• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کیسا سیاسی شعور ہے، یہ کیسی حقیقی آزادی کی جنگ ہے، یہ کیسی سیاست ہے جس میں اپنی ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے علاوہ سب کے سب مشکوک ہیں۔ کس کو کس وقت غدار بنا دیا جائے، کس کو کس وقت ٹاؤٹ کا خطاب دے دیا جائے، کون کس وقت گالیوں اور نفرت کا شکار بن جائے، اس کا کسی کو علم نہیں لیکن باری سب کی آنی ہے۔ جس کو عدالت سزا دے وہ بھی غدار، وہی عدالت جس کو باعزت بری کر دے وہ بھی غدار۔ جو اس رائے سے اختلاف کرے وہ بھی غدار۔ ماسوائے ایک فرد کے کسی کی بات، کسی کی سوچ اور کسی کی قربانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ ہے آج کی تحریک انصاف اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ ہے آج کی تحریک انصاف کا سب سے بڑا المیہ۔ جو کل تک اپنے مخالف سیاسی رہنماوں اور اختلاف کرنے والے افراد کی ٹرولنگ پر خوش یا خاموش تھے اُن کو آج اپنے ہی سوشل میڈیا کی اُسی گالم گلوچ، اُسی جھوٹ، بہتان تراشی، بدتمیزی کا سامنا ہے۔ جو کل دوسروں کو غدار کہنے پر اپنے سوشل میڈیا کی’’طاقت‘‘پر خوش ہوتے تھے اُن کے لیے آج وہی سوشل میڈیا ناقابل برداشت ہو چکا۔ کسی کی قربانی، کسی کی رائے، کسی کی سوچ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر سوشل میڈیا نے کسی کو غدار بنا دیا تو پارٹی کا کوئی دوسرا رہنما اگر اس کے حق میں بات کرے گا تو پھر وہ بھی غداری کا مرتکب ہو جائے گا۔ صرف اور صرف عمران خان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والا وہ واحد شخص ہے جسکے خلاف کوئی بات نہ کی جاسکتی ہے نہ اُس سے کسی کو اختلاف کا حق حاصل ہے اور جسکی رائے چاہے وہ جتنی بار بدل جائے، چاہے جتنا بڑا یو ٹرن ہو جائے اُسے من و عن قبول کرنا اور اسی کے مطابق بات کرنا سب پر لازم ہے۔ باقی کسی کی خیر نہیں۔ اگرتحریک انصاف کے سوشل میڈیا اور اس کے یوتھٹیوبرزکی گالم گلوچ اور غداری کے فتوں سے بچنا ہے تو پھر جسے عمران خان پسند نہیں کرتا اُسے ناپسند کرنا اور اس کا اظہار کرنا لازم، جسے عمران خان بُرا بھلا کہے یا اُس پر چاہے جو الزام لگائے وہ سب دہرانا لازم ہے۔ لیکن پھر بھی دوسرا ہر کوئی مشکوک ہی رہے گا۔ سیاسی شعور کے نام پر عمران خان نے اپنے ووٹرز،سپورٹرز میں اتنی نفرت اور اس قدر منفی سوچ پیدا کردی کہ ایک طرف شاہ محمود قریشی دو سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد چند مقدمات میں بری ہونے پر بھی مشکوک ہیں تو دوسری طرف اُنہی عدالتوں سے عمر ایوب، شبلی فراز اور زرتاج گل جیسے،جنہیں دس دس سال کی قید کی سزائیں سنائی گئیں ، بھی مشکوک ہیں اور اُنہیں بھی غداری کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ نہ علی امین گنڈاپور کی عزت تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے ہاتھوں بچی ہوئی ہے نہ ہی چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر یا کسی دوسرے عہدیدار کو احترام دیا جاتا ہے۔ کئی رہنماوں کو درجنوں مقدمات کا سامنا ہے، بہت سوں کے کاروبار تک ٹھپ ہو گئے لیکن اُن کی پارٹی اور عمران خان سے وفاداری مشکوک ہی رہتی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اُن کی زبان کے شر، اُن کے جھوٹ، بہتان تراشی اور فتنہ انگیزی سے دوسرے کیا اُن کے اپنےبھی محفوظ نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اسے سیاسی شعور اور حقیقی آزادی کی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔ عمران خان کو اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے اُنہیں بھی یہ احساس ہو جائے کہ اُن سے کتنی بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اس کا مداوا کیسے ہو گا یہ کسی کونہیں معلوم ۔

تازہ ترین