• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسوۂ حسنہ، نبیٔ مہربانﷺ کے عطاکردہ حقوق ہی معاشرے میں عورت کی عزّت و توقیر کے ضامن ہیں
اسوۂ حسنہ، نبیٔ مہربانﷺ کے عطاکردہ حقوق ہی معاشرے میں عورت کی عزّت و توقیر کے ضامن ہیں

نبیٔ کریم ﷺ کا دل امّی جان حضرت خدیجہؓ کی محبّت سے لب ریز ہے اور آپﷺ کی زبانِ مبارک اُن کی تعریف کیے چلے جا رہی ہے۔ آواز میں محبّت، خلوص، احسان مندی اور اعترافِ وفا کی مٹھاس گھلی ہوئی ہے۔ آپﷺ اپنے الفاظ میں مزید زور پیدا فرما دیتے ہیں۔’’ اللہ کی قسم…!!‘‘، اللہ کا نبی جب قسم کھاتا ہے، تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُس قسم کی سچّائی پر قسم کھانے کو تیار ہو جاتا ہے۔ 

آپﷺ کے دل کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی محبّت کے سارے رنگ اِس قسم میں سمٹ آتے ہیں۔’’ اللہ کی قسم، اُس نے مجھے کوئی ایسا مہربان عطا نہیں کیا، جیسے کہ خدیجہؓ تھیں۔‘‘ کیا خُوب صُورتی، جلال اور جمال ہے، اِن الفاظ میں۔ امّی جان، حضرت خدیجہ ؓ کے اعزاز کے لیے بھلا اور کون کس پیرائے میں اِس سے زیادہ خُوب صُورت اور میٹھی بات کہہ سکتا تھا۔ 

یہی نہیں، آپﷺ مزید فرماتے ہیں۔’’جب لوگوں نے میرا انکار کیا، تو اُنھوں نے مجھ پر یقین کیا۔ جب لوگوں نے مجھ پر جھوٹ بولنے کا بہتان لگایا، اُنھوں نے میری تصدیق کی۔ جب لوگوں نے مجھے محروم کیا، اُنھوں نے اپنی جائیداد سے میری مدد کی اور اللہ نے مجھے اُن کے ذریعے اولاد عطا کی۔‘‘ آپﷺ، حضرت خدیجہؓ کی شان میں رطب اللسان تھے۔ ان کا ایک ایک عمل گنوارہے تھے اور اللہ ربّ العالمین، زبانِ رسالتؐ سے امّی جان، حضرت خدیجہؓ کا مقام اور مرتبہ قیامت تک کے لیے واضح کر دینا چاہتے تھے۔ 

وہ عظیم ہستی، جس نے میرے نبیﷺ کی پہلی محبّت کا اعزاز پایا، سب سے پہلی بیوی تھیں، سب سے پہلے وحی سُننے کی سعادت پائی۔ سب سے پہلے نبوّت کی تصدیق کرکے ایمان لائیں، سب سے پہلے حضور نبیٔ مہربان ﷺ سے وضو کا طریقہ سیکھا، نماز سیکھی، سب سے پہلے نماز باجماعت پڑھی۔ میرے نبی ﷺ کے پہلے بیٹے اور پہلی بیٹی کی ماں بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان ڈھیروں اعزازات کے ساتھ وہ آخر اللہ اور رسول ﷺ کی محبوب کیوں نہ ہوتیں اور پھر اُن جیسا آخر کون ہو سکتا ہے؟؟ ایک عورت ہونے کے ناتے ہمارے لیے یہ کتنا بڑا اعزاز ہے…!!

حضورنبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیّبہ پر ایک نظر ڈالیں، تو اُس زمانے میں عورت کا خاصا متحرّک اور غالب کردار نظر آتا ہے۔ آپﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی آپؐ کے والد کا انتقال ہوچُکا تھا اور والدہ، حضرت آمنہ بی بیؓ نے آپؐ کی پرورش کا اہم فریضہ سرانجام دیا۔ آپﷺ کی رضاعی والدہ، حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے ذکرِ خیر سے سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ رضاعی بھائی بھی تھے، مگر رضاعی بہن، حضرت شیماؓ کے خُوب صُورت تذکرے جگہ جگہ پڑھنے، سُننے کو ملتے ہیں۔ 

حضرت خدیجہؓ کا ذکرِ مبارک تو ہو چُکا، دیگر امہات المومنینؓ کا درخشاں کردار بھی روشن قندیلوں کی صُورت اسلام کے خاندانی نظام میں اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے علم و فضل سے ایک تہائی دین ہم تک پہنچا۔ حضرت اُمّ ِ عمارہؓ کے آہنی پیکر نے جنگِ اُحد میں اُنہیں’’خاتونِ اُحد‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا۔حضرت سمیہؓ کی شہادت کا واقعہ، تاریخِ اسلام کی پہلی شہادت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور یہ صبر، ثابت قدمی اور ایمان کی عظیم مثال ہے۔

