• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد عُمیر جمیل، کراچی

عصرِ حاضر سائنسی ایجادات کا دَور ہے۔ آج کا انسان انواع و اقسام کی مخلوقات سے متعلق علم سے لے کر موسم کی دُرست پیش گوئی تک کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس وقت خلا کی تسخیر میں مصروف ہے۔

ہر چند کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تمام تر کام یابیوں کو یورپی سائنس دانوں سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت موجودہ دَور میں سائنس کی تمام تر ترقّی کا سہرا ماضی کے مسلمان سائنس دانوں ہی کے سَر ہے کہ جن کے دریافتوں اور تجربات کی بدولت یہ علم دُنیا بَھر میں پھیلا۔

اور یہ کہنا بھی ہرگز بےجا نہ ہوگا کہ سائنس کی عمارت کی بنیاد رکھنے والے مسلمان ہی تھے۔ زیرِنظر مضمون میں سائنس کی دُنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے چند مسلمان سائنس دانوں کے حالاتِ زندگی، دریافتوں، ایجادات اور تصانیف کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

ابو ریحان البیرونی

ریحان محمّد بن احمد البیرونی، المعروف البیرونی 5 ستمبر 973ء کو خوارزم میں پیدا ہوئے۔ ابو ریحان ایک مایہ ناز محقّق اور سائنس دان تھے۔ البیرونی نے ریاضی، تاریخ اور جغرافیے کی ایسی عُمدہ کُتب لکھیں کہ اُن سے آج بھی استفادہ کیا جارہا ہے۔ اُن میں سے ایک مقبولِ عام تصنیف، ”تحقیق الہند “ ہے، جب کہ البیرونی کی ایک مشہورکتاب،’’قانونِ مسعودی‘‘ بھی ہے۔

جو علمِ فلکیات اور ریاضی کی نہایت اہم کتاب تصوّر کی جاتی ہے اور اسی کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور ریاضی دان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ابو ریحان البیرونی نے ریاضی، طبیعیات، تاریخ، ارضیات، کیمیا اور جغرافیے وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کُتب اور مقالے تحریر کیے۔ دُنیا کے اس عظیم مفکّر اورسائنس دان کا انتقال 13دسمبر 1048ءمیں ہوا۔

حکیم ابو نصر محمّد بن الفارابی

حکیم ابو نصر 852ء میں تُرکستان کے مقام، فارب میں پیدا ہوئے اور اِسی نسبت سے ’’الفارابی‘‘ کہلائے۔ ابونصر فلسفی، ریاضی دان، سائنس دان اورعظیم مفکّرتھے،جب کہ اُنھیں علمِ نجوم اورموسیقی پر بھی دسترس حاصل تھی۔

الفارابی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مشہورِ زمانہ انگریز مؤرخ، جارج سارٹن نے اپنی تصنیف، ’’مقدمۂ تاریخِ سائنس‘‘ میں اُنھیں دُنیا کا سب سے بڑا فلسفی قرار دیا ہے۔ فارابی یونانی فلاسفہ، ارسطو اور افلاطون سے بےحد متاثر تھے۔ انھوں نے ارسطو کی اکثر کُتب کی شروح بھی تحریر کی ہیں، جس کے سبب اُنھیں ارسطو کے بعد دوسرا بڑا فلسفی اور ’’معلّمِ ثانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

جابر بِن حیان

علمِ کیمیا کےماہر، جابر بِن حیان نے 813ء میں کُوفے میں آنکھ کھولی۔ گرچہ اُن کا خاندانی پیشہ دوا سازی تھا، لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، تو وہ سونا بنانے کے جنون میں مبتلا ہو گئے۔ جابر نے سونا بنانے کی دُھن میں مختلف جڑی بوٹیوں اور ادویہ کی خصوصیات معلوم کرناشروع کیں، تو اُن کےتجربات سے متاثرہو کر خلیفۂ وقت نے اُنہیں اپنا درباری مقرّر کرلیا۔

یوں تو جابر بن حیان کی بے شمار ایجادات ہیں، لیکن ان میں نمک، شورے اور گندھک کا تیزاب قابلِ ذکرہیں۔ نیز، انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک ایسا تیزاب بھی ایجاد کیا کہ جو سونے کو بھی پِگھلا دیتا تھا۔ اس کےعلاوہ جابر نے لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے، چمڑے اور بالوں کو رنگنے اور کپڑوں کو واٹر پروف بنانے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ جابر بن حیان نے اپنےسائنسی تجربات پر مبنی کئی کُتب تحریرکیں، جن میں سے ایک مقبولِ عام تصنیف، ’’کتاب الموازین‘‘ ہے، جو آج بھی یورپی تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے۔

ابوبکر محمّد زکریا رازی

ابوبکر محمّد زکریا رازی کو علمِ طب کا استاد تسلیم کیاجاتا ہے۔ رازی کا ابتدائی دَورغفلت میں گزرا۔ تاہم، بعدازاں وہ بھی جابر بن حیان کی طرح سونا بنانے کےجنون میں مبتلا ہوگئے اور گھر میں سونا تیار کرنے کے تجربات شروع کر دیے۔ بھٹّی سے نکلنے والے دُھویں سے رازی کی آنکھیں خراب ہونے لگیں، تو اُنہوں نے تجربات چھوڑ کرشفا خانے میں ملازمت اختیار کرلی اور پھرطب کےشُعبے میں کمال حاصل کیا۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ چیچک اور خسرہ جیسے وبائی امراض پرتحقیق ہے۔ رازی وہ پہلے معالج تھے کہ جنہوں نے اِن دونوں امراض پر توجّہ دی اور اِن کےعلاج و احتیاط پر ایک کتاب تحریر کی، جسے دُنیا بَھر میں ان امراض کےحوالے سے پہلی کتاب قرار دیا جاتا ہے۔

ابن الہیثم

نام وَرمسلمان سائنس دان، طبیب اور ماہرِ فلکیات، اِبن الہیثم 965ء میں عراق کے شہر، بصرہ میں پیدا ہوئے۔ اُنہیں ’’بصریات کا بانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ابن الہیثم نے نہ صرف قوانینِ انعطاف و انعکاس وضع کیے، بلکہ یہ بھی بتایا کہ روشنی ہمیشہ خطِ مستقیم میں سفر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اشیاء کے عکس کا تجربہ بھی سب سے پہلے انھوں نے کیا۔

اِبن الہیثم نے اپنے تجربات سے یہ بھی ثابت کیاکہ سورج کی روشنی ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے، تو آنکھوں میں موجود عدسوں کے باعث ہمیں اشیاء دکھائی دیتی ہیں، جب کہ اِس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ آنکھوں سے روشنی نکلنے کے سبب اشیاء دکھائی دیتی ہیں۔

اِبن الہیثم نے رنگ ونور پر بھی تحقیق کی، جس کےنتیجےمیں آگے چل کر کیمرے کی ایجاد سامنےآئی۔ سائنس کے اِس امام نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں کُتب لکھیں، جن میں سے ’’کتاب المناظر‘‘ نے سب سے زیادہ شُہرت پائی۔ دُنیا کو بصریات کا علم دینے والے اس سائنس دان کا انتقال 1039ء میں ہوا۔

محمّد بِن موسیٰ الخوارزمی

مقالہ نویسی اور اسے اساتذہ سے منظور کروانے کی روایت بھی مسلمانوں نے ڈالی اور اِس ضمن میں محمّدبِن موسیٰ الخوارزمی کانام سرِفہرست ہے۔ الخوارزمی دُنیا کے پہلے مقالہ نویس تھے، جنہوں نے علمِ ہندسہ پر ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا اور اُسے سائنس دانوں سے منظور کروا کر اُس اکیڈمی کے رُکن بن گئے کہ جسے وہ اپنے تحریر کردہ مقالے بھیجا کرتے تھے۔

علاوہ ازیں، ابوموسیٰ الخوارزمی کو ’’الجبرا‘‘ کا مؤجد تسلیم کیا جاتا ہے، جنھوں نے علمِ ریاضی میں صفر کے ساتھ ساتھ الجبرا کا لفظ بھی استعمال کیا۔ الخوارزمی نے ریاضی کے ساتھ علمِ فلکیات میں بھی شُہرت پائی۔ اُن کی وفات 850ء میں ہوئی۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحۂ ’’متفرق‘‘

٭ غازی آب دوز (محمد کاشف ، نیو کراچی ، کراچی) ٭ اسلامی نظام (سالم عزیز، چوبرجی پارک،سمن آباد، لاہور) ٭ تمباکو، نکوٹین کی مصنوعات (اللہ دِتّا انجم ، کہروڑ پکا ، لودھراں) ٭ امن (ثوبیہ ممتاز ، راول پنڈی) ٭قربانی کا حقیقی فلسفہ ، قربانی کے جانور کی خصوصیات ،عشرہ ٔذی الحج (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) ٭ نکاح پر پابندی (ڈاکٹر محمد ریاض علیمی، نیوکراچی، کراچی)٭قدرتی آفات میں نوجوانوں کا کردار(سید اطہر نقوی)٭ اندھیری رات کے آنسو (رانا اعجاز حسین چوہان)۔