برانڈ کسی مُلک، کمپنی، پراڈکٹ یا سروس کی پہچان ہوتا ہے۔یہ برانڈز اپنے مُلک، اس کے افراد، پراڈکٹس اور سروسز کا امیج بناتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ جرمنی کی کوئی چیز خریدیں، تو آپ کو اس کی پائے داری کا یقین ہوگا۔ اگر جاپان کی کوئی چیز خریدیں، تو یقین ہوگا کہ یہ پراڈکٹ جدّت کی حامل ہوگی اور اگر چین کی پراڈکٹ کی بات ہوگی، تو آپ کے ذہن میں فوراً ورائٹی اور کم قیمت کا تصوّر اُبھرے گا، لیکن ایسا کیوں ہے کہ پاکستان بہت سی عُمدہ اشیاء بناتا ہے، پھر بھی عمومی طور پر مقامی اور بین الاقوامی صارفین کے اعتماد کے فقدان کا شکار ہے۔اس کی بنیادی وجہ پاکستان کو ایک برانڈ کے طور پر استوار کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ آئیے، مزید چند مثالوں کے ذریعے اِس امر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فیفا، کھیلوں کی دنیا کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے اور پاکستان کی ایک کمپنی کو چوتھی مرتبہ اِس کے لیے فُٹ بالز بنانے کا کانٹریکٹ مل چُکا ہے، لیکن ہم پھر بھی دنیا کو یہ باور نہیں کروا سکے کہ پاکستان کھیلوں کی اشیاء بنانے والے صفِ اوّل کے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان بہترین سرجیکل آلات بناتا ہے۔ یہی سرجیکل آلات پاکستان سے ایک مغربی مُلک میں جاتے ہیں اور پھر اُس مُلک کی مُہر کے ساتھ دنیا میں بیچے جاتے ہیں، جب کہ دُنیا یہ جاننے سے قاصر رہتی ہے کہ پاکستانی ماہرین سرجیکل آلات بنانے میں طاق ہیں۔
مَیں لنکاسٹر یونی ورسٹی، انگلینڈ سے ایک کورس کرنے گیا ہوا تھا۔ایک شام اپنے میزبان، ڈاکٹر ڈیوڈ سم سے اجازت چاہی تاکہ اپنے لیے شرٹس خرید سکوں، تو اُنہوں نے پاکستان میں بننے والی شرٹس کی تعریف کی، خصوصاً کالر بنانے کی مہارت کو سراہا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ جب بھی پاکستان جاتے ہیں، اپنے لیے وہاں سے شرٹس ضرور خریدتے ہیں۔ مَیں سوچتا رہا کہ ہم برطانیہ سے شرٹس خریدنا پسند کرتے ہیں اور گورے پاکستانی شرٹس پسند کرتے ہیں۔
ہے نا کمال کی بات۔ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جوہربھارو، ملائیشیا گیا، تو میزبان ایک دن مشہور مارکیٹ لے گئے اور بتایا کہ یہاں تمام بین الاقوامی برانڈز ملتے ہیں اور قیمتیں بھی مناسب ہوتی ہیں۔ خصوصی طور پر یہ بھی بتایا کہ سنگاپور سے بھی لوگوں کی اکثریت خریداری کے لیے اِس مارکیٹ میں آتی ہے۔ مَیں نے ایک مشہور بین الاقوامی برانڈ کے جاگرز خریدے اور ادائی کی، تو صاحبِ دُکان نے بتایا کہ کُھلے پیسے نہیں ہیں۔
آپ بقایا رقم لینے کی بجائے یہاں سے جرابیں لے لیں۔ مَیں نے جرابوں کا ایک جوڑا اُٹھایا اور اپنی بس میں آبیٹھا۔ میرے ایک ساتھی کو جرابیں بہت پسند آئیں، وہ معائنہ کرتے ہوئے بولا کہ یہ تو پاکستان میں بنی ہوئی جرابیں ہیں اور مَیں نے سر پکڑ لیا کہ اِتنی منہگی، لیکن مَیں وہ جرابیں اگلے چھے سال تک پہنتا رہا، جب کہ دنیا کو شاید یہ نہیں معلوم کہ پاکستان میں اِس قدر اچھی جرابیں بنتی ہیں۔
