• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: اسلامی ممالک کو جگانے کی کوشش ...

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

بیگم کا دُکھڑا

جریدہ ہاتھوں میں لے کر اللہ کا شُکر ادا کیا کہ ماڈل کے لباس میں کوئی خاص ڈیزائن نہیں تھا، وگرنہ تو ہر اتوار بیگم کا دُکھڑا (فرمائشی پروگرام) شروع ہوجاتا ہے۔ خیر، سرسری نگاہ سے ٹائٹل دیکھتے آگے بڑھے تو ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحے، روشنی کے مینار سلسلے میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کی سیرتِ طیبہ کے ذکر پر نہ صرف ٹھہر گئے، بلکہ انتہائی توجّہ سے مطالعہ کیا۔ 

محمود میاں نجمی نے مضمون مبلغانہ انداز میں  تحریر فرمایا، پڑھ کر اسکول کے اساتذہ یاد آگئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی کی تحریر ’’فرانسیسی انقلاب کا زخم خوردہ لبنان‘‘ پڑھ کر دل سے دُعا نکلی کہ اللہ پاک لبنان اور دنیا بھر کے تمام مظلوم مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔ 

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اسرار ایوبی کی تحریر ’’شکایت کرنا سیکھیں‘‘ پڑھی۔ اُن کی کوئی بھی تحریر پہلی دفعہ پڑھی اور بہت مستفید ہوا۔ میری ڈائری کے دو صفحات تو اُن کے لکھے ای میل ایڈریسز اور فون نمبرز ہی سے بھر گئے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ خیر وعافیت و برکت کی طویل زندگیاں عطا فرمائے۔ (صبور مشتاق حسن، رمضان گارڈن، شومارکیٹ، کراچی)

ج:آپ زیادہ فوکس دُعاؤں وغیرہ ہی پر رکھا کریں۔ باقی گفتگو میں تو پتا نہیں کہاں سے کہاں جا بھٹکتے ہیں۔

ساری قوم شعر وشاعری پر…

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سوشل میڈیا پر اچھا مضمون تحریر کیا۔ آج کل سوشل میڈیا کا یہی حال ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سب کچھ ہی بہت اچھا تھا، خصوصاً اقصیٰ منور ملک کی ’’آگہی‘‘ کا جواب نہ تھا۔ سید آفتاب حسین کی چھوٹی سے غزل اچھی تھی، دل کو لگی۔ اِس مرتبہ آٹھ نئی کُتب پرتبصرہ کیا گیا اور آٹھ میں سےپانچ شعر و شاعری کی تھیں۔ 

کیا ساری قوم شعر و شاعری ہی پر لگ گئی ہے۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نےسلیم راجا کو ’’اس ہفتے کا راجا‘‘ بنا دیا۔ گوشۂ برقی خطوط میں قرات نقوی نے لکھا کہ آج کل کے بچّوں میں معصومیت نہیں رہی۔ ایسا نہیں ہے جناب، سرکاری اسکولز کے بچّوں میں تاحال معصومیت کُوٹ کُوٹ کر بَھری ہوئی ہے، ہاں بڑے بڑے پرائیویٹ، انگلش میڈیم اسکولز کےبچّےمعصوم نہیں رہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ہمارا نہیں خیال، بچّوں کی معصومیت کے ضمن میں آپ کا یہ تجزیہ، تفریق درست ہے۔ ماحول، حالات ضرور اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن حتمی طور پر قطعاً نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں جگہ کے سب ہی بچّے حددرجہ معصوم اور باقی ؎ بچّے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے۔ رہی بات قوم کے شعروشاعری پر لگ جانے کی، تو محسوس تو ہمیں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

