ملک میں اس وقت بجلی تقسیم کرنیوالی 10حکومتی کمپنیاں (Discos) کام کر رہی ہیں جن میں اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان کی کمپنیوں میں 100ارب روپے سے زائد کا نقصان اور بجلی کی چوری ہورہی ہے جبکہ پشاور، حیدرآباد، کوئٹہ، سکھر، قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں بجلی کے نقصانات اور چوری 489ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح ان ڈسکوز میں مجموعی 589ارب روپے سالانہ کا نقصان اور بجلی کی چوری ہورہی ہے جنہیں بجلی کی قیمتیں بڑھاکر صارفین سے وصول کیا جارہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی دیگر وجوہات میں ڈسکوز میں ترسیل اور تقسیم (T&D) نقصانات، بجلی کی چوری، بلوں کی عدم وصولی، اضافی ٹیکس، مہنگے امپورٹڈ فیول سے بجلی کی پیداوار، حکومتی ملازمین کو مفت بجلی اور سبسڈی دینا شامل ہے۔ حال ہی میں حکومت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (Discos) کی نجکاری کیلئے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا ہے جو ان اداروں کی نجکاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے انکے مالیاتی مشیروں سے نجکاری پر اتفاق رائے پیدا کریگا۔ ورکنگ گروپ یکساں ٹیرف، گھریلو اور صنعتی صارفین کو دی جانے والی کراس سبسڈی کے اثرات کا بھی جائزہ لے گا۔ پہلے مرحلے میں حکومت تین ڈسکوز کمپنیوں اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو)، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) اور فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) کی نجکاری کے عمل کو 2025ء کے آخر تک مکمل کرنا چاہتی ہے جسکی تفتیشی رپورٹ مالیاتی مشیر نے حکومت کو فراہم کردی ہے۔ یہ ورکنگ گروپ ڈسکوز میں ملٹی ایئر ٹیرف (MYT) کا بھی جائزہ لے گا۔ قارئین! حکومت اس وقت گھریلو صارفین کو ٹیرف کی مد میں 74ارب روپے سے زائد سبسڈی فراہم کررہی ہے جس کا بوجھ صنعتوں پر ڈالا گیا ہے جسے کراس سبسڈی کہا جاتا ہے یعنی ایک سیکٹر پر اضافی بوجھ ڈال کر دوسرے سیکٹر کو مراعات دینا ہے جو غیر منصفانہ عمل ہے۔ قومی اداروں کی نجکاری کے مقاصد میں ان اداروں میں بہتر گورننس سے مالی نقصانات روکنا اور صارفین کو مقابلاتی نرخوں پر بااعتماد سروس فراہم کرنا ہے۔ پاکستان کے قومی اداروں کی نجکاری کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اداروں میں ہمیں بہتری نظر آئی لیکن کچھ اداروں میں نجکاری کے بعد وہ مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکے جن کیلئے نجکاری کی گئی تھی۔ ٹیلی کام اور بینکنگ سیکٹر میں نجکاری کے اچھے نتائج حاصل ہوئے جن میں حبیب بینک، UBL، MCB بینک، الائیڈ بینک اور PTCL کامیاب نجکاری کی مثالیں ہیں حالانکہ PTCL کی نجکاری میں اب بھی اتصالات پر 800 ملین ڈالر کے بقایا جات ہیں کیونکہ PTCL کی نجکاری میں 2.6ارب ڈالر کے سودے میں سے ہمیں 1.8ارب ڈالر ملے ہیں جبکہ 800ملین ڈالر اب تک اتصالات پر واجب الادا ہیں۔ 2005ء میں سائٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین کی حیثیت سے میں KESC کی نجکاری کے وقت ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر تھا۔ اس سے پہلے بھی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے مجھے 1993 میں پرائیویٹ سیکٹر سے KESC کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر تین سال کیلئے نامزد کیا تھا لہٰذا مجھے کے الیکٹرک کے ماضی اور حال کا ادارک ہے۔ نجکاری کے بعد کے الیکٹرک کے 3.7 ملین صارفین ہیں، ادارے کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش 2100 سے بڑھ کر 4000 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔ بجلی ترسیل کے نقصانات 37 فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد اور بلوں کی وصولی 95 فیصد پر آگئی ہے جسے مزید بہتر بنانے کیلئے کے الیکٹرک بجلی چوری والے علاقوں میں اضافی لوڈ شیڈنگ کررہی ہے حالانکہ اس سے منفی سماجی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور علاقے کے بروقت بجلی بل ادا کرنے والے صارفین کو بھی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حلقے کے صارفین کا مجھ پر دباؤ رہتا ہے۔ کے الیکٹرک نے بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری کیلئے 474 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے کراچی کے 70 سے 75 فیصد علاقے بالخصوص صنعتوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی۔ کے الیکٹرک 2030 تک 1182 میگاواٹ متبادل توانائی سے سستی اور صاف بجلی پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں 900 میگاواٹ شمسی اور 200 میگاواٹ ونڈ پاور شامل ہوگی جو کے الیکٹرک کی مجموعی بجلی پیداوار کا 28 فیصد ہوگا، باقی 72 فیصد بجلی تھرمل ذرائع سے پیدا کی جارہی ہے جس میں یومیہ 1000 میگاواٹ بجلی واپڈا سے لینا شامل ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کے الیکٹرک کو دیگر نجی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے سستی بجلی خریدنے کی اجازت دے تاکہ کے الیکٹرک اپنی بجلی کی اوسط لاگت کم کرسکے۔ بہرحال میرے نزدیک کے الیکٹرک کی نجکاری کافی حد تک کامیاب رہی جس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے ایک سال میں پاکستان کے 24 اہم اداروں کی نجکاری 3 مراحل میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں نمایاں ادارے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (PIA) کی نجکاری آخری مراحل میں ہے، اس کے علاوہ نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل، ڈسکوز اور زرعی ترقیاتی بینک کی نجکاری بھی شامل ہے۔ پاکستان میں پاور سیکٹر اصلاحات کیلئے ڈسکوز کی نجکاری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے بصورت دیگر ڈسکوز کی نجکاری شدید عوامی ردعمل کا سبب بن سکتی ہے۔