’’خواتین و حضرات! ایک ضروری اعلان سُنیے۔ ایک سیلابی ریلا آدھ، پون گھنٹے میں اِس گاؤں سے گزرنے والا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیں اور انتہائی ضروری سامان کے ساتھ کسی محفوظ جگہ منتقل ہو جائیں اور یہ بھی دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اِس آفت سے ہمیں بچالے۔‘‘
خیبر پختون خوا، بلوچستان اور شمالی علاقوں میں شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ کے واقعات کے بعد جب پنجاب کے دریاؤں میں آنے والے سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رُخ کیا، تو مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز سے اِس طرح کے اعلانات شروع ہوگئے اور پھر چند ہی دنوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس کے باوجود سیلاب سے سیکڑوں افراد جاں بحق اور لاکھوں مویشی دریا بُرد ہوگئے۔ مال و اسباب کی صُورت جو نقصان ہوا، اُس کی درست تفصیلات تو آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گی، لیکن ایک اندازے کے مطابق مالی نقصان کا تخمینہ اربوں میں ہے۔
اِن تباہ کاریوں کا آغاز صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع بونیر اور گلگت بلتستان سے ہوا، جہاں500 سے زائد افراد کے جاں بحق اور 5ہزار مکانات کے تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بونیر، سوات اور شانگلہ میں تباہ کاریوں کی الم ناک داستانیں رقم ہوئیں۔ایک ہی خاندان کے30سے زائد افراد سیلابی ریلے کی نذر ہوئے۔ اِسی طرح ایک شادی کی تقریب کے گھر میں محض دو افراد ہی زندہ بچے، جو کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ کسی کی بیوی، تو کسی کا شوہر سیلابی ریلے میں بہہ گیا، جب کہ کئی واقعات میں بچّے والدین سے محروم ہوگئے۔
یہ اطلاع بھی سامنے آئی کہ ایک سیّاحتی مقام پر موجود خاندان کے تمام افراد اچانک آنے والے ریلے میں بہہ گئے، جب کہ ایک اور واقعے میں کشتی میں جنم لینے والے تینوں جڑواں بچّے جاں بحق ہوگئے۔ خیبر پختون خوا کے تقریباً تمام اضلاع بارشوں سے شدید متاثر ہوئے اور عوام نے کلاؤڈ برسٹ کی تباہ کاریاں پہلی مرتبہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
قدرت کا یہ تازیانہ گویا کسی آتشیں کوڑے کی طرح اُن علاقوں میں برستے دیکھا گیا، جہاں جنگلوں کی کٹائی اور آبی گزرگاہوں پر قبضوں کی صُورت فطرت کے اصول پامال کیے گئے تھے۔ ماہرینِ موسمیات نے اِس طرح کی تباہ کاریوں کے تسلسل کے خدشات ظاہر کیے ہیں، کیوں کہ رواں ماہ بھی بارشیں جاری رہنے کا امکان ہے۔ کے پی کے میں40 سے زائد پُل سیلاب میں بہہ گئے، جس سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
ابھی خیبر پختون خوا میں بارشوں کی تباہ کاریوں، سیلابی ریلوں کے زخم تازہ تھے کہ بارشوں کا رخ پنجاب کی جانب مڑ گیا اور28اگست سے موسمی صُورتِ حال خراب ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریائے چناب، راوی اور ستلج کے بپھرے پانیوں، سرکش لہروں نے آبادیوں کا رُخ کرلیا۔
ایسی بارشیں کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیں، پانی کا بہاؤ خطرے کے نشانات عبور کرگیا۔ لیہ، ملتان، قصور، بہاول پور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، وہاڑی، میلسی، بورے والا، احمد پور شرقیہ، خانیوال، کبیر والا، مظفّرگڑھ، سیال کوٹ اور پنجاب کے تمام جنوبی اضلاع پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔
اگست کے آخر تک بڑے شہروں سے ملحقہ2000دیہات سیلابی ریلوں کی زد میں آگئے۔ اگرچہ سرکاری اور نجی سطح پر ریسکیو کی بھرپور کوششیں کی گئیں اور اس مقصد کے لیے سیکڑوں ریلیف کیمپس قائم کیے گئے، تاہم متاثرہ علاقوں کے بیش تر افراد آخری وقت تک اِس کنفیوژن کا شکار رہے کہ اُنہیں اپنا علاقہ چھوڑنا چاہیے یا نہیں۔