گراں قدر تعاون

راقم آپ کا بہت بہت ممنون ہےکہ آپ نے استدعا قبول فرمائی اور پاکستان کے غریب عوام کے وسیع ترمفاد میں، جن کے لیے آپ کے ادارے کی قابلِ قدر جدوجہد مسلسل جاری ہے، مضمون ’’اشرافیہ بمقابلہ اغرابیہ‘‘ کو بہت اہتمام سے شائع فرمایا، آپ کے گراں قدر تعاون سے پاکستان کے’’غریب عوام‘‘ کی اہمیت، حیثیت اور شناخت کے لیے جدید اصلاحاتی اور انقلابی لفظ ’’اغرابیہ‘‘ کے فوری استعمال سے وقت کی اہم ترین ضرورت کی تکمیل ہوئی ہے۔ 

راقم مدتِ مَدید سے روزنامہ جنگ کا باقاعدہ قاری ہے۔ 1973ء میں علاقائی مسائل سے متعلق میرے متعدد مراسلات بھی شائع ہوئے۔ بہرکیف، اللہ تعالیٰ آپ کو ایک نیک مقصد کے تحت کی گئی بے غرض خدمت پر اجرِعظیم عطا فرمائے۔ (انصارعبدالقھار، کوثر ٹاؤن، ملیر، کراچی)

ج: اب اللہ کرے کہ نیک مقصد کے تحت کی گئی بےغرض خدمت کا کرتا دھرتاؤں پر بھی کچھ اثر ہوجائے۔

اسلامی ممالک کو جگانے کی کوشش

دائرہ دین پناہ کے اکلوتے اخبار فروش بھی داغِ مفارقت دے گئے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ سو، تین اتوار جریدہ میسّرہی نہ تھا۔ بہرکیف، جریدہ وصول پایا، تو حسبِ سابق منور مرزا مشرقِ وسطیٰ کے ’’حالات و واقعات‘‘ پر مکمل دسترس رکھتے ہوئے اظہارِ خیال فرمارہے تھے۔ منیر احمد خلیلی، پراسرار یہودی تنظیموں پر مفصّل مضمون لائے۔ 

سیّدہ تحسین عابدی نے ایران کی جرات وہمّت اور اسرائیلی پسپائی پر دیگر اسلامی ممالک کو جگانے کی کوشش کی۔ ماڈل کے حسین ملبوسات اور شعر و شاعری کے انتخاب سے تو آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔ ہمایوں ظفر کے مرتب کردہ واقعات ’’آخری ہجرت‘‘ اور’’وے ویرا مینوں لے چل‘‘ بہت ہی پُراثر تھے۔ 

آج کی محفل میں سید زاہد علی شاہ کو آپ کی طرف سے کرارا جواب، رانا محمّد شاہد کوکرسیٔ صدارت عطا ہوئی، تو شہزادہ بشیر، شاہدہ ناصر اور سلیم راجا بہترین انداز سے شامل محفل تھے، بہت خُوب! (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفرگڑھ)

ج: اللہ تعالیٰ مرحوم کی بخشش فرمائیں، سفرِ آخرت آسان سے آسان تر ہو۔

دو دو خطوط اکٹھے

تین ہفتوں کے وقفے کے بعد تبصرے کے ساتھ حاضر ہوں۔ شمارہ حبس زدہ موسم اور دل نشین ماڈل کے سرِورق کے ساتھ ملا۔ ہرا ہرا ٹائٹل اچھا لگا کہ سبز رنگ ہمیشہ سے فیورٹ رہا ہے۔ دھرماراجیکا پر تحریر بہت دل چسپ تھی، وَرثہ کسی بھی مُلک و تہذیب کی پہچان ہوتا ہے اور اُس کی حفاظت ہونی چاہیے۔ منیر احمد خلیلی کا مخصوص موضوع یہودی اور فلسطینی تہذیب ہے۔ 

