عبدالرزاق باجوہ، لاہور
ویسے تو دُنیا کے ہر معاشرے ہی میں عزت و احترام، شرم وحیا کا تصّور کسی نہ کسی صُورت رائج ہے۔ تاہم، مذہبِ اسلام میں’’عورت‘‘(صنفِ نازک) کو خاص طور پر تقدّس واحترام کا حامل مانا جاتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں ماں، بہن اور بیٹی کو نہ صرف عزّت کی نگاہ سے دیکھا بلکہ اُن سے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ایک حیا دار معاشرے کی مائیں ہی ایسے شیر دِل اور بہادر جوان پیدا کرتی ہیں کہ جو محمّد بن قاسم بن کر اپنی بہنوں کی عِصمت کی حفاظت کے لیے میدان میں اُترتے ہیں اُور پھر اُس خطّے کا تاریخ و جغرافیہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج کی ماؤں کو تو سوشل میڈیا ہی سے فُرصت نہیں۔ اُنہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنا کتنا قیمتی وقت اسکرولنگ کی نذر کررہی ہیں۔ یاد رہے، ہر بچّہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے، مگر اولاد کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں والدین کی غفلت و لاپروائی بعض اوقات اُس کی فطرت مسخ کرکے اُسےجرائم کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔
ماضی میں جب ایک ماں اپنے بچّےکو لوری دیتےسُلاتی، تو اُسے اپنے اعلیٰ کردار سے دُنیا کے لیے مثال بننے کا درس دیتی اور پھر وہ بچّہ جوان ہو کرانسانیت کےلیے راحت و سکوں کا باعث بنتا کہ اگر ایک ماں کی سوچ اور رویّہ مثبت ہو، تو بچّے بھی عموماً مثبت کردارو عمل کے حامل ہوتے ہیں۔ پر آج سوشل میڈیا کی لَت نے نہ صرف مائوں بلکہ گھروں کے ماحول اور فضا ہی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
ماضی میں اولاد کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں اسلامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھا جاتا تھا، جب کہ آج مائوں کی توجّہ قرآنِ پاک اور دینی و اصلاحی کُتب کی بجائے ہمہ وقت موبائل فون پر مرکوز ہے، جب کہ عصرِ حاضر کا میڈیا جو کچھ دِکھا اور سِکھا رہا ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔
گرچہ جدید ٹیکنالوجی کے فوائد و ثمرات سے انکارممکن نہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ اصلاح کی بجائے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے اور موجودہ نوجوان نسل کے قول و فعل اور رویّوں سے بھی اُن کے مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کا دیوالیہ نکل چُکا ہے۔ اخلاقی اقدار کی جگہ بد اخلاقی، بد تہذیبی اور تلخ رویّوں نے لے لی ہے اور شرم و حیا کی تو جیسے تدفین ہی ہوگئی ہے۔ نسلِ نو کی بات کی جائے، تو بیش تر نوجوان بیمار ذہنیت کے شکار دکھائی دیتے ہیں اور اِس کی ایک زندہ مثال اِن کا بائیک چلاتی بچیوں کو دیکھتے ہی ذومعنی جُملےکَسنا، شورشرابا اور ہوٹنگ وغیرہ کرناہے۔
اس ضمن میں ایک ناخوش گوار واقعہ ہمارے ایک دوست میاں خُرّم رؤف کے سامنے پیش آیا۔ واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل کے لفنگے نوجوان کیا گُل کِھلا رہے ہیں۔ واقعہ دوست ہی کی زبانی پیش کر رہے ہیں۔ ’’مَیں کسی کام کے سلسلے میں سرکلر روڈ سے گزر رہا تھا کہ اچانک مُجھے اپنی عقب سے ایک نسوانی آواز سُنائی دی، ’’اوئے بےغیرتو! جے میرا کوئی بھرا ہوندا تے او توانوں سبق سکھاندا۔‘‘ (اوئے بےغیرتو! اگر میرا کوئی بھائی ہوتا، تو وہ تمہیں سبق سکھاتا)۔
مَیں نے بائیک کی رفتار کم کر کے پیچھے مُڑ کر دیکھا، تو ایک لڑکی، جس کی عُمر 15برس کے لگ بھگ ہوگی، موٹر بائیک چلاتے ہوئے آ رہی تھی اور اُس کے عقب سے دو موٹر سائیکل سوار لڑکے، جن کی عُمریں تقریباً 20برس ہوں گی، برآمد ہوئے، جو شیطانی ہنستی ہنستے ہوئے تیزی سے اُس کے پاس گزر گئے۔ مَیں نے آواز دے کر اُنہیں روکنے کی کوشش کی، تو انہوں نے موٹر سائیکل کی اسپیڈ مزید بڑھا دی۔ مَیں نے اُن کا تعاقب شروع کیا، تو وہ مُجھے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر رُک گئے۔ اتنی دیر میں وہ بےچاری لڑکی بھی ہمارے پاس پہنچ گئی۔
اُس کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ اُس نے روتے ہوئے مُجھے بتایاکہ ’’انکل! یہ دونوں لڑکےکافی دیرسے میرا پیچھا کرکےمُجھے ہراساں کررہے تھے۔ مَیں نہایت مجبوری میں گھر سے باہر نکلتی ہوں۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے اور میرے ابو بیماری کے سبب چارپائی سے اُٹھ تک نہیں سکتے۔ مَیں نے مجبوراً بائیک چلانی سیکھی اور ابھی میڈیکل اسٹور سے اپنے ابو کی دوا لینے جا رہی ہوں۔‘‘ مَیں نے اُس بچّی کو تسلی دے کرخاموش کروایا اور پھر اُن دونوں لڑکوں کی طرف متوجّہ ہوا، جو اپنے حلیے ہی سے لوفر دکھائی دے رہے تھے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ ’’ بیٹا! آپ اس معصوم لڑکی کو کیوں تنگ کررہے ہیں؟‘‘
ابھی میری زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ اُن میں سے ایک نےتیزی سے کہا کہ ’’مولوی صاحب! اَسی توانوں تے کُج نہیں آکھیا،تسی جائو، اپنا کم کرو۔‘‘ (مولوی صاحب! ہم نےآپ کو توکچھ نہیں کہا، آپ جائیں، اپنا کام کریں) لڑکے کی اس بدتمیزی پر مُجھے شدید غصّہ آیا اورمَیں نے بائیک سے اُتر کر ایک زوردار طمانچا اُس کی منہ پر جڑ دیا، جس پر وہ دونوں غصّے سے لال پیلے ہو کر مُجھے دھمکیاں دینے لگے کہ ’’ہم تُجھے دیکھ لیں گے۔ تم جانتے نہیں کہ ہم کون ہیں۔‘‘
معاً، اُن میں سے ایک نے اپنی پینٹ کا بیلٹ نکال کر مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی، لیکن پھر جُوں ہی مَیں نے اپنا لائسنس یافتہ پسٹل نکال کراُس کا چیمبر کھینچا، تو دونوں دُبک گئے۔ اس کے بعد مَیں نے دونوں کی ٹھیک ٹھاک دُھلائی کی۔ اسی اثناء چند مزید لوگ ہمارے اردگرد جمع ہوگئے اور جب اُنہیں سارے واقعے کا علم ہوا، تو انہوں نے بھی حسبِ استطاعت لڑکوں کی دُھلائی کے’’کارِخیر‘‘ میں حصّہ ڈالا۔
مَیں تو اُن لفنگوں کو پولیس کے حوالے کرنے اور اُن کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے بھی مُوڈ میں تھا، لیکن وہ لڑکی کہنے لگی کہ ’’انکل! رہنے دیں۔ اِن کےلیےاتنا ہی کافی ہے۔ اگر ان میں ذرا بھی غیرت ہوئی، تو یہ آئندہ کسی نامحرم لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔‘‘ پھر اُن دونوں لڑکوں نے ہاتھ جوڑ کر اُس لڑکی سے معافی مانگی اور اُس کےبعد ہی لوگوں نے اُن کی جان بخشی۔‘‘
مذکورہ بالا واقعہ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بائیک چلانے والی بیش تر لڑکیاں اور خواتین انتہائی مجبوری کےعالم میں گھروں سے نکلتی ہیں اور ہمیں اُن کے ساتھ نہ صرف عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے، جب کہ بائیک چلانے والی خواتین کو بھی باپردہ اور ہیلمٹ پہن کر سفر کرنا چاہیے، جب کہ ٹریفک پولیس کو ایسے لفنگوں اور آوارہ گرد افراد پر کڑی نظر رکھنی چاہیے کہ جو خواتین کی ایذا رسانی کا باعث بنتے ہیں۔ نیز، نازیبا حرکات کرنے پر انہیں قانون کی گرفت میں لانا چاہیے۔
دوسری جانب اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ بن جائے، ہماری بیٹیاں شرم وحیا کی پیکرہوں اور ہمارے جوان زن، زر اور زمین کی ہوس کے پجاری بننے کی بجائے شرفِ انسانیت کے عالی مقام پر پہنچ جائیں، تو ہمیں قرآن و سنّت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے بچّوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا ہوگا۔ آج دُنیابھر میں پائی جانے والی اضطرابی کیفیت سے نجات کا واحد حل اسلامی اقدار و روایات پر عمل پیرا ہونے ہی میں پوشیدہ ہے اور اسی صُورت ہم دُنیا و آخرت میں کام یاب اور سرخ رُو ہوسکتے ہیں۔