• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کوئی وجہ توہو گی کہ پاکستان کے وزیر دفاع نے پرتگال کو ہمارے بدعنوان سرکاری افسروں کی جنت کہا ہے۔وہاں کی تیز شراب ،تھرکنے پر اکسانے والی موسیقی اور فٹ بال کا چرچا توشاید ہر بالغ نے سنا ہوگا،ہسپانیہ کی قربت کے سبب لزبن کے شمال میں فاطمہ نامی قصبہ بھی سمجھ میں آتا ہے جہاں ایک روایت کے مطابق تین کم سن چرواہوں نے حضرت مریم کو اپنے روبرو دیکھا تھا،ایسی ہی ایک زیارت گاہ ازمیر کی دشوار گزار پہاڑی پر مریمانے( مریم انے،انے بمعنی ماں) کے نام کی میں نے خود دیکھی تھی مگرسوال تو وہی ہے کہ پرتگال کے بینک سوئٹزر لینڈ سے زیادہ منافع دیتے ہیں یا بہت سے معاملات پوشیدہ رکھتے ہیں؟ باقی رہا بچوں کی شادیوں پر ان طاقت وروں کی جانب سے سلامی کے نام پر کروڑوں روپے لینا، کوئی انوکھی بات نہیں اب تو جب سے پانچ پانچ ہزار روپے کے نوٹ آئے ہیں،دولہا میاں کو نوٹوں کے ہار پہنانے کارواج ہی تقریباً ختم ہو گیا ہے،وگرنہ بہت سی مذہبی جماعتوں کے کارکن نوٹوں کے یہی ہار بنایا کرتے تھے۔بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو ان کے اتحادی ایک مولانا صاحب کی پہلی فرمائش یہی تھی کہ میری جماعت کے غریب کارکن نوٹوں کے ہار بناتے ہیں اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہدایت کریں کہ وہ روزانہ انہیں ایک کروڑ کے نئے کڑکڑاتے نوٹ فراہم کر دیا کریں۔پھر یہ فرمائش بڑھتی چلی گئی یا تو مولانا کے غریب کارکنوں کا کاروبار پھیل گیا یا انہوں نے ایسے نوٹوں کی گڈیاں بھی خاکم ’’کالے بازار‘‘میں بیچنی شروع کر دیں ۔آپ کو یاد ہوگا کہ ریٹائرڈ میجرجنرل نصیر اللہ بابر محض وزیر داخلہ نہیں تھے بی بی کو بہت پسند تھے ایک تو بی بی کو وزیر اعظم بن کر بھی بہت عرصہ حسرت رہی کہ ان کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ انہیں سلیوٹ نہیں کرتے تھے۔ مرزا صاحب چونکہ نصیراللہ بابر کے اے ڈی سی رہے تھے اس لئے وہ جب اونچی آواز میں انہیں یوں بلاتے ’’ادھرآ ئو میری بات سنو‘‘ اور وہ کہتے ’’یس سر‘‘! تو ہمارے آئی بی سے وابستہ جیالے شاگرد افضل شیخ بتاتے تھے کہ بی بی بعض چیزوں کو ترسے ہوئے بچوں کی طرح بہت خوش ہو جاتی تھیں دوسرے جب بی بی نے کابینہ کو بتایا کہ کہ نئے کرنسی نوٹ روزانہ فراہم کرنے کیلئے مولانا کا مطالبہ بڑھ گیا ہے تو جنرل بابر نے کہا تھا’’بی بی صاحبہ! مولانا کو اسٹیٹ بینک کی چابیاں دے دو وہ اندر جاکے روزانہ اپنے حسب منشا کڑ کڑ کرتے نوٹ نکال آیا کرے‘‘۔بہر طور طاقت وروں کی اولاد کی شادیوں پر سلامی کے موقع پر ہمارے باخبر صحافی ’’کڑکڑاتے نوٹ‘‘ اور ’’چمچماتی گاڑیوں‘‘ کی ترکیبوں کیساتھ پیپلز پارٹی کی اقتدار سے رخصتی کے منصوبے بنانیوالے صدر غلام اسحاق خان،مرزا صاحب یا ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی ملاقاتوں کو ریشہ دوانی کی بجائے ’’مسکوٹ‘‘ کہا کرتے پھر ایک تجربے کے بعد بی بی صدر مملکت ’’فاروق بھائی‘‘ کو لے آئیں تو عزت مآب سجاد علی شاہ بھی اس مسکوٹ میں شامل