سیّدہ تحسین عابدی ’’ایران کی جرات، اسرائیل کی پسپائی اور کربلا کی بازگشت‘‘ جیسے اہم موضوع پر قلم آراء تھیں۔ چوں کہ تعارفاً وہ حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں، تو اُن کی نگارشات پڑھ کرخاصی حیرانی ہوتی ہےکہ تخلیق و تحقیق کا یہ وصف بھلا آج کے سیاست دانوں میں کہاں رہ گیا ہے اور اگر ہے تو پھر نظام میں تبدیلی کی مدہم سی روشنی بھی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ محمّد کاشف کی تحریر’’ڈے ٹریڈنگ، فوائد و نقصانات‘‘ سے بیش قیمت معلومات ملیں۔

 ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریرنےعورت کی شخصیت بہت خُوب صُورتی سے اجاگر کی اور ایک بہت گہری بات تو دل پہ اثر کر گئی کہ ’’آپ کو کسی کے اپنے ساتھ مخلص ہونے میں شک و شبہ ہے تو ذرا ایک بارخُود اپنے گریبان میں جھانک دیکھیں۔ اگر آپ سوفی صد مخلص، نیک نیّت ہیں تو پھر اطمینان رکھیں، اگلابھی آپ کےساتھ بےکھوٹ، وفادارہی ہوگا۔‘‘ عرفان جاوید کا اِس دفعہ کا انتخاب آباد احمد خان کا افسانہ ’’تماشا مِرے آگے‘‘ تھا۔ 

یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اُنہوں نے زندگی میں واحد یہی افسانہ لکھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے لیے مصباح طیب اور بلال بشیر نے عُمدہ موضوعات چُنے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ مستقل خط لکھنے والوں کے دو دو خطوط اکٹھے شائع کرکے اچھا کررہی ہیں۔ اِس طرح خطوط بھیجنے اور شایع ہونے کا درمیانی وقفہ کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ 

شاہدہ ناصر کے خط کے جواب میں آپ نے لکھا، بےشمار لوگ ہمارا رائٹ اَپ نہیں پڑھتے۔ ہم نےبھی دو سال پہلے پڑھنا شروع کیا، وگرنہ ماڈلنگ دیکھ کے خیال آتا کہ تحریر میں ایسا کیا ہی ہوگا، مگر اب آپ سے کہنا چاہتے ہیں کہ اِن تحریروں کو ضرور کتابی صُورت میں آنا چاہیے۔ سلیم راجاکی طرح ہماری بھی خواہش ہےکہ محمود شام کا تفصیلی انٹرویو شائع ہو۔ (رانا محمّد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: اِن شاء اللہ تعالیٰ جلد کروانے کی کوشش کریں گے۔

تمام اقساط کی بائنڈنگ

مَیں بہت دن بعد خط لکھ رہی ہوں، تقریباً ایک سال بعد۔ مجھے میرے پچھلے خط کا جواب مل گیا تھا، جس کا بےحد شکریہ۔ مَیں ہر ہفتے آپ کا رسالہ ضرور پڑھتی ہوں۔ چیمہ صاحب کی ’’خُود نوشت‘‘ کی پوری قسطیں پڑھیں بلکہ مَیں نے اُن کی تمام اقساط کی ایک بُک بنالی ہے، جیسے نجمی صاحب کی تحریروں کی تمام اقساط کی بائنڈنگ کروا کے ایک کتاب بنا لیتی ہوں۔ 

خط لکھنے کی زیادہ فرصت نہیں ملتی، سوچتی ہوں، کیسے اچھے لوگ ہیں، جن کا ہر ہفتے رسالے میں نام آتا ہے، جیسے رونق افروز، شمائلہ نیاز، سیّد زاہد علی، شری مرلی چند، اور نواب زادہ بےکارملک۔ ویسے نواب زادہ صاحب کورکشے میں سفر نہیں کرنا چاہیے، اُنھیں فور وہیل استعمال کرنی چاہیے۔ اِس طرح وہ اچھل اچھل کر نہیں جائیں گے، اگر اپنی نہ بھی ہو، تو مسئلہ نہیں، رینٹ پربھی ملتی ہے۔

