• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بےشک بہت کچھ بدل گیا ہے، اب تو بہت سے ہنر مندبچے بھی سعودی عرب کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں پھر مکہ اورمدینہ کے بارے میں،ڈاکیو منٹریاں، فلمیں،حج خطبے اور وہاں جانیوالوں کے تجربات اور پھر لٹریچردستیاب ہے۔ ادھر ملتان میں صبح کو دودھ،دہی یا سبزی اور پھل بیچنے والامیرا نام کیسے جان سکتا ہے ؟سو وہ مجھے حاجی صاحب کہتا ہے،اسی طرح! فقیر بھی دعا دیتا ہے اللہ تجھے مدینے لے جائے! فرض کیجئے میں نے حج نہ کیا ہومحض عمرہ کیا ہو یا زمانہ طالب علمی میں پریم چند کا افسانہ ’حجِ اکبر‘ پڑھا ہو اور پھر شاگردوں کو تلقین کی ہوکہ آپ کے ہمسائے میں کوئی بیوہ اپنی بیٹی کے جہیز یا بچے کی تعلیم یا علاج معالجے کیلئے پریشان ہو تو آپ ان کی اعانت کرکےعمرے یا حج کا ثواب کما سکتے ہیں ۔ اسلام آباد میں میرا ایک شاگرد خورشید شکوری ہے،ہر برس کوئی اپنے علیل والدین کی جگہ انہیں حج یا عمرے پر بھجوا دیتا ہے۔ پہلے تو خوش عقیدہ لوگوں میں ایک روایت مشہور تھی کہ حج کے اختتام پر ایک نورانی چہرے والا ایک فہرست لے کے آتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اس سال ان لوگوں کا حج قبول ہواہے،اس فہرست میں مرحومین کے نام بھی ہوتے تھے اور بعض غیر مسلموں کے بھی۔کچھ لوگوں کو ان کے خوابوں میں یہ فہرست وصول ہو جاتی تھی شاید یہی وجہ ہے کہ میری ایک شاگرد قرۃ العین رضوانی نے کہا کہ اس مرتبہ آپ نے میرے ساتھ ہی حج ادا کیا ہےوہ میری بیٹیوں کی طرح اتنی سرشاری سے کہہ رہی تھی کہ میں نے اس کا دل توڑنا مناسب خیال نہ کیا۔ عمرہ بھی میں نےاپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کر لیا کہ مجھے کہا گیا کہ اگر کچھ اضافی پیسے ٹریول ایجنٹ کو ادا کر دوں توملتان پہنچتے پہنچتے یہ کام ہو جائے گا اس میں شک نہیں کہ پہلی مرتبہ کعبتہ اللہ پر نظر پڑے یارسالت مآب کے روضے کے سامنے پہنچیں تو دل کافر ہو یا سرکش اس کی حالت عجیب ہو جاتی ہے۔ وہاں ایک معلم نما بزرگ میری بیوی کی آیات کریمہ والی ڈائری سے شہ پا کے ہمیں ہدایات دینے لگے کہ عربی زبان میں پہلے پھیرے میں یہ دعا ما نگیں پھر یہاں نوافل ادا کریں اور تب میں نے ان سے کہا وہ رب العالمین ہے تو وہ سب کی زبان جانتا ہے تب میری بیوی نے کہا کہ آپ برا نہ منائیں یہ شخص کھسکے ہوئے ذہن کا ہے جو کچھ آپ عربی میں پڑھیں گے میں اور میرے تینوں بچےوہی دہراتے چلے جائیں گے۔ تب تو یہ موبائل فون نہیں تھا نہ نیک لوگ مقدس مقامات سے زیادہ اپنی تصویریں بناتے تھے سرکار رسالت مآب کے روضے کی جالی کے بھی قریب نہیں جا سکتے تھے اونچی آواز میں درود شریف نہیں پڑھ سکتے تھے۔ بہت برسوں کے بعد فیصل آباد کے ایک رفیق کار ڈاکٹر افضال انور کا فون آیا کہ میں مدینے میں سرکار رسالت مآب کے روضے پر کھڑا ہوں آپ جلدی سے بیس دفعہ درود شریف پڑھ کے میرے موبائل میں ’پھونک‘دیں۔