وہ قبیلہ بنی مخزوم کے غلام، حضرت یاسرؓ کی اہلیہ اور حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں۔ یہ مبارک گھرانہ اسلام قبول کرنے والے ابتدائی مسلمانوں میں شامل تھا۔ ابوجہل اس گھرانے کو شدید تعذیب دیتے، تپتی ریت پر ننگے بدن لِٹا کر سورج کی تپش میں رکھا جاتا۔ ان پر پانی بند کرکے کوڑوں سے مارا جاتا۔ ایک دن حضور نبی کریم ﷺ وہاں سے گزرے، تو اس خاندان کو ظلم سہتے دیکھا۔

آپﷺ نے اُنہیں تسلّی دی کہ’’ صبر کرو آلِ یاسرؓ! تمہارا ٹھکانہ جنّت ہے۔‘‘ یہ الفاظ حضرت سمیہؓ کے لیے حوصلے اور اُمید کا باعث بنے اور اُنھوں نے کسی بھی دباؤ کے تحت اپنے ایمان کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک دن ابوجہل نے حضرت سمیہؓ کو اسلام سے پِھرنے پر مجبور کیا، لیکن اُن کے انکار پر غصّے میں آکر اُنہیں برچھی مار کر شہید کر دیا اور یوں ایک عورت نے اسلام کی خاطر سب سے پہلے جان کا نذرانہ پیش کیا۔

15صدیاں، 1500سال، پانچ لاکھ سینتالیس ہزار، پانچ سو دن اِس مبارک ہستی ﷺ کی دنیا میں آمد کو گزر گئے۔ مہربان آقاﷺ کی آمد پر ایک شاعر نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ’’جب سے (حضرت) محمّد( ﷺ )اس دنیا میں آئے ہیں، عورت ہی عورت ہونے لگی ہے۔‘‘

اِس طویل عرصے کے تناظر میں اگر خواتین کے حوالے سے سیرتِ نبویﷺ کو دیکھا جائے، تو ہمیں ایسی بصیرت اور رہنمائی ملتی ہے، جو آج بھی دنیا کی کسی جدید تہذیب میں نہیں ملتی۔ سیرتِ نبوی ﷺ آج کی خواتین کو نئے زاویوں سے سوچنے کی راہ دِکھا رہی ہے۔٭سیرتِ نبوی ﷺ نے عورت کو پہلی بار’’انسان‘‘ کے طور پر متعارف کروایا، نہ کہ صرف صنف۔جب عورت کو دیوی یا پھر اُس کے برعکس لونڈی سمجھا جاتا تھا، نبی ﷺ نے اُسے انسان قرار دیا۔ عقل، اختیار، رائے، وقار اور جذبات و احساسات رکھنے والی مخلوق۔ 

آج بھی دنیا کی بہت سی’’ترقّی یافتہ‘‘اقوام خواتین کو یہ مقام نہ دے سکیں۔ یہ اسلام ہی نے کہا کہ’’عورت، مرد کی طرح مکمل انسان ہے، دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔‘‘٭عورت کے لیے علم و فنون کے دروازے کھولے۔ نبی کریم ﷺ نے خواتین کے لیے علم کے حصول کی اہمیت اجاگر کی اور اُن کے سوالات کو اہمیت دی۔ حالاں کہ آج بھی بہت سی خواتین کے لیے علم، سوال، بحث اور خود سوچنا ممنوع بنا دیا جاتا ہے، جب کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘٭خواتین کی معاشی خود مختاری کا ماڈل دیا اور اس کا آغاز حضرت خدیجہؓ سے کیا۔ نبی کریمﷺ نے کسی عورت کو’’خاموش تابع دار بیوی‘‘ نہیں بنایا، بلکہ ایک کاروباری، خودمختار، باشعور اور مضبوط ساتھی کے طور پر متعارف کروایا۔ 

حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ جیسے کردار آج کی ورکنگ ویمن اور بزنس لیڈرز کے لیے رول ماڈل ہیں۔ نبی کریمﷺ نے کبھی عورت کے کام کرنے یا حصولِ روزگار کو بُرا نہیں کہا، بلکہ اُنہیں اعتماد دیا۔٭نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیّبہ نے عورت کو آواز دی، خاموشی نہیں۔ حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت اُمّ ِ سلمہؓ نے علم، رائے، سوال، اختلاف کے میدان میں بھرپور شرکت کی اور نبی کریمﷺ نے اُنہیں عزّت بخشی، اُن کے سوالات کے جواب دیئے اور سوال پوچھنے کے رویّے کو سراہا۔

آج جب عورت کو بولنے سے روکا جاتا ہے، وہ حدیثِ مبارکہ یاد آجاتی ہے، جس میں ارشاد فرمایا گیا کہ’’اپنا نصف دین عائشہؓ سے سیکھو۔‘‘٭نبی کریم ﷺ کے دَور کی خواتین میدانِ جنگ، علاج معالجے، علم، تبلیغ اور سماجی خدمت کے شعبوں میں آگے آگے تھیں۔ وہ کم زور نہیں تھیں اور نہ ہی وہ مصنوعی طور پر’’محفوظ‘‘ رکھی گئی تھیں۔اُنہیں عزّت، اعتماد اور تربیت دی گئی۔ حضرت نسیبہ بنتِ کعبؓ نے اُحد میں نبی کریمﷺ کی حفاظت کی۔ یہ وہ تعلیماتِ نبویﷺ ہیں، جو ہماری بیٹیوں کو باہمّت بناتی ہیں، بےبس و کم زور نہیں۔