عرفان جاوید کی ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا، خصوصاً ’’بٹوارہ‘‘ کا جواب نہ تھا۔ ’’ہمارا وَرثہ‘‘ پڑھ کر بھی بہت مزہ آیا، کیوں کہ اس میں ہماری ساتویں کلاس کی کہانی موریا سلطنت کے چندر گپت کے پوتے اشوکا کا ذکر تھا۔ (رفعت سلطانہ، کوسٹ کارڈ، کورنگی، کراچی)

ج: ایک طرف اخباری صنعت کی زبوں حالی ہے، تو دوسری طرف آپ جیسے لوگ بھی موجود ہیں، جو اقساط مجتمع کر کے اُنھیں کُتب کی صُورت محفوظ کرتے ہیں۔ واہ بھئی۔ رہے نواب زادہ صاحب، تو وہ بےچارے ہمہ وقت اپنی بےروزگاری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اور آپ اُنھیں رینٹ کی فوروہیل کے خواب دِکھا رہی ہیں۔

            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ساون کے پہلے ہفتے کا رِم جِھم شمارہ، صُبحِ اتوارصحنِ دل میں سہانی بدلی بن کے اُترا۔ دیدہ زیب ٹائٹل پربا تبّسم نازنین پا کر دلِ شیدا ساون میں ڈھل گیا۔ ؎ تم اتنا جو مُسکرا رہے ہو… نگاہِ بم دل پہ گرا رہے ہو۔ باہر برسات کا سماں، نیلے نیلے امبر پرمون سونی گھٹا بارش برسانے کو ہے۔ صفحۂ دل بہار ’’حالات و واقعات‘‘ سے دلِ امن پسند کو نوید ملی، امن کی فاختہ نےبتایا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے بادل چَھٹ گئے ہیں۔

اگلے صفحے پر تذکرۂ دھرمارجیکا (بدھ خانقاہ، ٹیکسلا) کو منتظر پایا، فرطِ جذبات سے نعرہ مارا، وہ مارا! اِس پر ایک آوارہ بادل نے بڑے ٹھیپے(سکے) کے سائز کا ایک بوندا دے مارا،ہت تیرےکی! یہ گولڈن ٹپ اکھیوں کے جھروکے سے دل کے کھوکھے میں سما گئی کہ قیمتی ترین متاعِ کائنات، وقت کی قدر کیجیے۔ ہمارا بھی خیالِ نیک ہے کہ ’’ویلے دیاں نمازاں، کویلے دیاں ٹکراں۔‘‘ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں یہودی تنظیموں کی پُرآشوب کارروائیوں سے خصوصیت کےساتھ نقاب اٹھایا گیا، جی او شیرا! اُسی لمحے سرمئی گگن پر کالے کالے بادلوں کی گڑگڑاہٹ ہوئی۔ 

قارئین کو بجا سبقِ حرّیت ملا کہ ’’ظلم کےخلاف خاموشی بھی جُرم ہے۔‘‘ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ پہنچے تو پتا چلا کہ امن کی خاطر تین دریاؤں سے دست برداری کا کڑوا گھونٹ بھرا گیا۔ ویسے یہ دست برداری گناہِ بےلذت ہی ثابت ہوئی۔ یادش بخیر، محض پانچ سال بعد ہی جنگِ ستمبر چِھڑ گئی تھی۔ 

شارٹ ٹرم ’’ڈے ٹریڈنگ‘‘ سے متعلق آرٹیکل پڑھ کر جھلّا دل سوچیں پےگیا کہ ایک طرف اِس کے آٹھ فوائد گنوائےگئے تو ساتھ دس نقصانات بھی بتائے گئے۔ تے مَیں فیر منجھی کتھے ڈاواں؟ ہمارےنکتۂ اعتراض پر باہرابرِکرم گرم ہوگیا اور پانی کی بوچھاڑہی دے ماری۔ ’’پوشاک محل‘‘ مترنم تھا، وہ کتنا دل نشیں، کتنا حسیں ہے…ہم ایک گل دستہ شکریتاً، کھڑکی میں رکھ کر آگے ہولیےکہ گُل تو پیچھےرہ جاتے، دستہ سیدھا سر تک پہنچ سکتا تھا۔ عرفان نامے (نئی کہانی، نیا فسانہ)پہ پہنچے، توتماشا مِرے آگے، تھا۔ 

زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں، لیکن دل سلیم الفطرت نے سُنا ہے؎ اِک پیار کا نغمہ ہے، موجوں کی روانی ہے …زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے۔ ہم اور بھا ساون اب ہم نوا تھے،’’ٹپ ٹپ برساہے پانی۔‘‘ ’’پیارا گھر‘‘ میں بڑا پیارا وعظ تھا۔ اور کدّو کا قصیدہ پڑھ کر تو ہم بےساختہ کچن رُو گُنگنا اٹھے، ’’موقع ملے جےکدوکدی، فیر پکالو کدّو بدو بدی‘‘ باہرہلکی ہلکی پھوار، موسلادھار ہوگئی۔

قابلِ ذکر سلسلے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی جیتی جاگتی کہانی میں مکافاتِ عمل کا اصول ناملائم پیشِ نظر کیا گیا۔ بائے دی وے، ہماری سیاسی تاریخ مکافاتِ عمل کی ایک عبرت ناک فلم سےکم نہیں۔ باہر ہلکی آندھی اور پُھلکے طوفان کےبعد، گھن گرج اور گرج چمک کے بیچ آبِ باراں تھم گیا ہے اور بندہ بھی پہنچ گیا، خط نگری، جہاں پانچ پیارے رونقِ دربار تھے اورسبھی کو حصّہ بقدرِ جثّہ ملا۔ ہرمیجسٹی! اِف یو ڈونٹ مائنڈ توپانچ خوش خط لیٹر رائٹرز کے نام، قارئین سے شیئر فرمائیں۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: اِن دنوں جورونقِ بزم ہیں، اُن میں سرِفہرست خوش خط رانا محمّد شاہد، شائستہ اظہر، محمّد سلیم راجا، حافظ عبدالرحمٰن ڈار، عارف قریشی اورجاوید اقبال ہیں، جب کہ ماضی کے لکھنے والوں میں کچھ اور نام بھی تھے۔

گوشہ برقی خطوط

* ’’نیلام گھر‘‘ کی ساری کہانی پڑھی۔ فرّخ شہزاد بلوچستان کے ریلوے اسٹیشنز کی بپتا سُنا رہے تھے۔ اےکاش! آپ سارے اسٹیشنز کی تصاویر بھی لگا دیتیں تو کیا لُطف آتا۔ ذوالفقار چیمہ کی ’’خُودنوشت‘‘ کے لیے کافی تعریفی خطوط آرہے ہیں۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم کے صفحات پچھلے شمارے سے کچھ ملتے جلتے لگے۔ جیسے پارٹ ون اور ٹوہوں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ”گزارہ“ تو گویا ہر گھرکی کہانی تھی۔اللہ کا شکر ہے، یہاں امریکا میں لائف اسٹائل خاصا مختلف ہے۔ 

برتن، کپڑے آٹومیٹک مشینزمیں دُھلتے، گھر کی صفائی مہینے میں2 بار ہی کرنی پڑتی ہے اور پھر سب کام صرف عورت کے ذمّے قطعاً نہیں۔ ڈاکٹر عزیزہ نے نادیہ ناز غوری کے انتقال کی خبر دی،پڑھ کے دلی صدمہ ہوا۔ اللہ پاک اُس کے درجات بلند فرمائے۔ وقت ایک ایک سال کرکے ساری قیمتی متاع لوٹ لےگیا۔ نیا شمارہ سامنے دھراہے، گھر کے مخصوس گوشے میں بیٹھی ہوں۔ باہر کی تیز ہوا کھڑکی کے شیشے سے سر پٹخ رہی ہے، سنہری دھوپ بستر پہ درازہے۔ پورے شمارے کا حرف حرف لاجواب، بےحد شان دار لگا۔ 