ہوگئے تب کچھ ایسا ہوا کہ عارف نظامی نے بھی لکھ دیا کہ بی بی کی حکومت اب چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے کی مہمان ہے پھر ہمارے شاگرد عزیز افضل شیخ ایوان صدر میں براجمان مظہر عارف یا قصور سعید مرزا سے توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے ہونٹوں پر لگے تالے اگر کھول نہیں سکتے تو پرانے تعلقات کی لاج نباہنے کو کوئی ’’چابی‘‘ اس قید خانے کے کسی دریچے سے باہر پھینک دیں گے میں تب انقرہ اردو چیئر پر تھا میں نے شاگرد عزیز سے کہا کہ ڈان کے کالم نگارارد شیر کاوس جی، فاروق بھائی اورارشاد احمد حقانی کے ساتھ ساتھ’’مسکوٹ‘‘ میں شامل ہیں اپنے باس رحمان ملک کو دونوں کے تازہ ترین دو،دوکالم پڑھا دو کہ کالم نگار کوئی راز اپنے اندر نہیں رکھ سکتا ۔تب میرا بیٹا احمد تمثال انقرہ کے ایمبیسی سکول میں پڑھ رہا تھا اس نے دو ایک دفعہ مجھ سے کہا بھی کہ آپ اردو میں موٹے موٹے لفظ کیوں لکھتے ہیں؟ مسکوٹ،نوشتہ دیوار، اقتدار کے قیدی،تب تمثال کولا،نان کباب اورآئس کریم کی وجہ سے موٹاپے کی طرف مائل ہورہا تھا۔ وہ میرے استاد اے بی اشرف کا بھی لاڈلا تھا وہ اسے کہتے Take care of you تو وہ پوچھا کرتا تھا کہ انکل اشرف میرے موٹاپے کی طرف تو اشارہ نہیں کر رہے تھے؟ تب میں اسے اس کے ایک اور انکل رئوف شیخ کی شادی کا لطیفہ سنایا کرتا تھا جب ہمارے ایک استاد سید افتخار حسین شاہ نے اسے سہرا باندھ کے کہا:آج سے آپ کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے اور ایک بڑے لفافے کے اندر سے ایک درمیانہ لفافہ نکالا اور اسکے اندر سے ایک چھوٹا لفافہ نکال کے بیس روپے بطور سلامی دئیے مگر رئوف کے خوش مزاج بھائی محمد نواز نے دس دس روپے کے کڑکڑ کرتے نوٹوں کا ہار پہنایا تو ایک بے تکلف دوست (خ۔ ش) نے دولہا سے گلے ملتے ہوئے دو نوٹ کھسکا لئے دولہا نے شور مچا دیا،بعد میں نوٹ سرکانے والے دوست ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو کر مذہبی پروگرام کرنے لگے اور میں نے دولہا سے پوچھا تمہیں کیسے پتا چلا تو اس نے کہا میں شیخ ہوں میں نے محسوس کر لیا تھا کہ ہار کا وزن کچھ کم ہو گیا ہے۔یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے انگلستان میں مقیم اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد تمثال سے کہا کہ تمہارے انقرہ کے اسکول میں پرتگال کی ایک پیاری بچی پیتریشیاپڑھتی تھی اس سے پوچھو کہ پرتگال کے کسی ادیب کا نام تو بتائے میں اس کی کتابیں پڑھوں،بیٹے نے جواب دیا کہ اب وہ لندن میں ہے اور پرتگال کے الورو کونہل کی وہ کتابیں بھی پڑھتی ہےجو گیارہ برس جیل میں رہنے سے اکتا کر جیل توڑ کے فرار ہونے کے بعد اس نےمینوئل تیاگو کے قلمی نام سے لکھی ہیں۔ہمارے ہاں بعض مصنفوں کے بارے میں یہ تو کہا جاتا ہے کہ وہ مشکل دنوں میں فرضی ناموں سے لکھتے ہیں تاہم اتنے بہت سے ناول لکھ لیں اور کوئی اشارہ نہ کریں کہ یہ ہم ہیں۔کیا پتہ ہمارےوزیر دفاع اور ان کے ’’معتوب‘‘افسر انہی ناولوں کے شوقین ہوں۔

تازہ ترین