فرحین العاص
مارگلہ ہِلز کے دامن میں واقع ’’رملی‘‘ نامی گاؤں کا 30سالہ مکین، کریم خان اپنی چھوٹی سی چرا گاہ کے کنارے بیٹھا اپنے سامنے موجود اُس جنگل کو دیکھے جا رہا تھا کہ جہاں ماضی میں اُس کے مویشی چرنے جایا کرتے تھے۔ جنگل میں چارے کی قلّت کے باعث مذکورہ گاؤں کے بہت سے چرواہوں نے گلہ بانی کا سلسلہ ترک کر کے دیگر کام شروع کر دیے ہیں۔
کریم خان کا تاسف بھرے لہجے میں کہنا تھا کہ ’’پہلے یہاں چارہ وافر تھا، لیکن اب جنگل میں آگ لگتی ہے، تو سب کچھ راکھ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر چارے کی تلاش میں دُور دراز علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل، ہمارے گاؤں میں 400سے زائد مویشی تھے، جب کہ اب ایک سو بھی نہیں رہے۔ کچھ لوگوں نے چارے کی قلّت اور کچھ نے چوری چکاری کے ڈر سے گلہ بانی کا سلسلہ ترک کر دیگر شہروں اور بیرونِ مُلک محنت مزدوری شروع کر دی ہے۔‘‘
’’اسلام آباد وائلڈ لائف‘‘ کے حُکّام کے مطابق، مارگلہ ہِلز نیشنل پارک کے اطراف تقریباً 20دیہات موجود ہیں، جب کہ ’’چائنیز جرنل آف پاپولیشن ریسورسز اینڈ انوائرنمنٹ‘‘ میں شایع ہونے والی ایک اسٹڈی کے مطابق، مارگلہ ہِلز نیشنل پارک کے اندر اور اس کے آس پاس تقریباً 37چھوٹی بستیوں اور دیہات میں 90ہزار سے ایک لاکھ افراد آباد ہیں، جب کہ معروف انگریزی اخبار، ’’دی نیوز انٹرنیشنل‘‘ میں 3اپریل 2018ء کو شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ان دیہات میں ہر گھر میں اوسطاً 3سے 4مویشی موجود ہیں اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ تمام مویشی اپنی خوراک کے لیے مکمل طور پر علاقے میں پائے جانے والے نباتات پر انحصار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان نباتات کو نقصان پہنچتا ہے، بلکہ مٹی کے کٹاؤ میں بھی اضافہ ہوتا ہے، لیکن مقامی افراد کے مطابق، اب ان مویشیوں کی تعداد میں کمی دیکھی جارہی ہے اور اس ضمن میں مارگلہ ہِلز کے آس پاس واقع تمام دیہات کی صورتِ حال ’’رملی‘‘ جیسی ہی ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل ’’اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ‘‘ کی سابق چیئرمین پرسن نے میڈیا سے گفتگو کے دوران مارگلہ ہِلز نیشنل پارک کے اطراف 32دیہات کا ذکر کیا تھا۔
مارگلہ ہِلز نیشنل پارک (ایم ایچ این پی) کا کُل رقبہ تقریباً 17,386ایکڑ ہے، جو 173.86مربّع کلومیٹر یا 67.1مربّع میل کے مساوی ہے۔ یہ پارک 1980ء میں قائم کیا گیا تھا اور یہ پاکستان کے قدیم ترین اور بڑے نیشنل پارکس میں سے ایک ہے۔ مارگلہ ہِلز نیشنل پارک کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع اور اسلام آباد اور راول پنڈی کے سنگم پر پھیلا ہوا ہے۔
یہ پارک تین اہم علاقوں پر مشتمل ہے، جن میں مارگلہ ہِلز، راول لیک اور شکرپڑیاں شامل ہیں۔ ماحولیاتی تحفّظ کی بین الاقوامی تنظیم، ’’انٹرنیشنل یونین آف کنزوریشن آف نیچر‘‘ (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ کے مطابق، مارگلہ ہِلز نیشنل پارک میں موجود جانوروں اور پودوں کی بعض انواع معدومیت کےخطرے سے دوچار ہیں۔
گرچہ پارک بہ ذاتِ خود ایک محفوظ علاقہ ہے، لیکن اس کے مخصوص اندرونی حالات بعض مقامی پودوں اور جانوروں کو معدومیت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہر چند کہ یہاں موجود تیندوے اور پینگولِن کی نسل کے تحفّظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، لیکن انہیں اب بھی عالمی سطح پر معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یاد رہے، مارگلہ ہِلز نیشنل پارک ایک اہم قدرتی اثاثہ ہے، جسے اس وقت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جب کہ اس کے تحفّظ اور حیاتیاتی تنوّع کی بقا کا دارومدار ان خطرات پر مؤثر انداز میں قابو پانے میں پوشیدہ ہے۔
دوسری جانب مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب ان علاقوں میں پائے جانے والے ’’ٹال‘‘ نامی درخت تیزی سے خُشک ہونے لگے ہیں اور ان کی طبعی عُمر بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں ’’تحفّظ و بحالی اتحاد برائے حیاتیاتی تنوّع‘‘ سے وابستہ ماہرِماحولیات، رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ’’مارگلہ ہِلز اب بھی 600سے زائد اقسام کے پودوں اور چیتے، پینگولِن اور لنگور سمیت 250سے زائد انواع کے جانوروں اور پرندوں کے حیاتیاتی تنوّع سے مالا مال ہیں۔