میرے پسندیدہ صفحات ’’کلکس‘‘ کے رہے تھےکہ ؎ کیمرے نے ایک لمحے کو ہے ٹھہرایا ہوا۔ اِک اِک تصویر پوری ایک کہانی تھی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں طاہر گرامی کو ایسا کرارا جواب دیا گیا کہ دل ٹھنڈا ہوگیا۔ آپ بہت ہی مصروف رہتی ہیں، لیکن اگر آپ کہیں، تومَیں اپنی ہر ای میل کے ساتھ یہاں کے کچھ خُوب صُورت مناظرکی تصاویر بھی شئیر کر سکتی ہوں۔ اگلا شمارہ سامنے لیے بیٹھی ہوں۔ کھڑکی سےباہر دیکھوں، تو پوری گلی رُوپہلی چاندنی میں نہائی ہوئی ہے۔ خیر، رؤف ظفرخواتین کی کام یابیوں کاتجزیہ پیش کر رہے تھے۔ 

’’اسٹائل‘‘ صفحات پر ’’کلرآف دی ایئر، براؤن‘‘ کے مختلف شیڈز سے متعلق تحریر کے کیا کہنے تھے۔ ماڈل بھی ایک زمانے بعد بڑی پیاری سی آئی۔ مَیں نے بھی کل جاب پہ جانے کے لیے براؤن رنگ ہی کا لباس نکال لیا۔ ’’ایک پیغام‘‘ کے صفحے پر ڈھونڈتی رہ گئی کہ شاید کسی نے مجھے بھی یاد کیا ہو، مگر مایوسی ہوئی۔ پھرسوچا کہ یہ جو’’عالمِ اسلام، اہلِ وطن اور میگزین کے قارئین کے نام‘‘ پیغامات ہیں، یہ سب میرےہی تو نام ہیں۔ 

’’آپ کا صفحہ‘‘ میں چوہدری قمر کی بات پڑھ کے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا۔ میری ای میل کا آپ نے جواب نہیں دیا، ایک جملہ ہی لکھ دیا کریں، دل خوش ہوجاتا ہے۔ لیجیے، تیسرا خصوصی والیوم بھی موصول ہوگیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا متبرّک صفحہ موجود تھا، دیکھ کے خوشی ہوئی۔ براہِ کرم شادی بیاہ کی بےہودہ، فضول رسومات پر بھی کوئی فیچر کروائیں۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات شالز سے مرصّع تھے۔

مجھے آپ ہمیشہ شاعری کے انتخاب سے حیران ہی کر دیتی ہیں، اب ایک ’’شال‘‘ پراس قدر لاجواب اشعار، واہ بھئی واہ!! اوریہ بھی سو فی صد بجا فرمایا کہ دلہن تو گھونگٹ میں شرمائی گھبرائی ہی اچھی لگتی ہے، نہ کہ دوپٹا ایک طرف ڈالے۔ مجھے اپنے بچپن کی شادیاں یاد ہیں،جب دلہنوں میں اس قدرلاج شرم ہوتی تھی کہ رخصتی تک جُھکا سرہی نہیں اُٹھتا تھا۔ ہاں، ’’سلوراسکرین‘‘ پڑھ کےساری ٹاپ ریٹڈ فلمز دیکھ رہی ہوں۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج: ’’ایک جملہ‘‘ اب خوش…؟؟ ویسے ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، خوش رنگ مناظر کی تصاویر ضرور دیکھنا چاہیں گے، بلکہ ان کےلیے توالگ سےوقت بھی نکالا جا سکتا ہے۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk