• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر بڑا آدمی اپنی تحریروں میں اپنے والدین کی شفقت ، علم و فضل کاذکر کرتا ہے کچھ لوگ ان کے ایثار اور مشقت کا ذکر کرتے ہیں۔فرمان فتح پوری پاکستان بننے پر جھگی میں رہتے ہوئے اپنی والدہ کےبارے میں بتایا کرتے تھے کہ وہ رات کی روٹی بھگو کر جب کھلاتی تھیں تو ظاہر کرتی تھیں کہ وہ اپنے حصے کی روٹی کھا چکی ہیں یہ بتا کے وہ رو پڑتے تھے کہ جب مجھے آسودگی ملی تو وہ اس دنیا میں نہ رہیں مگر ان کے قریبی احباب جانتے ہیں کہ فرمان صاحب کی دردمندی میں اپنی ماں کی جھلک آخر تک رہی۔ جب کہ کچھ لوگ اپنے والدین کو آسودہ حال بتاتے ہیں اور ان کے فضائل یوں بیان کرتے ہیں کہ مبالغہ اس رنگ آمیزی کو مصنوعی بنا دیتا ہے یہ تو شاید ڈاکٹر مبارک علی نے ہمت کرکے لکھا تھا کہ میرے بزرگ راجستھان میں رہتے تھے ،کچھ لڑاکا تھے طاقت ور انہیں کہیںڈاکہ زنی وغیرہ کیلئے استعمال کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنی آپ بیتی کا نام ہی پاپ بیتی رکھا اور ایک طرح سے پاپ کو جادوئی بنا ڈالا ۔

جب انگریزی کے معروف ایک استاد نے تاریخ ادب اردو لکھی تو رالف رسل نے لکھا ’تاریخ ادب کیسے نہیں لکھنی چاہئے‘ ابھی پنجاب یونیورسٹی میں ایک بھرپور زندگی گزارنے والے خواجہ محمد زکریا کی آپ بیتی "پتھر نہیں ہوں میں" شائع ہوئی ہے،جو احباب خواجہ صاحب کا مزاج جانتے ہیں،وہ امرتسری ہیں،ان کی یادداشت اچھی ہے اور عام طور پرجن سے اختلاف رہا وفات کے بعد بھی انہیں معاف نہیں کرتے جبکہ جناب اسلم انصاری کے بڑے صاحب زادے قاسم انصاری کا موقف ہے کہ جہاں کوئی کسی بات کا جواب دینے کیلئےاس دنیا میں نہیں، بہتر ہے کہ ہم ان کے حوالے سے درگزر سے کام لیں مگرخواجہ صاحب سمجھتے ہیں کہ یہ ذکر اگر آپ بیتی میں نہ ہو تو پھر کہاں ہو؟

اسی طرح محمد اظہار الحق کی آپ بیتی آئی ہے وہ یکسر مختلف اسلوب میں ہے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میری آپ بیتی کا دوسرا حصہ بھی شائع ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ جو درسی کتاب کمیاب یا نایاب ہو اسے طالب علموں کیلئے شائع کر دیا کرتا تھا یہی عالم محمود نظامی کے سفرنا مے، نظر نامے کا تھا مگرجب ہم نے اسے شائع کیا تو ہمیں ان کے صاحب زادے نے اپنے ہاتھ سے لکھا نوٹس بھیجا کہ آپ نے میرے والد کی کتاب"نذر نامہ" میری اجازت کے بغیر شائع کی ہے،میں نے انہیں لکھا کہ مجھے صدمہ ہوا ہے کہ آپ اپنے والد صاحب کی کتاب کے نام سے ہی ناواقف ہیں۔ یہاں سے ہم نے اپنی یونیورسٹی میں ایک کورس متعارف کرایا کہ معروف مصنفین کی اولاد کو ان کا وارث کہا جا سکتا ہے؟