تاہم، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی آبادی کے دباؤ کے امتزاج نے اس ماحولیاتی نظام کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آج ہمالیائی اوک اور چِیڑ جیسے درخت نمی کی کمی اور کیڑوں کے حملوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، چشمے خُشک رہے ہیں اور بے ترتیب بارشوں کے باعث مٹی کا کٹاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں، جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ پرندوں کی ہجرت اور ایمفیبینز یا جل تھلیا (خشکی اور تری دونوں پر رہنے والے جانور) جانوروں کی افزائشِ نسل میں تبدیلی بھی وسیع تر ماحولیاتی عدم استحکام کی علامت ہے۔‘‘
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حُکّام کے مطابق، مارگلہ ہِلز میں موجود زیادہ تر پودے مقامی ہیں، جب کہ ’’پیپر ملبیری‘‘ اور ’’لینٹانا‘‘ جیسے غیر مقامی پودوں کی موجودگی محدود ہے۔ حُکّام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موسمیاتی اثرات کے سائنسی تعیّن کے لیے منظّم تحقیق کی ضرورت ہے۔ نیز، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیشنل پارک میں ممالیہ کی 38، پرندوں کی 350، رینگنے والوں جانوروں کی 32اور جل تھلیا جانوروں کی 9اقسام پائی جاتی ہیں۔
تاہم، ماہرِ ماحولیات، پرویز نعیم ایک محتاط خوش بینی کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق، گزشتہ 35برسوں میں پارک میں موجود سبزے اور جنگلی حیات میں بہتری آئی ہے۔پارک میں اب چیتے اور ریسس بندر زیادہ نظر آتے ہیں، جب کہ گورال کی اقسام کم ہو گئی ہیں۔‘‘ وہ موسمیاتی اثرات کو کُھل کر تسلیم نہیں کرتے، مگر پالیسی پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
دوسری جانب مارگلہ ہِلز کے دامن میں واقع دیہات کے مکین بتاتے ہیں کہ گزشتہ 10برس میں موسم میں واضح تبدیلی رُونما ہوئی ہے۔ پہلے بارشیں کثرت سے ہوتی تھیں، جب کہ گرمی کم اور سردی زیادہ ہوتی تھی، مگر اب گرمی کی شدّت میں اضافہ ہو گیا ہے اور بارشیں کم ہو گئی ہیں۔ اس ضمن میں محکمۂ موسمیات کے دس سالہ اعداد و شمار کے مطابق، 2016ء میں اسلام آباد میں 1620.6ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جب کہ 2024ء میں یہ کم ہو کر 1261.0ملی میٹر رہ گئی۔
اس کے ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ دیکھا گیا، جو 2015ء میں 27.7ڈگری سینٹی گریڈ، 2024ء میں 29.1ڈگری سینٹی گریڈ جب کہ 2025ء میں 33سے 39ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ علاوہ ازیں، ہواؤں کی سمت اور شدّت میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ شدید ترین ہواؤں کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 6جنوری 2016ء کو اسلام آباد میں65ناٹ کی شمال مغربی ہوا اور 5فروری 2022ء کو 45ناٹ کی ہوا ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح گزشتہ دس برسوں میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔
مذکورہ بالا اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور حیاتیاتی تنوّع کے ماہر، ڈاکٹر اعجاز احمد مارگلہ ہِلز نیشنل پارک میں انسانی مداخلت اور غیر قانونی تعمیرات کے ماحولیاتی اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پارک کے تحفّظ کے لیے صرف مارگلہ ہِلز پر توجّہ مرکوز کرنا کافی نہیں، بلکہ راول لیک اور شکرپڑیاں جیسے دیگر اہم قدرتی علاقوں کی حفاظت بھی ضروری ہے اور پارک کے تحفّظ کے لیے تمام متعلقہ علاقوں پر یک ساں توجّہ دینے اور اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ حیاتیاتی تنوّع کو برقرار رکھا جا سکے اور ماحولیاتی توازن قائم رہے۔‘‘
اس ضمن میں ماہرِ ماحولیات، رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ’’ماحولیاتی تحفّظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی جیسا کہ انٹرنیٹ آف تِھنگز کے سینسرز، وائلڈ لائف کوریڈورز اور کمیونٹی لیڈ کنزرویشن پروگرامز متعارف کروائے جائیں، جب کہ پالیسی اور فنڈنگ کے نظام میں تیزی اور اس پر مؤثر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔
اس وقت مارگلہ ہِلز نیشنل پارک نازک صُورتِ حال سے گزر رہا ہے۔‘‘ ماہرینِ ماحولیات، مقامی افراد اور اعدادو شمار سب اس اَمر کی گواہی دیتے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ قدرتی اثاثہ مستقبل قریب میں ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار ہو سکتا ہے۔