائی نظام کا وہ سُنہری لمحہ تھا، جس پر نہ صرف کائنات میں موجود ہر نیک رُوح نے سجدۂ شکر ادا کیا، بلکہ اقوام و مذاہب، سلطنتوں اور فرسودہ عقائد کی بنیادیں بھی لرز اُٹھیں۔
آپ ﷺ کی آمد سے قبل پیش آنے والے معجزات اور غیرمعمولی واقعات دراصل آپ کی رفعتِ شان اور عظمتِ مقام کے وہ مظاہر ہیں، جن سے قدرت نے یہ اعلان کیا کہ اب ظلمتوں کے چراغ بُجھیں گے اور نورِ حق کا مینار روشن ہو گا۔ یہ نشانیاں صرف اُس زمانے کی سلطنتوں کے لیے نہیں، بلکہ آج کے انسان کے لیے بھی پیغام کی حامل ہیں کہ جب نبویؐ نورکی شعائیں بکھرتی ہیں، تو ظُلم و جہل کی تاریکیاں چَھٹ جاتی ہیں۔ آپ ﷺ کی آمد نے زمین پر وہ انقلاب برپا کیا، جو عقل و وجدان، تہذیب و تمدّن اور اخلاق و ایمان کا اِک نیا باب تھا۔
سیّدہ آمنہؓ کے گھر میں چمکنے والی یہ روشنی محض مکّہ المکرّمہ کی گلیوں تک محدود نہ رہی، بلکہ اس کی ضیاء جزیرہ نُما عرب سے ہوتی ہوئی پوری کائنات میں پھیلتی چلی گئی۔ پس، ہمیں چاہیے کہ ہم سیرتِ رسول اللہ ﷺ کو مشعلِ راہ بنائیں۔ آپ ﷺ کے کردار، اخلاق اور تعلیمات کو اپنائیں اور اس نورِ نبوّتؐ کو اپنے دِلوں، گھروں، معاشرے اور اقوامِ عالم میں عام کریں۔ اللہ کریم ہمیں آپ ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری اور حقیقی عشقِ رسول ﷺ نصیب فرمائے۔ آمین۔