’’ہم گھاس کھا لیں گے، بھوکے رہ لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کے یہ الفاظ صرف ایک دفاعی منصوبہ نہیں تھے بلکہ ایک ایسے وژن کا اعلان تھے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم اُمہ کے وقار اور سلامتی کے لئے تھا۔ بھٹو صاحب نے سمجھ لیا تھا کہ مسلم دنیا ہمیشہ دوسروں پر اپنی بقا کے لئے انحصار نہیں کر سکتی۔ یہ وژن شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے بھی اپنایا، جو پاکستان کے حقیقی دوست ثابت ہوئے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو تیل اور مالی مدد فراہم کی، جس نے دونوں ملکوں کے رشتے کو محض نعرے بازی سے نکال کر ایک عملی اخوت میں بدل دیا۔ 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس اس اخوت کی انتہا تھی، جہاں شاہ فیصل کی شرکت نے پاکستان کے وقار کو چار چاند لگا دیے۔ آج اسی دوستی نے دفاعی معاہدے کی شکل اختیار کرلی ہے۔
سعودی عرب نے یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان پر حملہ، سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا۔ یہ صرف سفارتی لفاظی نہیں بلکہ اپنے دفاع کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کا اعلان ہے۔ یوں پاکستان اپنی معاشی مشکلات کے باوجود عالمی اسٹیج کے مرکز پر آ کھڑا ہوا ہے۔ چین اسے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لئے تقویت سمجھتا ہے، ترکی اور آذربائیجان اسے مسلم یکجہتی کا حصہ قرار دیتے ہیں، اور روس اسے ایشیائی توازن کے لئے اہم مانتا ہے۔یہ پیغام واضح ہےکہ پاکستان اب صرف سیکورٹی لینے والا ملک نہیں بلکہ فراہم کرنے والا بھی ہے۔ واحد ایٹمی مسلم ریاست، جسے برسوں سے صرف بھارت کے ساتھ مقابلے تک محدود سمجھا جاتا تھا، آج خلیج کے دفاعی دائرے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مسلم دنیا عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اسرائیل کا دوحہ پر حالیہ حملہ یاد دہانی ہے کہ دولت مند دارالحکومت بھی غیر محفوظ ہیں اگر مسلم ممالک یکجا نہ ہوں۔ سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ اسی عدم تحفظ کا جواب ہے’اگر ایک مسلم ملک پر حملہ ہوگا تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے‘۔غزہ کی تباہی اس معاہدے کو مزید بامعنی بناتی ہے۔ ہزاروں بے گناہ فلسطینی بمباری، محاصرے اور بے دخلی کا شکار ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ ایک رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن فلسطین کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ معاہدہ اس مؤقف کو اخلاقی اور تزویراتی وزن بخشتا ہے۔
بھارت کیلئے بھی یہ معاہدہ ایک کڑا پیغام ہے۔ دہائیوں کی تجارتی اور توانائی تعلقات کی کوششوں کے باوجود، جب سوال دفاع کا ہو تو سعودی عرب کا جھکاؤ پھر بھی پاکستان کی طرف ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی خلیجی اہمیت بڑھ گئی ہے بلکہ بھارت کو اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔یہ معاہدہ صرف دفاع یا سیاست تک محدود نہیں۔ یہ توانائی، ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی وسائل میں بھی اشتراک کا راستہ کھول سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں شدید ماحولیاتی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حقیقی سلامتی اب صرف فوجوں سے نہیں بلکہ پائیدار ترقی اور مضبوط معاشروں سے آتی ہے۔ یہی اس شراکت داری کی اصل بنیاد ہے۔
یہ دفاعی معاہدہ خطے کے تزویراتی نقشے کو ازسرِ نو ترتیب دیتا ہے۔ پاکستان کا دفاعی قد بڑھاتا ہے، سعودی عرب کے تحفظ کو وسیع کرتا ہے، اور عالمی برادری کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان اب صرف اپنے خطے تک محدود نہیں بلکہ وسیع تر عالمی توازن میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ معاہدہ محض ایک دوطرفہ وعدہ نہیں بلکہ پاکستان کی اس حیثیت کا اعلان ہے کہ وہ ایک فیصلہ کن عالمی سلامتی کا کھلاڑی بن چکا ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ غیر یقینی کے اس دور میں نئے اتحاد ابھر رہے ہیں اور پاکستان اب کنارے پر نہیں بلکہ مرکز میں کھڑا ہے۔