اکثر افراد اپنی عزیز ترین متاع، یعنی مال مویشیوں کو خود سے جُدا نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن ان تاخیری فیصلوں کی اُنہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔فوجی جوانوں، رینجرز اہل کاروں اور رفاہی تنظیموں کے رضا کاروں نے متاثرہ افراد کی بروقت محفوظ مقامات پر منتقلی کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن عوامی عدم تعاون کے سبب مکمل طور پر انخلاء ممکن نہ ہوسکا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پنجاب سے گزرنے والے تین دریاؤں ستلج، راوی اور چناب میں ایک ساتھ اِتنے بڑے پیمانے پر طغیانی دیکھی گئی۔ ان دریاؤں کے بپھرے پانیوں نے کم از کم25 لاکھ افراد کو فوری طور پر متاثر کیا۔ پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایک بیان کے مطابق،26جون سے یکم اگست تک مُلک بھر میں سیلاب اور بارشوں سے مجموعی طور پر835افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ پنجاب میں195 اموات ہوئیں۔
پنجاب حکومت کے ایک ترجمان کا، جو امدادی کارروائیوں کے انچارج ہیں، کہنا تھا کہ حکومت نے سیلاب میں پھنسے چار لاکھ 80ہزار افراد کو، اُن کے چار لاکھ مویشیوں کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں مجموعی طور پر20 سے 25لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے، جب کہ جو بڑے شہر سیلابی بارشوں سے شدید متاثر ہوئے، اُن میں سیال کوٹ جیسا صنعتی شہر بھی شامل ہے، جو پوری دنیا میں کھیلوں کے سامان کی برآمدات کے حوالے سے شہرت کا حامل ہے۔ یہاں بھی دریائے چناب میں پہلی مرتبہ خوف ناک طغیانی دیکھی گئی اور اس کا پانی کناروں سے نکل کر ریل کی پٹری تک پہنچ گیا۔
سیال کوٹ کے متاثرین نے شکایت کی کہ’’ کوئی اُن کی مدد کو نہیں پہنچا اور سیوریج سسٹم اِتنا ناقص ہے کہ اُس نے بارش کے پانی کے ساتھ مل کر مزید تباہی مچائی۔‘‘ اِس تباہی کا ایک نتیجہ پیٹ اور جِلد کے امراض کی صُورت بھی سامنے آرہا ہے۔ سیلاب سے قصور شہر بھی متاثر ہوا، جہاں دریائے ستلج میں ہیڈ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر کئی دہائیوں کے بعد خطرناک صُورتِ حال دیکھی گئی۔
یہاں پانی کا بہاؤ3لاکھ کیوسک سے زیادہ نوٹ کیا گیا۔ بڑھتے خطرات کے پیشِ نظر انتظامیہ نے ملحقہ دیہات خالی کروا لیے تھے۔ اِسی طرح چونیاں، اوکاڑہ اور بہاول نگر میں بجلی کے کھمبے دریا بُرد ہونے سے یہ شہر اندھیرے میں ڈوب گئے۔ کہروڑ پکّا میں بند ٹوٹنے سے متعدّد دیہات پانی میں ڈوب گئے۔ منہ زور ریلوں سے ننکانہ شہر شدید متاثر ہوا۔ دیپال پور، تاندلیانوالہ کے درجنوں دیہات کا رابطہ کٹ گیا۔
جھنگ اور چنیوٹ میں بھی الم ناک مناظر دیکھے گئے کہ جہاں کھڑی فصلوں اور انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔ رابطے منقطع ہونے کے سبب امدادی ٹیمز کو متاثرین تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان شہروں میں تباہ کاریوں کے دَوران بھارت سے پانی کی مسلسل آمد جاری رہی، جس سے مشکلات میں ہر روز مزید اضافہ ہوتا رہا۔
متاثرین کیا کہتے ہیں…؟؟
بلاشبہ اعداد و شمار سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق معلومات کا حصول ممکن ہوتا ہے، لیکن متاثرین پر جو گزرتی ہے، وہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ الم ناک ہے۔ مختلف نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وہ اپنا دُکھ بیان کرتے نظر آئے۔ آیئے دیکھتے ہیں، اِس ضمن میں متاثرین کیا کہتے ہیں۔’’یہ دیکھ لیں، ہمارے بچّے کُھلے آسمان کے نیچے سڑک پر پڑے ہیں، اوپر سے بارش بھی ہو رہی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں۔
کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا۔‘‘’’وزیر آباد اور ڈسکہ کے متاثرین بے سروسامانی کی حالت میں خیموں کے بغیر سڑکوں پر پڑے ہیں، کوئی مدد کو نہیں آیا۔‘‘’’ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھی۔ ہم چار روز پیدل چل کر محفوظ مقام تک پہنچے ہیں۔‘‘’’ہم کئی روز سے سیلاب سے بچنے کے لیے ایک ویران سڑک پر بیٹھے ہیں۔ ہمارے خاندان کے15 افراد، جن میں بچّے اور عورتیں بھی شامل ہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔
بچے کھچے مال مویشی بھی ہیں، لیکن پانی ہمارا سب کچھ اپنے ساتھ لے گیا۔ ابھی تک حکومت یا کسی تنظیم کا کوئی شخص ہمارے پاس نہیں آیا۔ کئی اخباری نمائندے ہمارا حال دیکھ چُکے ہیں۔ ہم نے فضا میں ایک ہیلی کاپٹر اُڑتے دیکھا، تو ہم نیچے سے چیختے چلاتے رہے، لیکن ہماری آواز وہاں تک نہیں پہنچی۔ یہ لوگ آسمان سے صرف ہمارا تماشا دیکھنے آتے ہیں۔‘‘’’فی الحال تو ہم سے سب کچھ چِھن گیا ہے۔ہمیں نہیں علم کہ کب اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہمارے پاؤں کے نیچے پانی ہے، تو سر کے اوپر بھی پانی برس رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا، کہاں جائیں۔‘‘
آخر ہم کب سبق سیکھیں گے…!!
حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں اور بیش تر افراد کی نظر میں یہ قیامت ہمارے اپنے ہاتھوں برپا کی ہوئی ہے۔ ٹمبر مافیا کے ہاتھوں جنگلات کی بے دردی سے کٹائی، ڈیمز کی تعمیر کے ضمن میں غفلت، آبی گزرگاہوں پر آبادیاں، نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار، حفاظتی بندوں کی تعمیر میں ناقص مٹیریل کے استعمال سمیت کئی دیگر عوامل اِس تباہی و بربادی کا سبب ہیں۔ ہر دوسرے، تیسرے یا چوتھے برس ہم پر تباہی کا یہ کوڑا برستا ہے، لیکن ہم نے ان سیلابوں سے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔
جب ہم پر یہ آفت ٹوٹتی ہے، تو ہمارے حُکم ران کشکول اُٹھا کر پوری دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے نکل کھڑے ہوتے ہیں، لیکن اب دنیا بھی ہماری صداؤں پر توجّہ نہیں دیتی، کیوں کہ عالمی میڈیا یہ راز فاش کر دیتا ہے کہ دی گئی امداد کا بیش تر حصّہ خورد برد ہو جاتا ہے اور متاثرین تک نہیں پہنچ پاتا۔ کمبل اور خیمے، متاثرین کی سردی دُور کرنے کی بجائے صاحبِ ثروت افراد کو حرارت پہنچاتے ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل ڈونرز نے شکایت کی کہ’’ پاکستانی حکومت اُنہیں اپنے منصوبوں سے متعلق مطمئن نہیں کرسکی۔‘‘ یہ بھی یاد رہے کہ ماہرین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں میں 500فی صد تک اضافے کی پیش گوئی کی تھی، لیکن ہمارے ہاں کسی نے اُن کی بات پر کان نہیں دھرے۔
دیکھا جائے، تو سیلابی بارشوں اور پاکستان کا ساتھ گزشتہ ستّر، پچھتر برس سے چلا آرہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، لیکن آج تک کسی حکومت نے سیلابی بارشوں کے منہ زور ریلوں پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، جس کی وجہ سے سیلاب ہر چار، پانچ سال بعد ہماری معیشت، معاشرت اور طرزِ حُکم رانی پر کاری ضرب لگا کر سمندر میں غائب ہو جاتا ہے۔
ہم ابھی اس سیلاب کے زخم سہلا رہے ہوتے ہیں کہ آسمان پر ایک بار پھر گھنگور گھٹائیں، کروڑوں افراد کو خوف سے لرزا دیتی ہیں، جب کہ حُکم ران کشکول کو پھر سے چمکانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف، چین، ہالینڈ اور دوسرے کئی ممالک نے سیلابی پانیوں پر قابو پا کر اس سے زرعی پیداوار بڑھانے میں کام یابی حاصل کی ہے، جب کہ اُنہوں نے سیلابوں پر قابو پانے کے لیے فنی مشاورت فراہم کرنے کی پیش کش بھی کر رکھی ہے۔
ہمارے اعلیٰ افسران ہالینڈ کی سیر و سیّاحت تو کر لیتے ہیں، لیکن کبھی نہیں سوچتے کہ اس مُلک نے سیلابوں پر کیسے قابو پایا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب، مریم نواز نے سیلابوں پر قابو پانے کے لیے مستقبل میں 80چھوٹے، بڑے ڈیمز بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جب کہ خیبر پختون خوا کے وزیرِ اعلیٰ، علی امین گنڈا پور نے کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کی کُھلے الفاظ میں حمایت کی ہے۔ دیکھتے ہیں، اِن اعلانات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ قوم ماضی میں بھی اِس طرح کے اعلانات سُنتی رہی ہے۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو............
پاکستان میں سیلابوں کی صُورتِ حال منیر نیازی کے اِس شعر کی مکمل تفسیر ہے، جس میں اُنہوں نے کہا تھا؎
’’اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو…مَیں ایک دریا کے پار اُترا، تو مَیں نے دیکھا۔‘‘ پاکستان اور سیلابوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ 1947ء میں بھی، جب پاکستان کو وجود میں آئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا، سیلابی بارشوں نے تباہی مچا دی تھی۔ اس کے بعد سیلابوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا، جو اب 2025ء میں اپنی انتہا تک پہنچتا نظر آتا ہے۔
پاکستان میں آنے والے نمایاں سیلابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ 1973ء میں مقبوضہ کشمیر کے دریاؤں میں زبردست طغیانی سے پاکستانی پنجاب میں سیلاب آگیا۔ 1992ء میں بھی بھارت اور پاکستان میں سیلاب آیا۔ 1993ء میں مون سون کی شدید بارشوں کے باعث دریاؤں میں سیلابی صُورتِ حال پیدا ہوئی۔ 1995ء کے جولائی کے وسط میں مون سون کی بارشوں نے تباہی مچا دی۔
مارچ 1998ء میں پاکستان کے جنوب مغربی حصّے میں دریاؤں کی طغیانی سے درمیانے درجے کا سیلاب آیا۔ خاص طور پر بلوچستان میں شدید بارشوں سے300 افراد جاں بحق، جب کہ25 ہزار افراد بے گھر ہوگئے۔ 2001ء میں اسلام آباد میں کلاؤڈ برسٹ ہوا، جس سے کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ 2003ء میں سندھ میں شدید بارشیں ہوئیں۔ کراچی میں دو روز کی مسلسل بارش نے شہر میں تباہی مچا دی۔ صوبہ سندھ میں 484 افراد جاں بحق اور4ہزار476 دیہات متاثر ہوئے۔ 2007ء میں کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے مون سون کی بارشوں سے شدید متاثر ہوئے۔
خیبر پختون خوا میں سیلاب سے130افراد ہلاک اور2 ہزار بے گھر، جب کہ بلوچستان میں8سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ 2009ء میں کراچی ایک بار پھر سیلابی بارشوں کی زد میں رہا۔ 2010ء پورے پاکستان کے لیے اِس لحاظ سے اچھا سال ثابت نہیں ہوا کہ اس سال مون سون کی ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئیں، جن میں کم از کم 2 ہزار افراد ہلاک اور 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ 2011ء میں سیلابی بارشوں نے ایک بار پھر سندھ کو اپنا نشانہ بنایا۔ اس میں361 افراد ہلاک اور53 لاکھ بے گھر ہوگئے۔ 2012ء میں خیبر پختون خوا، سندھ اور پنجاب میں بارشوں سے100 افراد جاں بحق ہوئے۔
اِسی طرح 2014, 2013ء اور2016 ء میں بھی سیلابوں نے پورے مُلک کو پریشان کیے رکھا، جب کہ 2017ء میں کراچی ایک بار پھر نشانہ بنا۔ 2019ء میں بھی یہی صُورتِ حال رہی۔ 2020ء میں کراچی میں 231ملی میٹر ہونے والی بارش سے 90 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ 2021ء اور 2022ء میں بھی مون سون کی بارشوں کا راج رہا۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں 1500افراد جاں بحق ہوئے۔ 2022ء میں یوں تو پورے پاکستان کو سیلاب نے متاثر کیا، لیکن سندھ میں زیادہ تباہی ہوئی، جہاں297 ارب کا زرعی نقصان رپورٹ ہوا۔