آج بھی دنیا کو حضور نبی کریم ﷺ کی سراپا شفقت و محبّت جیسی سیرت کی ضرورت ہے، جس کی رہنمائی میں خواتین پورے اعتماد سے آگے بڑھ سکتی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے عورت کو جو عزّت، مقام اور بلندی عطا فرمائی، جن حقوق سے آشنا کیا، وہ آج بھی عورت کی رہنمائی اور عزّت و وقار کے ضامن ہیں۔ آپﷺ ہی نے زندہ درگور ہوتی عورت کو، انسانیت کا شرف عطا کرکے غلامی اور ذلّت سے آزاد کیا۔ اسے معاشرتی، قانونی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں فعال کردار دیا۔ نبیٔ مہربانﷺ محسنِ انسانیت تو ہیں ہی، مگر خاص طور پر’’محسنِ نسواں‘‘ کے بھی اعلیٰ و برتر مقام پر فائز ہیں۔

عورت نہ صرف اُن کی گھریلو مبارک زندگی کی اہم رُکن تھی، بلکہ وہ جنگوں میں دفاعی مورچوں پر بھی کھڑی نظر آئی۔ آج کے جدید دَور کی عورت کے لیے یہ رہنمائی خاص طور پر اہم ہے کہ وہ بنی کریم ﷺ کی دی ہوئی عزّت، حقوق اور کردار کو اچھی طرح سمجھ لے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اُس سے روشنی پاتے ہوئے فعال کردار ادا کرے، کیوں کہ یہی وہ روشن راہ ہے، جس پر چلتے ہوئے تعلیمی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدان میں مضبوط و باوقار مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم آج حضرت خدیجہؓ کا کردار سامنے رکھتے ہوئے وطنِ عزیز میں عورت کے لیے راہِ عمل متعیّن کریں۔ معاشرے میں اس کے استحصال پر کڑی نظر رکھیں اور اس کے لیے محبّت و حفاظت کا ماحول بنانے کا انتظام کریں۔ مَردوں کے اِس معاشرے میں نبی کریمﷺ کی تعلیمات عام کریں اور وہی ماحول بنائیں، جس میں زندہ درگور ہوتی عورت کو انسانیت کا شرف، سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ اور اظہارِ رائے کی آزادی ملی۔

اس کی صلاحیتیں اجاگر کی گئیں اور قدم قدم پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ اس کے خاندان کے مرکزِ محبّت ہونے کے کردار کو ہی اتنی اہمیت دی گئی کہ اُس دَور کی عورت کو اِس غلط فہمی کا شکار ہونے کا موقع ہی نہ ملا کہ گھر اُس کے لیے ایک قید خانہ ہے۔ 

اُس نے گھر کو جنّت بنا کر اِسی کردار کو اتنے فعال طریقے سے ادا کیا کہ ایک ایسی نسل تیار کردی، جس نے وہ معاشرہ تخلیق کیا، جو آج بھی دنیا کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں ایسا لائحۂ عمل ترتیب دینا ہوگا، جس میں حضرت خدیجہؓ کو بطور رول ماڈل سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ ہم اپنی خواتین کو ویسے ہی حقوق دیں، اُن کی اُسی طرح حوصلہ افزائی کریں، محبّت و حفاظت کے وہی حصار مہیّا کریں، جو عہدِ رسالتؐ میں اُنھیں میسّر تھے۔ایک روایت کے مطابق، حضرت بی بی حواؑ کو پسلی سے پیدا کیا گیا اور پسلی، دل کے قریب اور بازو کے نیچے ہوتی ہے۔ 

ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ جس تاریخ یا معاشرے کو مَردوں اور عورتوں نے مل کر بنایا، اُس میں سے عورت کو غائب کر دیا گیا۔ اِسی لیے دنیا میں ہماری تاریخ اور معاشرے، دونوں سے متعلق ادھورا اور ناقص تصوّر پایا جاتا ہے۔ دنیا کو اسلام کا خُوب صُورت اور روشن چہرہ دنیا دِکھانے کے لیے ہمیں وہ منوّر کردار سامنے لانے ہوں گے، جنہوں نے روایت شکن اقدامات کرکے عورت کو اُن کے حقوق دلوائے۔

آئیں، نبی کریم ﷺ کے دَورِ نبوّت کے اِنہی نقوش کوتازہ کریں، جن میں ہمارے پاس دنیا کی امامت بھی تھی اور فضیلت بھی۔ ہم نے اپنی تاریخ بھی فروزاں کی تھی اور ہمارا جغرافیہ بھی پھیل رہا تھا۔ آئیں! اپنی اس کھوئی ہوئی عظمت کو بازیاب کروانے کے لیے نبی کریم ﷺ کی سیرت سے عمل کی راہیں تلاش کریں اور اپنے آنے والے مستقبل کو روشن کریں۔