• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین آئین ہم سب کرتے ہیں لیکن آئین کے یہاں مخالف بہت ہیں اور ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ تقریریں کروا لیں تو ہر کوئی آئین کی پاسداری اور اور آئینی Rule کی بات کرے گا لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو سب ڈنڈی مارجاتے ہیں۔ سب سے بڑے مخالف آئین کے وہ ہیں جو بڑی شد و مد کے ساتھ اس کے دفاع میں بات کرتے ہیں۔ 

فوجی آمر تو آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ایک طرف ہی رکھ دیتے ہیں لیکن جو اپنے آپ کو آئین کے چیمپئن کہتے ہیں وہ خود آئین کو کچھ نہیں سمجھتے جو کہتے ہیں ہم نے آئین کیلئے جیلیں کاٹیں، ماریں کھائیں وہ بھی جھوٹ ہے۔ 

سیاستدان بچارے چاہے اُن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو وہ تو ایک ایسا ’’مجبور‘‘ طبقہ ہے جسے اپنے اقتدار کے حصول اور اُس کو بچانے یا دوسرے کسی کی حکومت کو گرانے کیلئے غیر آئینی طریقوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے سیاستدانوں کی آئین کی بالادستی سے متعلق تقریروں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینا چاہیے۔ 

اب آتے ہیں آئین کے اُن چیمپئنز کی طرف جو عدلیہ میں بیٹھے ہیں، سول سوسائٹی جو آئین اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے حوالے سے اپنے آپ کو سب سے بڑے آئین پسند سمجھتی ہے اور کچھ ایسا ہی حال میڈیا کے ایک طبقہ کا ہے۔ 

اگر عدلیہ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی بات کی جائے تو عموماً آئین کے چیمپئن آپ کو ایسے حضرات ملیں گے جو اپنے آپ کو سیکولر یا لبرل سمجھتے ہیں۔ ججوں نے آئین کو بار بار روندا، عدلیہ نے آئین کو روندنے والے ہر جرنیل کا ساتھ دیا اور سیاست دان’’بچاروں‘‘کی سیاست تو ہے ہی اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت۔ اب اپنے اُن سیکولر دوستوں چاہے اُن کا تعلق میڈیا سے ہو، سول سوسائٹی، عدلیہ یا وکالت یا بے شک سیاست سے اُن کی آئین سے وفاداری کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ 

عمومی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہمارے سیکولر دوستوں کی آئین سے وفاداری کے دعوے سراسر دھوکہ ہیں۔ ایسا میں کیوں کہہ رہا ہوں اُس کی وجہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ہمارے یہ سیکولر دوست چاہے وہ سول سوسائٹی کے بڑے چمپئن ہوں، یا آئین آئین کرنے والا کوئی جج ہو، یا ٹی وی اینکر اور صحافی ہو اُن سے پوچھیں کہ کیا قرارداد مقاصد سمیت آئین میں درج اسلامی شقوں کے نفاذ کی وہ حمایت کرتے ہیں؟تو اس کے جواب میں آئین کے ان’’محافظوں‘‘ کا پول کھل جائے گا۔ 

آئین ہمارا اسلامی ہے لیکن یہ ہمارے دوست سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں، ہمارا آئین اسلام کو پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دیتا ہے اور اس کے تحفظ کی ضمانت چاہتا ہے۔ لیکن ہمارے سیکولر دوست اور آئین آئین کی گردان کرنے والے تو اسلامی نظریہ پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور قائداعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دے کربحث کرتے ہیں کہ پاکستان بنانے کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا نہیں تھا۔ یہ ہمارے وہ دوست ہیں جو کھل کر اسلام کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ یہ تک کہتے ہیں کہ آئین پاکستان میں اسلام کو ریاست پاکستان سے جوڑے جانے کی شق ہی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے یہ دوست آئین پاکستان میں موجود ہر اسلامی شق کے مخالف ہیں اور اس حوالے سے اپنی بات بھی کھل کر کرتے ہیں۔ 

اب بتائیں کہ یہ آئین سے کیسی وفاداری ہے؟ کیا اس کو آئین کی پاسداری کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے یہ دوست مغرب کی جمہوریت کو اپنا خواب تصور کرتے ہیں جب کہ ہمارا آئین بنانے والوں نے ہماری جمہوریت، ہماری پارلیمنٹ پر اسلام کی حدود کے اندر رہنے کی شرط عائد کی ہے۔ گویا چاہے کوئی سو فیصد ووٹ لے کر بھی پارلیمنٹ میں آ جائے وہ پابند ہے کہ اس ملک میں اسلام کا نفاذ کرے اور کوئی بھی ایسی قانون سازی نہ کرے جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہو۔ حقیقت میں اگر کوئی حکومت، کوئی ادارہ آئین پاکستان کے تحت ایسے اقدامات کرتا ہے جس کا مقصد یہاں اسلامی نظام کا نفاذ یا اسلامی معاشرے کا قیام ہو تو سب سے بڑے مخالف یہی نام نہاد آئین کے چیمپئن ہوتے ہیں۔

تازہ ترین