برانڈ ہوتا کیا ہے؟ دراصل، برانڈز کسی بھی پراڈکٹ کی شہرت کا تعیّن کرتے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جیسے ہم افراد کی شخصیت اور شہرت کا تعیّن کرتے ہیں اور اُن کو ویسا ہی مقام دیتے ہیں۔ اِسی طرح صارف بھی پراڈکٹس کی شخصیت اور شہرت کے مطابق اُنہیں اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پراڈکٹس کی شخصیت اور شہر ت کا صارفین کے طبقات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے اور شاید انسانوں کی شخصیت اور شہرت طبقات سے بالاتر ہوتی ہے۔
مثلاً 800سی سی کی گاڑی اور 2800سی سی کی گاڑی دو مختلف طبقات کے لیے ہیں۔ پہلی کم آمدنی والوں کے لیے اور دوسری متمول طبقے کے لیے۔ اب ظاہر سی بات ہے، سب گاڑیاں مرسیڈیز جیسی نہیں بنائی جاسکتیں اور اگر ایسا ہو، تو وہ طبقات گاڑیوں سے محروم رہ جائیں گے، جو مرسیڈیز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
اگر کم آمدنی والے طبقے کے لیے گاڑی بنائیں گے، تو وہ مرسیڈیز جیسی شان دار اور مضبوط نہیں ہوگی۔ لیکن کم آمدنی والا فرد بھی جب 800سی سی والی گاڑی خریدنے کے قابل ہو جائے گا، تو اُسے بھی اپنی گاڑی خریدنے کی ویسی ہی خوشی ہوگی، جیسی مرسیڈیز خریدنے والے کو۔
یہاں صرف یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ برانڈ کی شخصیت مختلف ہو سکتی ہے، لیکن شہرت ایک جیسی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے 800سی سی کی گاڑی کم آمدنی والے طبقے میں اُتنی ہی شہرت کی حامل ہوگی، جتنی مرسیڈیز زیادہ آمدنی والے طبقے میں۔ اِس شہرت کا انحصار پراڈکٹ کی (جو اِس مثال میں گاڑی ہے) خصوصیات پر ہے، جس کا اقرار پراڈکٹ بنانے والی کمپنی کرتی ہے۔ یہ اقرار پراڈکٹ کی پیکنگ پر، کتابچے پر یا پھر آج کل عموماً کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہوتا ہے۔
اگر کسی بھی وقت پراڈکٹ کی وہ خصوصیات، جن کا اعلان و اقرار کمپنی نے کر رکھا ہے، صارف کو حاصل نہ ہو سکیں یا نظر نہ آئیں، تو صارف کے اعتماد کو دھچکا لگتا ہے اور نتیجتاً پراڈکٹ کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اِس لیے کسی بھی مُلک، فرد، ادارے، پراڈکٹ یا سروس کو برانڈ کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ وہ خصوصیات فراہم کرنی ہوں گی، جن کا اعلان و اقرار وہ کر چُکے ہیں تاکہ صارف کا اعتماد ہر بار اور ہمیشہ جیتتے رہیں اور یوں ایک برانڈ بن جائیں۔
ماہرین، برانڈ کی تین بڑی اقسام بتاتے ہیں۔پہلی قسم اداراتی برانڈ ہے، جب کہ دوسری قسم مصنوعاتی اور تیسری شخصیاتی برانڈ ہے۔ البتہ ایک بات دل چسپ ہے کہ چاہے ادارہ ہو، پراڈکٹ یا شخص، برانڈ بننے کے اُصول سب کے لیے ایک جیسے ہیں اور وہ ہیں خصوصیات اور اچھی شہرت۔ ہمیں یہ بات مدّ ِ نظر رکھنی چاہیے کہ پراڈکٹ کی نقل تو تیار کی جاسکتی ہے، لیکن برانڈ ایک ایسا اثاثہ ہے کہ اگر وہ صارفین کے دل و دماغ میں جگہ بنالے، تو زندگی بَھر نہ کوئی اُس کی نقل تیار کر سکتا اور نہ ہی اُسے ختم کر سکتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے ایسے برانڈز ہیں، جو دہائیوں سے موجود ہیں اور آج بھی مقبول ہیں۔ مثلاً روح افزاء کا آغاز1907ء میں ہوا اور آج ایک صدی گزرنے کے بعد بھی مقبول شربت ہے۔ دوسری بات یہ کہ پراڈکٹ کا ایک حیاتیاتی دور( Life cycle )ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ اُسے زوال کا شکار کر دیتا ہے، مگر برانڈ زندگی بَھر کا اثاثہ ہوتا ہے۔
اِس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم پاکستان، اس کے اداروں اور اِن اداروں میں بننے والی مصنوعات کو برانڈز بنائیں، بالکل اُسی طرح جیسے ایپل، گوگل، نائیکے اور ایمیزون برانڈز ہیں، تاکہ دُنیا پاکستان میں بننے والی پراڈکٹس پر اعتماد کرے، انھیں خریدے اور ہمارے دیس میں بھی معاشی خوش حالی کا دَور دورہ ہو۔ لیکن یہ صرف اُسی صورت ممکن ہو سکے گا، جب ہم وہی چیز صارف کو دیں، جس کا ہم نے اقرار اور اعلان کر رکھا ہو، تاکہ دنیا بَھر کے صارفین ہم پر اعتماد کر سکیں اور بند آنکھوں سے ہماری اشیاء خریدیں۔
اِس ضمن میں اِس بار جشنِ آزادی کے موقعے پر ایکسپو سینٹر، لاہور میں ’’میرا برانڈ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ہونے والی نمائش میں جانے کا اتفاق ہوا، تو پاکستان میں بننے والے بے شمار برانڈز دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں صنعت و حرفت کے شعبے میں ترقّی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن پھر بھی عموماً پاکستانی عدم اعتماد کا شکار ہیں، جس کی وجہ ہمارا پاکستان کو دیکھنے کا انداز ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم اکثر پاکستان میں اُن عوامل ہی کی نشان دہی کرتے ہیں، جہاں کمی یا سقم ہے، نہ کہ اُن پہلوؤں کی، جو عُمدہ تر ہیں۔
یعنی ہم پاکستان کو ’’گلاس آدھا خالی ہے‘‘ کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں، نہ کہ’’گلاس آدھا بَھرا ہوا ہے‘‘ کے پہلو سے۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو ہمیں ایسے بہت سے اعشاریے ملتے ہیں، جو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ گلاس آدھا بَھرا ہوا ہے۔ مثلاً 1990 ء میں ہماری خام مُلکی پیداوار 40بلین ڈالرز تھی، جو آج تقریباً400 بلین ڈالرز ہوگئی ہے۔ 1960ء میں پاکستانیوں کی اوسط عُمر 44سال تھی، جو آج 67سال ہے اور اسلام آباد میں تو اوسط عُمر74 سال تک پہنچ گئی ہے۔
2002ء میں 2لاکھ، 76 ہزار طلباء وطالبات یونی ورسٹیز جاتے تھے، جو اب بڑھ کر 19لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔2002ء میں پاکستان میں صرف35یونی ورسٹیز تھیں، جو اب 229ہوگئی ہیں اور ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ کہ بھارت میں 73کروڑ افراد کو بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت میسّر نہیں، جب کہ پاکستان میں صرف پانچ فی صد افراد اِس سہولت سے محروم ہیں۔ ایٹم بم تو ہم نے بہت پہلے بنا لیا تھا، اب تو ہم JF-17 لڑاکا طیارے اور دیگر جنگی ہتھیار بنا رہے ہیں۔
یہ سب مثالیں صرف اِس لیے ہیں کہ ہمیں گلاس آدھا بَھرا ہوا نظر آنا چاہیے، کیوں کہ تب ہی ہمیں پاکستان اور اس کی مصنوعات پر اعتماد ہوگا اور اگر ہم اعتبار کرنا شروع کر دیں گے، تو دُنیا بھی کرنے لگے گی اور یوں ہم ترقّی کی منازل تیزی سے طے کرتے چلے جائیں گے۔ (مضون نگار، سینٹر آف اسلامک فنانس، کامسیٹس یونی ورسٹی اسلام آباد، لاہور کیمپس کے سربراہ ہیں)