• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستمبر مادر وطن سے محبت کا مہینہ ہے جبکہ اس سال ہماری خوش نصیبی بھی ہے کہ یہ ما ہ ربیع الاوّل کا مبارک مہینہ بھی ہے جس میں رب العالمین نے محسن انسانیت، پیغمبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو رحمتِ مجسم بناکر اس خاکدان عالم میں بھیجا ۔آپ ﷺ نے اپنی روشن تعلیمات اور نورانی اخلاق کے ذریعے دنیا سے نہ صرف کفر و شرک اور جہالت کی مہیب تاریکیوں کو دور کیابلکہ مسخ شدہ انسانیت کو اخلاق و شرافت، وقار و تمکنت اور سنت و شریعت کے زیور سے آراستہ کیا۔اس محسن اعظم کا حق تو یہ تھا کہ ہمارے قلوب ہرلحظہ اس کی عظمت واحترام سے معمور اور ہمارے دلوں کی ہر دھڑکن اس کی تعظیم و توقیر کی ترجمان ہوتی، ہمارا ہر عمل اس کے اسوۂ پاک کا نمونہ اور ہر حرکت و سکوت اس کی سنت مطہرہ کے تابع ہو تے مگر پاکستان میں ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کیلئے کوئی کوشش نہیں کی ، عالم اسلام کے ضمیر بھی محسن انسانیت کے پیغام سے جاگ نہیں سکے، کشمیر، غزہ میں مسلمانوں کے خلاف اسرائیل اور بھارتی جارحیت پر بھی وہ کوئی متفقہ لائحہ عمل نہیں بناسکے۔

آج سے 60 سال قبل اسی ستمبر کو افواج پاکستان نے بھارت کے لئےستم گر بنایا،جب چھ ستمبر1965کو افواج پاکستان نے اپنے دشمن بھارت کو جنگ میں ایسا سبق سکھایا کہ وہ زخم آج تک اسے یاد ہیں،یومِ دفاع ہر سال 6 ستمبر کو پاکستان میں قومی دن کے طور پرمنایا جاتا ہے،یہ دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخردن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی درجہ زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا۔ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔1965ء کی بھارت اورپاکستان جنگ سے ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیتتی ہیں۔ ستمبر ملکی تاریخ کے اعتبار سےہندوستان کے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست قائم کرکے برصغیرکا نقشہ تبدیل کر کے انگریز اور کانگریس کو تنہا شکست دینے والی تاریخ ساز شخصیت قائداعظم محمد علی جناح کے یوم وفات کا مہینہ بھی ہے، بانی پاکستان قائد اعظم بھی11ستمبر1948کو اس دنیا سے رخصت ہوئے،اس سال یوم دفاع پاکستان کی اہمیت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان نے چند ماہ قبل بھارت کو ایک مختصر جنگ میں جو سبق سکھایا اس نے عالم میں پاکستان کا نقشہ ہی بدل دیا، جو کل تک پاکستان کو کم زور اور ترنوالہ تصور کررہے تھے وہ آج ہمارے ساتھ تجارت کی بات کررہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک زرخیز ملک ہے، بے پناہ نعمتوں سے مالا مال خطہ ہے،مگر ہماری ناقص منصوبہ بندی نے ہمیں معاشی طور پر آگے بڑھنے نہیں دیا،کرپشن نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کردیا،ہم نے اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی پلاننگ نہیں کی،جس کا خمیازہ ہم آج سیلاب سے تباہی کی صورت میں بھگت رہے ہیں،ملک بھر میں اس وقت سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے،کئی سو افراد شہید ہوگئے تو لاکھوں خاندان بے گھر ہوکر کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت نے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ کرپاکستان کیخلاف آبی جارحیت کی ہے،مگر ہم نے اس سے محفوظ رہنے کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا۔ ڈیمز کی تعمیر ملک میں پانی کے انتظام کا ایک اہم جزو ہے جس کا مقصد آبپاشی اور بجلی کی پیداوار کے ساتھ سیلاب پر قابو پانا بھی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چھوٹے ڈیموں کے علاوہ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر نے ملک کی زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا۔آبادی میں اضافے اور صنعتی ترقی سےپانی اور بجلی کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ڈیموں کو بجلی کی پیداوار کا ایک سستا اور قابل اعتماد ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس سے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں ۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دریائی نظام پر انحصار کرتا ہے اور اکثر سیلابوں کی زد میں رہتا ہے۔ ڈیمز سیلابی پانی ذخیرہ کرنے ، بہاؤ کو کنٹرول کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں ۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیر پگھل رہے ہیں، موجودہ سیلاب کے باعث پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، بستیاں دریا برد ہو گئیں،رابطہ پل اور سڑکیں بہہ گئیں۔لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ، ان کی آباد کاری اور بحالی کیلئے صرف کیمپس نہیں ،عملی قدم اٹھائیں جائیں، حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ابتدائی وارننگ سسٹمز جیسے اقدامات کیے ، لیکن محدود آبی ذخائر، کمزور منصوبہ بندی، فنڈز کی کمی اور عوامی آگاہی اس بحران سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہے۔ حالیہ برسوں میں غیر معمولی بارشیں، خشک سالی، اور سیلابوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010کے تباہ کن سیلاب اور 2022کے غیر معمولی مون سون کی بارشیںاور حالیہ سیلاب اسکی مثال ہیں،پانی کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے جدید آبپاشی کے طریقوں پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظر، پاکستان کو پانی کے انتظام کیلئے ایک پائیدار اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ملک کو معاشی، آبی، سیاسی شعبے میں بہتر اور مضبوط بنانےکیلئے زبانی نہیں عملی اقدامات کئے جائیں۔

(سابق وفاقی وزیر)

تازہ ترین