ہمارے ایک استاد عرش صدیقی تھے طالب علموں میں سرخے مشہور تھے،ضیا الحق دور میں انہوں نے اپنے اکلوتے افسانوی مجموعے’باہر کفن سے پاؤں‘ کے کچھ افسانوں کےانجام اور کچھ فقرے تبدیل کئے اور پنجابی اور اردو میں دوہے لکھے عادل فقیر کے نام سے،وہ پہلی مرتبہ جب عمرے میں گئے تو عجب کیفیت رائیگانی کی تھی بار بار کہتے تھے کہ وہاں تو بڑے بڑے پلازے ہیں میرے تخیل میں اپنی اماں کی بتائی مدینے کی گلیاں تھیں وہ تو چھپ گئیں یار۔ ابھی چند دن پہلے میں نےکسی اخبار میں پڑھا کہ زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ریسرچ سینٹر میں سرائیکی نعت خوانی کا ایک مقابلہ ہوا جس کی ابتدا عارف رجوانہ کی نعت سے ہوئی ۔حسن اتفاق کہ وہ کل ہی میرے پاس آئے میں نے فرمائش کی مجھے سناؤ، بہرا تو میں مرزا غالب کے زمانے سے تھا مگرعارف نے ہارمونیم کے بغیر ایک نعت سنائی کچھ اس طرح کہ آنسو اس کے رخساروں پر بہنے لگے میں نے تعریف کی تو اس نے کہا کہ خواجہ غلام فرید کی مشہور کافی’’اتھاں میں مُٹھڑی جند جاں بہ لب …او تاں خوش وسدا وچ ملک عرب‘‘

٭٭٭٭

مجھے احباب اور شاگرد کیا کیا خیال کرتے ہیں مگر میں ایک طرح سے قدامت پسند ہوں میری یادوں میں میرے شاگرد ہیں ہر نگر کے،استاد ہیں ہر مزاج کے اور بچے ہیں ہر زمین کے اور ان کی مسکراہٹ سےصبح طلوع ہوتی ہے ،ان پر تشدد کرنے والا خود کو معلم کہتا ہو میں اسے معلم نہیں مانتا اور جس درس گاہ میں اس پر تشدد ہواسے کون درس گاہ کہے گا ۔آج کے ایک انگریزی اخبار میں چیچہ وطنی کے یتیم خانے سے برآمد ہونے والے کچھ بچوں کی تصویر چھپی ہے جو خیبر پختونخواکے بچوں کی ہے مسئلہ یہ نہیں کہ کس صوبے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور کہاں کہاں نظم و نسق مثالی ہے اور افسروں کی توجہ اپنی مراعات کے ساتھ اس پر بھی ہے کہ بچوں کے لئے مائیں انتظار کرتی ہیں اور پھر بہنیں،کوئی تو ہوگا جوان کیلئے پشتو،سرائیکی،بلوچی،ہندکو ،سندھی اور اردو میں دعائیں کرتا ہوگا۔بے شک کچھ مصاحب کہہ سکتے ہیں پختون بچے جفاکش ہوتے ہیں انہیں کسی جنگ میں جھونک دیں خود کش جیکٹ پہنادو مگر انہی میں کئی فاسٹ بالر ہیں،بیٹسمین ہیں فٹ بالر ہیں پائلٹ ہیں ان کی حفاظت ہم مل کر کریں انہیں تعلیم دیں ہنر مند بنائیں یہ تبھی ہو گا کہ ہمارے شاگرد سارے کے سارے منصور ہاشمی،اعجاز کوئتی ،ممتاز ملک،صفدر عباس زیدی اور عبدالروف لندنی انہیں پیار کریں اور دعا دیں۔

تازہ ترین