جولائی 2025ء میں سوات، گلگت، بلوچستان اور کے پی کے سے سیلابی بارشوں کا آغاز ہوا، جس کا دائرہ بعد ازاں پورے مُلک تک پھیل گیا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، صرف پنجاب میں32 سو سے زائد دیہات اور25 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔10 لاکھ افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔ کے پی کے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے ساتھ، انفرا اسٹرکچر بھی تباہ ہوگیا۔
پاکستان میں پہلا بڑا سیلاب 1950ء میں آیا۔ اس کے بعد اب تک کم و بیش30 سے زائد چھوٹے بڑے سیلاب آچکے ہیں۔ اگر تفصیل میں جائیں، تو شاید ہی کوئی سال ایسا ہو، جب سیلابی بارشوں نے تباہی نہ مچائی ہو۔ جیسے 1950، 55ء، 56ء، 57ء، 59ء، 73ء، 75ء، 76ء، 77ء، 78ء، 81ء، 83ء، 84ء، 88ء، 92ء، 94ء، 95ء اور پھر 2010ء کے بعد کے سیلاب۔ یعنی اب سیلاب ہماری زندگی کا حصّہ بن گئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے فوجی اور سِول حُکم رانوں میں سے کسی نے بھی ہر سال آنے والے ان سیلابوں پر قابو پانے کے لیے کوئی مربوط حکمتِ عملی تیار نہیں کی، بس ہر سیلاب کے بعد پوری دنیا سے مدد مانگنا ہی ہماری قومی حکمتِ عملی ٹھہری۔ کالا باغ ڈیم سے قطع نظر، اگر سیلابی بارشوں کا پانی جمع کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم ہی بنالیے جاتے، تو ہمیں ایسی صُورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا کہ سیلاب کا منہ زور پانی ایک ایٹمی قوّت کے حامل مُلک میں سب کچھ بہا کر لے جائے اور عوام کے محافظ ہیلی کاپٹر سے دیکھتے رہ جائیں۔
سیلاب کے نفسیاتی اثرات
بونیر، سوات، مینگورہ اور دیگر علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ایک ایسا پہلو دیکھنے میں آیا، جس کا اِس سے قبل کم ہی مشاہدہ ہوا تھا۔ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں سیلابی بارشوں نے تباہی مچائی، وہاں کے مکین شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، کیوں کہ اُنہیں یقین نہیں آتا کہ اُن کے ساتھ اچانک اتنا کچھ ہوگیا۔
اِس لیے اب خیبر پختون خوا میں میڈیکل ریڈ میں ماہرینِ نفسیات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ضلعی حکّام نے جس ایک اہم بات کی نشان دہی کی، وہ کے پی کے میں سیلابی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ 2022ء کے سیلاب میں ضلعی حکّام نے ایسی تمام تعمیرات گرانے کا حکم دیا تھا، لیکن تین سال گزرنے کے باوجود ان احکامات پر عمل نہ ہوسکا۔ واضح رہے کہ ریور پروٹیکشن ایکٹ کے تحت دریا کے اردگرد 200 فِٹ تک تعمیرات نہیں کی جاسکتیں۔
خیبر پختون خوا میں تباہ شدہ مکانات سے کیچڑ صاف کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، کیوں کہ عام افراد کے لیے ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے،جب کہ حکومت کی بھاری مشینریز، آمدورفت کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہونے کے سبب متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہیں۔
پھر یہ کہ اِن علاقوں میں سیلابی پانی کے ساتھ آنے والے بھاری پتھر ہٹانا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ماہرین کے مطابق، پہاڑوں پر موجود درخت کاٹنے کے سبب یہ بھاری پتھر کسی رکاوٹ کے بغیر لڑھکتے ہوئے آبادیوں سے جا ٹکرائے، جس کے نتیجے میں مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