٭٭٭٭

جن کے پاس اختیار ہے وہ ہمیں کہتے رہتے ہیں تھوڑا صبر کریں ہم بلوچستان کا امن واپس لے آئیں گے جعفر ایکسپریس محض ایک ٹرین کا نام نہیں اور نہ ہی کوئٹہ سے سبی تک محض ریلوے کا ٹریک ہے جسے اگر کسی دھماکے کے سبب تین دن کے لئے معطل کر دیا جائے تو ان لوگوں کے دل کو کچھ نہیں ہوتا جنہوں نے یہاں پرامن اور اچھے دن دیکھے ہیں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیوں نہ واپس ڈاکٹر عبدالمالک کو موقع دیا جائے بے شک اب کافی بگاڑ ہو چکا ہے بہت پہلے جب میں مقتدرہ قومی زبان سے وابستہ تھا کچھ بلوچ طالب علم آئے کہ ہمیں ایک سیمینار کرنا ہے میں نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے انہوں نے کہا کہ مہمان خصوصی آپ ہوں گے میں نے کہا کہ میزبان کے طور پر میں تقریب میں موجود رہوں گا تاہم جب سیمینار شروع ہوا تو بلوچی بولنے والے ہر شعلہ بیان نے کچھ الفاظ کا مذاق جی بھر کے اڑایا جیسے مقتدرہ، قومی زبان،اردو وغیرہ ،میں بہت دل گرفتہ ہوا تا آنکہ ڈاکٹر عبدالمالک اسٹیج پر آئے اور کہا اس شریف آدمی کا قصور یہ ہے کہ اس نے آپ کو ہال استعمال کرنے کی اجازت دی اور اس کے بعد جو کچھ کہا مجھے احساس ہوا کہ وہ زخموں پر مرہم رکھنا جانتے ہیں اپنے شعلہ نوا قوم پرستوں کو تھوڑا بہت سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے میرے سامنےڈاکٹر عبدالمالک کے بلوچی افسانے کی کتاب’’ جنت آباد‘‘آئی تو میں نے اسے والہانہ اشتیاق سے پڑھ لیا ان کے افسانوں کو اردو روپ عبدالحلیم حیاتان نے دیا ۔

ممکن ہے کہ آپ پہلےسے جانتے ہوں کہ کوئٹہ کا پرانا نام "شال" ہے تاہم اجازت دیں تو اس نظریاتی آدمی کے افسانوں سے کچھ اقتباسات پیش کروں’’جلال کو جنت آباد کے وہ دو کوچے بھی یاد آ رہے تھے جہاں شاعروں کی بھرمار ہوا کرتی تھی۔۔جنت آباد میں ایک اور بھی کوچہ تھا جہاں خوبصورت جوتے تیار ہوتے تھے،جلال کو اچانک جنت آباد کا ایک کردار ناکو باران بھی یاد آیا جو ہاتھ سے خوبصورت شال اور کپڑے بننے کا ماہر تھا مگر ناکو باران جب پیرانہ سالی کا شکار ہوا تو اس نے اپنے سازوسامان کو آگ لگا دی کیوں کہ اس کے بچوں نے اس سے یہ ہنر نہیں سیکھا‘‘۔مصنف کو احساس ہے کہ وہاں قوم پرستوں کو جو نعرے دئیے گئے ہیں وہاں وفاق کے نام پر سیاست کرنے والوں کا راستہ آسان نہیں’’سلیم اور اس کے کچھ دوستوں کو یہ احساس تھا کہ آج جو قوتیں ان کی مدد کے لئےکمر بستہ ہیں،ان کے اپنے مذموم عزائم ہیں وہ ان کی سرزمین ہتھیانا چاہتی ہیں،اب انہیں گوریلا جنگ پر نظر ثانی کر کے جمہوری جدوجہد کی طرف مائل ہونا پڑے گا،مگر ایک دن سلیم بے دردی سے قتل کر دیا گیا‘‘۔

ان افسانوں میں عورت مرد کی رفاقت کےرومانوی خواب موجود ہیں مگر محبت میں مبتلا میڈیکل کالج کی طالب علم جانتی ہے کہ اس کیفیت کے دوران میرے خون میں Amphetamina کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے خوشی کی ایک غیر معمولی کیفیت طاری ہو رہی ہے اس نے یہ بھی پڑھا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی بھی دوسرے شخص کو پسند کرے تو اس کے دماغ کے ایک حصے میں Occipital lob کی سرگرمی بڑھ کے سرور کی کیفیت دیتی ہے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین