• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن پسندی کے دعوے اور مظلوم ولاچار اہلِ فلسطین

ہر سال 21 ستمبر کو ’’امن کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد دُنیا بَھر میں امن، برداشت، عدم تشدّد اور انسانی حقوق کی اہمیت اُجاگر کرنا ہے۔ اقوامِ متّحدہ نے 1981ء میں اِس دن کی بنیاد رکھی اور 2001ء میں اسے باقاعدہ طور پر جنگ بندی کے عالمی یوم کے طور پر تسلیم کیا۔ 

تاریخ شاہد ہے کہ افکار و نظریات کے فروغ کے نام پربرپا کی جانے والی جنگیں، فاشزم کے پردے میں اُٹھنے والی تحاریک اور طاقت، اقتدار یا معاشی وسیاسی غلبے کی خواہش کے نتیجے میں خفیہ یا علانیہ لڑائیاں ہی دُنیا میں بے امنی کی بنیادی وجوہ ہیں اور عشروں سے عدم استحکام اُن عالمی وعلاقائی قوّتوں کی اَشیرباد سے فروغ پاتا رہا ہے کہ جو دعوے تو امن و سلامتی اور استحکام کی کرتی ہیں، مگر عملی طور پر وہ اقدامات کرتی ہیں کہ جو ان کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنیں۔ 

سو، آج دُنیا کے کئی حصّوں میں جنگ و جدل، خُوں ریزی اور ظلم و ناانصافی اپنے عروج پر ہے۔ ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا اقوامِ متّحدہ اور عالمی طاقتیں دُنیا میں قیامِ امن کے ضمن میں واقعی سنجیدہ ہیں؟ یاد رہے، اقوامِ متّحدہ نے اپنے دیرپا ترقی کے اہداف کو امن، انصاف اور مضبوط اداروں سے منسلک کیا ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے یک سَر مختلف ہیں۔

عصرِحاضر کا سب سے بڑا انسانی المیہ فلسطین کی سرزمین پر جنم لے چُکا ہے، جہاں جاری اسرائیل کے وحشیانہ مظالم نے امن پسندی کی دعوےدار طاقتوں کے دُہرے معیار کو بے نقاب کردیا ہے۔ آج غزہ کے نہتّے عوام، بچّوں، خواتین، ادویہ سے محروم مریضوں اور تباہ حال بنیادی ڈھانچے کو دیکھ کر دل کانپ اُٹھتا ہے۔

فلسطین میں اقوامِ متّحدہ کے چارٹر کے برخلاف انسانی حقوق کی تمام شِقیں پامال کرتے ہوئے معصوم بچّوں تک کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے اور اسپتالوں، اسکولوں حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپس تک کونشانہ بنایا جا رہا ہے اور اِس ضمن میں دُنیا کے طاقت وَرممالک اسرائیل کی پُشت پناہی کر رہے ہیں، جب کہ اقوامِ متّحدہ محض قرار دادوں اورمذمتی بیانات تک محدود ہے۔ اسی طرح رُوس اور یوکرین کی جنگ، مشرقِ وسطیٰ کا بُحران اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم یہ واضح کرتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کو انسانی جانوں سے زیادہ اپنےمعاشی، دفاعی اور جغرافیائی مفادات عزیز ہیں۔

معصوم فلسطینی بچّوں کے لاشے اور اُن پر آہ و زاری کرتی اُن کے ماؤں کے آنسو پورے عالمِ انسانیت کو یہ بتلا رہے ہیں کہ اگر وہ دُنیا میں حقیقی امن چاہتے ہیں، تو اُس کی پہلی و بنیادی شرط انصاف اور مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔ فلسطین کے مظلوم شہریوں کو دہشت گرد اور اُن پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو اسرائیل کا حقِ تحفّظ قرار دینا، نفرت انگیز رویّوں کو جنم دینے کے مترادف ہے، جب کہ اس صُورتِ حال میں اقوامِ متّحدہ اور عالمی طاقتوں کے روایتی بیانات ’’امن کے عالمی دن‘‘ کے بنیادی فلسفے کی نفی ہیں۔

ہرسال 21 ستمبر کو ’’عالمی یومِ امن‘‘ کے موقعے پر دُنیا بَھر میں امن کی علامت کے طور پر کبوتروں، فاختائوں کو کُھلی فضائوں میں چھوڑا جاتا ہے اورجگہ جگہ شمعیں روشن کی جاتی ہیں، مگر سب سے زیادہ ضرورت اس اَمرکی ہےکہ غزہ میں جاری تاریخ کے بدترین مظالم کو فی الفور بند کروایا جائے۔ نیز، اقوامِ متّحدہ کے امن مشن کے اہل کار ظالم اسرائیلی افواج کو نہ صرف فلسطینی سرزمین سے نکال باہر کریں بلکہ عالمی عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیے گئے اِن ظالموں کو پابندِ سلاسل کیا جائے۔ 

علاوہ ازیں، فلسطینی بچّوں کو نشانہ بنانے والے صیہونی فوجیوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ یادرہے، اگراقوامِ متّحدہ اورعالمی طاقتیں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر جنگ زدہ علاقوں کے شہریوں کا درد و الم محسوس کرکے اُنہیں جانی و مالی تحفّظ سمیت اُن کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کریں گی، تو ہی دنیا میں حقیقی معنوں میں امن قائم ہوگا اور تب ہی امن کے عالمی دن کا حقیقی مقصد پورا ہوتا نظر آئے گا۔ یہاں یہ اَمربھی قابلِ ذکر ہے کہ کسی ایک مُلک میں جاری جنگ پوری عالمی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا، امن کا قیام کسی ایک مُلک کی ضرورت نہیں بلکہ اس سے پوری انسانیت کا مفاد وابستہ ہے۔

ہمارا دینِ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ قرآنِ مجید کی بنیادی تعلیمات میں انسانیت، رواداری اورعدل کومرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ ہمارے لیےعملی نمونہ ہے۔ دینِ اسلام نے ایک انسان کے قتل کوپوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے، لیکن مغربی میڈیا نے دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کرکے دُنیا کے سامنے دینِ حنیف کا غلط تاثر پیش کیا، جس کی وجہ سے دُنیا بَھر میں اسلامی معاشرے تعصب کا شکار ہوئے۔ 

تاہم، درحقیقت آج عالمی امن کو سب سے زیادہ خطرہ اِنہی طاقتوں سے ہے، جو انسانیت کے نام پر جنگیں مسلّط کرتی ہیں۔ دوسری جانب عصرِ حاضر میں کم زور معیشت اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی عالمی امن کےلیے خطرہ بن چُکی ہیں۔ قحط، سیلاب اور قدرتی آفات سے لاکھوں افراد متاثر ہورہے ہیں، جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ علاوہ ازیں، مصنوعی ذہانت (AI) اورسوشل میڈیا پروائرل ہونے والی جُھوٹی خبروں اور نفرت انگیز پراپیگنڈے نے بھی معاشرے میں تشدّد آمیز رویّوں اور تقسیم کو جنم دیا ہے۔

گویا آج کے انسان کو اندرونی و بیرونی دونوں محاذوں پر امن کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، ہونا تو یہ چاہیے کہ ’’عالمی یومِ امن‘‘ صرف تقریبات اور سیمینارز تک محدود نہ رہے، بلکہ محرومیوں اور تشدّد کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ واضح رہے، تعلیم، انصاف اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے بغیرامن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ 

امن قائم کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمّے داری ہے، جس کی ادائی سب پرلازم ہے۔ تو آئیے، ہم آج یہ عہد کریں کہ ہم نہ صرف دُنیا بَھر کے مظلوموں کے لیے آواز اُٹھائیں گے بلکہ اپنے دِلوں اور معاشرے میں بھی امن، برداشت اور عدل کے چراغ روشن کریں گے۔