سفرنامہ ایک مقبولِ عام صنف ہے، جس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ، علاقے، شہر یا مُلکوں میں گھومنے پِھرنے والا شخص اپنے جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات میں دوسروں کو بھی شامل کرتا ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے باعث بہت سے مصنّفین دورانِ سفر پیش آنے والے واقعات کو چٹ پٹا بنا کر بھی پیش کرتے ہیں۔ بہرحال، سفرنامے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ انسان بے چین واقع ہوا ہے۔ زندگی کی یک سانیت اسے بے زار کردیتی ہے، اِسی لیے لوگ ہمیشہ سے سفر کرتے اور اس کی رُوداد لکھتے رہے ہیں۔
اگر اُردو کے پہلے سفرنامے کی بات کی جائے، تو وہ یوسف خان کمبل پوش کا ’’عجائباتِ فرنگ‘‘ ہے جو 1847ء میں لکھا گیا۔ کسی بھی صنف میں اوّلیت کا سہرا خاصّے کی چیز ہوتا ہے۔ اِسی لیےمحقّقین نے نہ صرف اوّلین قلم کاروں کو ڈھونڈ نکالا، بلکہ یہ فیصلہ بھی ہوچُکا کہ اُردو کی اوّلین خواتین ناول نگار، افسانہ نگار، صحافی اور شاعرہ کون تھیں۔لیکن اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار کے حوالے سے تاریخی حقائق توڑ مروڑ کے پیش کرنے کے ساتھ، مسخ بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
اُردو سفرنامہ نگاری سے متعلق لکھی گئی بہت سی کتابوں میں نازلی رفیعہ سلطان بیگم کو اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار قرار دیا گیا ہے۔ نازلی بیگم، عطیہ فیضی کی چھوٹی بہن تھیں۔ نواب خاندان سے تعلق رکھنے والی، نازلی رفیعہ سلطان نے بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں یورپی ممالک کی سیر کی۔ اس سفر میں اُن کے ساتھ اُن کے والد، بھائی، بہن عطیہ فیضی سمیت سات افراد تھے، جس میں ایک ملازم اور ایک خادمہ بھی شامل تھیں۔اس سفر کا آغاز اپریل1908ء میں ہوا۔
جب کہ کئی یورپی ممالک کا دورہ مکمل کرکے اکتوبر 1908ء میں یہ قافلہ واپس بمبئی پہنچا۔دورانِ سفر وہ گھر والوں اور عزیزوں کو خطوط لکھ کر خیریت سے آگاہ کرتیں اور سفر کی روداد لکھ کر بھیجتی رہیں۔ ان ہی خطوط کو اُن کی بہن، زہرا فیضی نے مرتّب کیا اور یہ روداد ’’سیرِ یورپ ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔کتاب کے سرِورق پر’’سفرِ یورپ کا روزنامچہ‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔
پوری کتاب میں کہیں بھی اردو کی اوّلین خاتون سفرنامہ نگار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔نازلی رفیعہ سلطان’’تمہید‘‘ میں لکھتی ہیں۔’’اصل میں یہ وہ خطوط ہیں کہ جو مَیں نے اپنے بزرگوں کے نام’’ سیرِ یورپ‘‘ کے حالات کے لکھے ہیں۔اس میں نہ عبارت آرائی ہے، نہ قافیہ پیمائی۔صاف سیدھی عبارت ہے۔‘‘
انیسویں صدی کی چند اہم کتابوں میں ہمیں اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار کے طور پر والیٔ بھوپال، نواب سکندر جہاں بیگم کا نام واضح طور پر نظر آتا ہے۔اس کے باوجود بہت سے مصنّفین نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے نازلی رفیعہ سلطان کو اوّلیت دی ہے۔ اِس ضمن میں ایک اہم نام تمغۂ امتیاز یافتہ معروف مصنّف، مرزا حامد بیگ کا ہے۔ اُن کی ایک اہم کتاب’’اردو سفرنامے کی مختصر تاریخ‘‘ ہے، جو پہلی بار 1999ء میں شائع ہوئی، جس میں اُنہوں نے نازلی رفیعہ سلطان کو اردو کی پہلی سفرنامہ نگار خاتون قرار دیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں۔’’نازلی رفیعہ سلطان کا سفرنامہ’’سیرِ یورپ‘‘1908ء میں شائع ہوا۔یہ سفرنامہ، سفرِ یورپ کے دوران ہندوستان میں قیام پذیر بزرگوں کو لکھے گئے خطوط پر مشتمل ہے، جب کہ اِس سفرنامے کی دوسری نمایاں پہچان نسوانی اندازِ تحریر ہے۔‘‘اِسی طرح ایک خاتون اسکالر نے اپنے پی-ایچ۔ ڈی کے تحقیقی مقالے’’خواتین کے اردو سفرناموں کا فنی و مشاہداتی مطالعہ‘‘میں’’سیرِ یورپ‘‘ کی بنیاد پر نازلی بیگم کو اردو کی پہلی سفرنامہ نگار قرار دیا ہے۔
یہ مقالہ2007ء میں مکمل ہوا۔اِس مقالے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اردو کی پہلی سفرنامہ نگار خاتون، نازلی رفیعہ سلطان کو تلاش کرنے کا اعزاز اُنہی محقّقہ کو حاصل ہوا۔انجمن ترقّیٔ اردو نے2011ء میں یہ مقالہ’’خواتین کے اردو سفرناموں کا تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع کیا، جس کا دیباچہ انجمن کے معتمد، جمیل الدّین عالی نے لکھا تھا۔ اِنہی محقّقہ نے اِسی موضوع کے تسلسل میں ایک اور تحقیقی کتاب’’خواتین کے اردو سفرنامے(2000ء سے 2012ء تک)‘‘ لکھی اور اُس میں بھی یہ بات دُہرائی کہ اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار کی تلاش کا کارنامہ اُن کے سر ہے۔
اس کتاب کا دیباچہ ادبی شخصیت ڈاکٹر جاوید منظر نے لکھا۔ وہ کہتے ہیں۔ ’’خواتین کے سفرنامے میں ڈاکٹر صدف فاطمہ نے یہ اہم کارنامہ بھی انجام دیا کہ اردو زبان و ادب کی پہلی خاتون کو دریافت کیا، جنہوں نے منظوم سفرنامہ تحریر کیا۔‘‘یہاں یہ تصحیح ضروری ہے کہ نازلی بیگم کا سفر نامہ اردو کا پہلا سفرنامہ تھا اور نہ ہی یہ منظوم شکل میں لکھا گیا، بلکہ یہ روزنامچے کی شکل میں ہے۔
سفرنامہ نگاری کے حوالے سے ایک اور کتاب بھارت سے شائع ہونے والی’’آزادی کے بعد اردو سفرنامہ‘‘ ہے، جس کے مصنّف سعید احمد ہیں۔یہ کتاب 2012ء میں شائع ہوئی۔ مصنّف لکھتے ہیں۔’’اردو سفرنامے کے ارتقاء کو تیز تر کرنے میں بیسویں صدی کے نصف اوّل کی خواتین سفرنامہ نگاروں نے اہم کارنامہ انجام دیا۔اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار ہونے کا شرف نازلی رفیعہ سلطان بیگم کو حاصل ہے۔‘‘
یہ تاریخی غلطی اب درست ہوجانی چاہیے کہ اردو کی پہلی سفرنامہ نگار نازلی بیگم نہیں، بلکہ والیٔ بھوپال، نواب سکندر جہاں بیگم ہیں، جو1860ء سے1868ء تک بھوپال کی حُکم ران رہیں۔ اُنہوں نے ملکہ وکٹوریہ کے نمائندوں سمیت ایک بہت بڑے قافلے کی صُورت سفرِ حج کیا تھا اور قلمی صُورت میں اس سفر کی روداد لکھی تھی۔ اس سفر میں بھوپال کی پہلی نواب خاتون، قدسیہ بیگم (والدہ سکندر بیگم) اور فارن سیکریٹری شملہ اور اُن کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ یہ بحری بیڑا دو جہازوں پر مشتمل تھا۔
جدہ میں پڑاؤ کے بعد مکّہ مکرمہ تک اِس قافلے نے مال و اسباب کے ساتھ سات سو اونٹوں پر سفر کیا تھا۔یہ سفرنامہ’’تاریخ وقائعِ حج‘‘ کے نام سے 1863ءمیں لکھا گیا تھا۔ انیس ابواب پر مشتمل یہ سفر نامہ 84صفحات پر مبنی ہے۔یہ ایک ریاست کی نواب خاتون کا سفرنامہ ہے، جنہیں حجاز میں اُسی خصوصی حیثیت سے نوازا گیا، جو شاہوں کے منصب کا تقاضا ہے۔ نواب سکندر جہاں بیگم کی شریفِ مکّہ سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا احوال بھی ہے اور شاہی آداب و اطوار کا ذکر بھی۔ حج کے اِس سفر میں عربوں کے رہن سہن اور پہننے اوڑھنے کا تذکرہ بھی ہے اور مکّہ کے بدلتے موسموں کا ذکر بھی۔
اس سے قبل اردو میں سب سے پہلا حج کا سفرنامہ یا حج نامہ، بہار کے صوفی بزرگ اور صاحبِ دیوان شاعر، سیّد شاہ عطا حسین فانی گیاوی نے لکھا تھا، جس کا نام’’دید مغرب المعروف بہ ہدایت المسافرین‘‘ تھا۔ یہ حج نامہ 1848ء سے 1850ء کے درمیان لکھا گیا، مگر فانی گیاوی کا یہ حج نامہ کبھی شایع نہ ہوسکا۔نواب سکندر جہاں بیگم، بھوپال کی دوسری خاتون حُکم ران تھیں، جنہیں اردو زبان سے عشق تھا۔ اُنہوں نے ریاستی احکامات اردو میں جاری کیے۔’’مطبع سکندری‘‘ کا قیام اُن کا اہم کارنامہ ہے۔
وہ شعراء اور ادباء کی سرپرستی کرتیں اور اُنہیں بھوپال آنے کی دعوت دیتیں۔بارہا چاہا کہ غالب، بھوپال میں رہنا منظور کریں، لیکن مرزا نوشہ دلّی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے، لیکن نیاز مندی مسلسل جاری رہی۔ یہی وجہ تھی کہ غالب نے اپنے کلام کا نسخہ خود تصحیح کرکے سکندر بیگم کے ماموں، میاں فوجدارمحمّد خاں کےحوالے کیا، جو بھوپال کے کتب خانے کی زینت بنا۔ یہ نسخہ ایک طویل عرصے بعد کتب خانے سے دریافت ہوا اور’’ نسخۂ حمیدیہ‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔
ایسا ہوسکتا ہے کہ والیٔ بھوپال، سکندر جہاں کا سفرنامہ’’تاریخ وقائعِ حج‘‘ محقّقین کی نظر سے چُوک گیا ہو اور اِسی لیے اُنہوں نے’’سیرِ یورپ‘‘ کو اوّلیت دی، لیکن تواتر کے ساتھ ایک ایسی تاریخی غلطی دہرائی جا رہی ہے، جس کے واضح اشارے ہمیں اردو کی چند اہم کتابوں میں با آسانی مل جاتے ہیں۔’’آئینِ سکندری‘‘ کے دیباچے میں بھوپال کی چوتھی اور آخری فرماں روا، نواب سلطان جہاں بیگم لکھتی ہیں۔
’’حج کے بعد اُنھوں(سکندر جہاں بیگم) نے ایک سفرنامہ لکھا، جو اردو میں شائع نہیں ہوا، لیکن مسٹرولیم ولبی صاحب، پولیٹیکل ایجنٹ بھوپال کی خاتونِ محترم نے مسوّدے سے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کردیا۔‘‘سکندر بیگم کے اِس قلمی سفرنامے کی صرف دو کاپیاں اردو میں لکھی گئیں۔ ایک مسز ڈورانڈ کے لیے اور دوسری لیفٹینینٹ کرنل ویلو کے لیے، جو برطانوی حکومت کے نمائندے تھے۔ اردو میں لکھا گیا یہ سفرنامہ، مسز ولیم ولبی نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا اور1870ء میں ولیم اچ الن و کمپنی واٹر لو(برطانیہ) نے اسے شائع کیا اور اسے ملکہ وکٹوریہ کو بھی پیش کیا گیا۔
سفرنامے کی تاریخی حیثیت مدّ ِنظر رکھتے ہوئے2008ء میں اِسی انگریزی ترجمے کو ایک بار پھر مرتّب کرکے شائع کرنے کا اہتمام ہوا۔ ناٹھنگم ٹرینٹ یونی ورسٹی، برطانیہ کی سینیئر لیکچرار، سیوبھان لمبرٹ نے انڈیانا یونی ورسٹی پریس سے اسے شائع کیا،جس کا نام ہے۔’’A Princess's Pilgrimage, Nawab Sikandar Begum's A Pilgrimage to Mecca ۔‘‘ڈھائی سو صفحات پر مشتمل انگریزی زبان میں لکھی گئی اِس کتاب میں سفرنامے کا سال1863ء بتایا گیا ہے۔
’’تاریخ وقائعِ حج‘‘ کا ایک اور تذکرہ ہمیں مشہور مستشرق ،گارساں دتاسی کے مقالات( حصّہ اوّل) میں بھی، جو 1870ء سے 1873ء تک پر مشتمل ہے، ملتا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔’’آپ صاحبوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اردو ادب کی ترقّی کی رفتار سُست ہوگئی ہے۔نہ صرف اردو جرائد کی تعداد، ہندی جرائد کے مقابلے میں زیادہ ہے بلکہ اور دوسری مطبوعات بھی اردو کی زیادہ شائع ہوئی ہیں۔
بیگم صاحبہ بھوپال نے اردو میں اپنے سفرِ حجاز کے حالات لکھے ہیں اور انگریزی میں بھی ان کا ترجمہ نہایت آب و تاب سے شائع ہوا ہے۔‘‘ 1979ء میں قدسیہ قریشی نے دہلی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ اُن کے مقالے کا موضوع ’’اردو سفر نامے، انیسویں صدی میں‘‘تھا۔1987ء میں مقالہ کتابی صُورت میں شائع ہوا اور اردو سے دل چسپی رکھنے والے حلقوں میں کافی معروف ہوا۔ اِس کتاب میں’’تاریخ وقائعِ حج‘‘ کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواب بیگم نے قلمی صُورت میں سفرنامے کی دو کاپیاں لکھی تھیں۔
سکندر جہاں بیگم کے اہم سرکاری عمائدین کے ساتھ کیے گئے اِس سفر کے احوال میں زیارت گاہوں کا تفصیلی ذکر اور عربوں کے حالات پر تاثرات اِس سفرنامہ کی اہمیت بڑھاتے ہیں۔سفرنامہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے دَور میں عربوں کا رہن سہن، نواب بیگم کو کچھ خاص نہیں بھایا تھا۔ اُنہوں نے لکھا۔’’مکّہ شریف میں ایک قلعہ ہے۔ اُس پر توپیں چڑھی ہیں، مگر توپیں میلی اور سامانِ جنگ خراب ہے۔تُرک لوگ بہت میلے کپڑے رکھتے ہیں۔
مَیں نہیں جانتی کہ جس وقت وردی پہنتے ہیں اور قواعد کرتے ہیں، اُس وقت خوب دریس معلوم ہوتے ہیں یا نہیں، حالاں کہ اپنے گھروں میں بڑے میلے کچیلے کپڑوں سے رہتے ہیں۔ اونٹ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ گائے، بیل اور بکری، بھیڑ شاید اِس قدر ہوں گے، جس قدر ہندوستان میں ہیں، مگر دنبے زیادہ ہیں، بھینسیں نہیں ہیں۔ گھوڑے بہت عُمدہ اور قیمتی ہیں، مگر سازو سامان اُن کے ویسے نہیں ہیں اور نہ وہاں کے لوگ اچھے سوار ہیں، مگر سُنا ہے کہ تُرک اچھے سوار ہوتے ہیں۔‘‘
اُس دَور میں عربوں کے ہاں خوشی کی تقریبات کس نوعیت کی ہوتی تھیں، اُسے کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔’’مکّہ شریف کے لوگ ناچنا گانا نہیں جانتے، مگر اکثر عورتیں سیٹی اور تالی بجاتی ہیں اور انگلیاں چٹخاتی ہیں(چٹکی بجانے کا انداز)۔تقریبِ نکاح میں بیبیاں ہنسنے قہقہے لگانے کے ساتھ گیت گاتی اور ناچتی ہیں۔لیکن یہ دونوں باتیں ایسی بُری طرح سے کرتی ہیں کہ ان کی سُننے اور دیکھنے سے کسی کو کچھ لُطف نہیں ملتا بلکہ اور پریشان خاطر ہوتا ہے۔‘‘
اِس سفرنامے کا مطالعہ ہمیں نہ صرف بھوپال کی فرماں روا کے ذوق اور مشاہدے کی داد دینے پر مجبور کرتا ہے بلکہ یہ اُس دَور کی یادگار بھی ہے، جب عرب کے صحراؤں میں تیل کا خزانہ دریافت نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں ہندوستان کی مال دار اور اعلیٰ ذوق و شوق کی علم بردار، حُکم ران خاتون کا مشاہدہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
حج کا یہ سفر فروری اور مارچ کے مہینوں میں کیا گیا۔ اس دَوران مکہ شریف میں موسم مستقل تیور بدلتا رہا، جس سے مسافروں کو کالرا، سینے اور پیٹ کے دیگر امراض نے گھیرے رکھا۔ سکندر بیگم موسم کے حوالے سے لکھتی ہیں۔’’مہینے فروری اور مارچ میں تا قیام میرے مکّہ شریف، سردی رہی۔ حالاں کہ اِن دنوں میں ہندوستان میں گرمی ہوا کرتی ہے، لیکن وہاں کے آدمیوں نے مجھے کہا تھا کہ اِس موسم میں اٹھارہ یا انیس برس سے ایسے سردی نہیں ہوئی، بجز گرمی شدید کے، جیسے آگ برستی ہے۔جب تک مَیں وہاں رہی، اگر دو روز گرمی ہوتی، تو روز بادل رہتے اور بعض اوقات ایک گھنٹے تک پانی برستا رہتا تھا۔اور ایک دن اولے بھی پڑے تھے۔‘‘
اِس قلمی سفرنامے کی کھوج میں معلوم ہوا کہ اِس کا ایک مخطوطہ رضا لائبریری، رام پور میں محفوظ ہے۔خوش قسمتی سے اِس نادر سفرنامے کا ایک مکمل عکس ہمارے پاس بھی محفوظ ہے۔ سفرنامے کی ابتدا میں تمہید لکھی ہے، جس میں سفر کی تاریخ موجود ہے۔ اردو حروفِ تہجّی میں لکھی گئی یہ تاریخ 1863ء یا 1864ءکو ظاہر کرتی ہے۔بہرحال، یہ سفرنامہ 1863ء میں لکھا گیا ہو یا 1864ء میں، والیٔ بھوپال، سکندر جہاں بیگم اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار ثابت ہوتی ہیں، کیوں کہ نازلی بیگم کا سفرنامہ’’سیرِ یورپ‘‘(1908ء)کم از کم چوالیس برس بعد کی تصنیف ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سفرناموں کے ضمن میں بھارت سے شائع ہونے والی دو اہم تصانیف میں نواب سکندر بیگم کے سفرنامے کا ذکر تو موجود ہے، لیکن ڈاکٹر قدسیہ اور شہاب الدّین نے دو ٹوک انداز میں اُنہیں’’اردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار‘‘ کا اعزاز دینے کی سِرے سے کوشش ہی نہیں کی۔ محض اُن کے سفرنامے کا مختصر سا ذکر کرکے آگے بڑھ گئے۔
اہم بات یہ ہے کہ نواب سکندر بیگم خود یہ جانتی تھیں کہ اُن کا سفرنامہ ہر لحاظ سے اہمیت اور اوّلیت رکھتا ہے۔ قلمی نسخے کے دیباچے میں لکھتی ہیں۔’’اوّل، میری دانست میں اب تک کوئی کتاب لکھی ہوئی ہندوستانی بی بی کی نہیں چھپی۔ دوم، ایک یا دو اہلِ ولایت نے سفر مکّہ کا کیا ہے۔‘‘یوں ہم دو ٹوک انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ اُردو کی پہلی خاتون سفرنامہ نگار، نواب سکندر جہاں بیگم ہی ہیں۔