• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں CEO کلب پاکستان اور ورلڈ CEO فورم کے سربراہ اعجاز ناصر نے سرینا ہوٹل اسلام آباد میںCEO سمٹ کا انعقاد کیا جس میں ملک کے مختلف شعبوں کے ماہرین، اسکالرز، معیشت دان، پارلیمنٹرین، سفارتکار اور کارپوریٹ سیکٹر کے CEOs نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس میں ملک کے 100کامیاب ترین CEOs کو ایوارڈ بھی دیئے گئے۔ کانفرنس کا عنوان ’’پاکستان کے مستقبل کی تشکیل نو‘‘ تھا۔ کانفرنس میں خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی، وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال، وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رضا حیات ہراج، وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر بلال اظہر کیانی، خصوصی سرمایہ کاری کونسل (SIFC) کے ڈاکٹر جہانزیب خان، یو اے ای سے عبداللہ زید گلاداری، پولینڈ، ترکی، مراکو، انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی، میانمار، فلپائن، آذربائیجان اور ترکمانستان کے سفیر، JAZZ کے سربراہ عامر ابراہیم، آئی بی اے کے ڈاکٹر اکبر زیدی، اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب اور دیگر مقررین نے کانفرنس میں اپنے مقالے پڑھے۔ مجھے پارلیمنٹرین اور اسٹینڈنگ کمیٹی خزانہ، کامرس، اکنامک افیئرز کے رکن کی حیثیت سے پالیسی میکرز کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی تقریر ’’Reimagining پاکستان کا مستقبل‘‘ پر معاشی تجاویز پیش کیں جسے میں آج قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ان تجاویز میں ملک میں جدید ٹیکنالوجی کا حصول، ڈیجیٹل ٹرانفارمیشن، ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچائو، معاشی استحکام، جدید تعلیم، بہتر گورننس، نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانا اور قومی یکجہتی شامل تھیں۔ میں نے بتایا کہ ملک کو مختلف بحرانوں سے نکال کر ترقی کی طرف لے جانے کیلئے ہمیں قرضوں پر انحصار کم کرکے خود انحصار معیشت بنانا ہوگی، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرکے ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہوگی، معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام ضروری ہے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ ہمیں ایکسپورٹ پر مبنی گروتھ اپنانا ہوگی، ٹیکسٹائل، فارما سیوٹیکل، سیاحت، انجینئرنگ، آئی ٹی، ایگریکلچر اور منرلز میں ویلیو ایڈیشن کرکے افریقہ، مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیائی ریاستوں میں نئی مارکیٹیں تلاش کرنا ہوں گی۔ حکومت کو ایکسپورٹرز کو مقابلاتی بنانے کیلئے بجلی اور گیس کی مقابلاتی نرخوں پر فراہمی اور ایکسپورٹ پر ٹیکسز کو ختم کرنا ہوگا۔ سندھ کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کو پورے ملک میں فروغ دینا ہوگا۔ بزنس میں آسانیاں پیدا کرکے آئی ٹی ایکسپورٹ کو 15 ارب ڈالر سالانہ تک لے جایا جاسکتا ہے، انڈسٹری اور یونیورسٹیوں میں تعاون بڑھانا ہوگا، زراعت کو انجن آف گروتھ بناکر ملک میں فوڈ سیکورٹی اور خطے کیلئے درآمدی سرپلس پیدا کرنا ہوگا جس کیلئے زرعی شعبے میں معیاری بیج اور جدید طریقے اپناکر ہم زرعی اجناس گندم، کپاس، چاول، گنا اور دالوں کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہوسکتے ہیں بلکہ خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ کرکے انہیں فوڈ سیکورٹی فراہم کرسکتے ہیں۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے، مہنگے درآمدی ایندھن فرنس آئل اور RLNG پرانحصار کم کرنا ہوگا اور متبادل توانائی شمسی، ہوا، پن بجلی اور تھرکول سے سستی اور صاف توانائی حاصل کرنا ہوگی۔ حکومت کو خسارے میں چلنے والے اداروں پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز اور ڈسکوز کی جلد از جلد نجکاری یقینی بنانا ہوگی اور انرجی کے شعبے میں اصلاحات لاکر گردشی قرضوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی تاکہ ناقابل برداشت مالی نقصانات کو کم کیا جاسکے۔ ان اقدامات کیلئے ملک میں سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔

میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پاکستان کو بلند گروتھ ماڈل پر منتقل ہونا ہوگا جس کیلئے کم از کم 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ ضروری ہے تاکہ ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع اور غربت میں کمی لائی جاسکے لیکن ہم جب بھی 4 فیصد جی ڈی پی گروتھ سے زیادہ گروتھ حاصل کرتے ہیں تو آزادانہ امپورٹ سے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی آجاتی ہے اور افراط زر بڑھ جاتا ہے جیسا کہ ماضی قریب میں ہوا جب افراط زر 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جس کو کم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کیا جو 22 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا جس سے حکومتی قرضوں پر سود کی ادائیگیاں ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئیں اور نجی شعبے کی مالی لاگت بھی دگنی ہوگئی جس نے ہماری پیداواری لاگت کو بڑھایا اور عالمی مارکیٹ میں ہم غیر مقابلاتی ہوگئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے افراط زر 38 فیصد سے کم ہوکر 5 سے 7 فیصد کی شرح پر آگیا ہے اور اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ بھی 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگئے ہیں تاہم بزنس کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ شرح سود سنگل ڈیجیٹ 9 فیصد پر لائی جائے۔ ہمیں ملکی معیشت کے اس نقص کو یکسپورٹس، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے کنٹرول کرنا ہوگا۔ میں نے اپنی تقریر میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس سال 38.8 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر بھیجیں جسکی وجہ سے ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک مدت کے بعد سرپلس ہوا ہے اور انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوںنے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی ہے، اسٹاک ایکسچینج ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ایک لاکھ 54 ہزار سے تجاوز کرچکا ہے۔ حالیہ پاک بھارت تنازع میں حکومت کی بہتر پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کا عالمی سطح پر نیا امیج ابھرا ہے جس کا اندازہ حالیہ SCO میٹنگ میں چین، روس، شمالی کوریا، آذربائیجان، ایران اور دیگر ممبر ممالک کی پاکستان کو خصوصی حیثیت دینا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو خصوصی پروٹوکول دیا اور پاکستان کیلئے جوابی ٹیرف 19فیصد کردیا جبکہ ہمارے مقابلاتی حریفوں بھارت، بنگلہ دیش، ویت نام اور کمبوڈیا کا ٹیرف ہم سے بہت زیادہ ہے۔ کم ٹیرف کے باعث پاکستانی ایکسپورٹرز امریکی مارکیٹ کا اضافی شیئرز حاصل کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ اہم اسٹرٹیجک پوزیشن اور معاشی ترقی کے مدنظر ہمیں ملک کے مستقبل کی تشکیل نو کرنا ہوگی۔

تازہ ترین