• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین، دنیا کی قیادت سنبھالنے کی جانب تیزی سے گامزن

عوامی جمہوریہ چین نے انتہائی کم ترین عرصے میں اپنی ترقّی و خوش حالی سے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور اِس وقت دوسری بڑی معاشی طاقت کے ساتھ دنیا کی قیادت سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چین کی ترقّی اور خوش حالی کا راز، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہے، جس کی قیادت نے نہ صرف اپنے مُلک کو ترقّی کی جانب گام زن کیا، بلکہ کم مدّت میں 80کروڑ افراد کو غربت سے نکال کر ایک ناقابلِ یقین مثال قائم کردی۔2013ء میں چین کی قیادت نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے دنیا کے غریب اور ترقّی پذیر ممالک کے عوام کو خوش حال طرزِ زندگی کی فراہمی کا بیڑہ اُٹھایا۔

چین کے صدر، شی جن پنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر تیانجن میں منعقدہ ایک اجلاس میں دنیا میں امن و ترقّی کے لیے گلوبل گورننس اقدام( جی جی آئی ) کا اعلان کیا اور تمام انسانوں کی بہتری کے لیے شفّاف و منصفانہ منصوبے کا تصوّر پیش کیا۔ یہ اعلان مساوات، عالمی قوانین، کثیر الجہتی تعاون، عوام کی مرکزیت اور عملی نتائج پر مشتمل ہے۔ 

رواں برس مارچ میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی سینٹرل پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں جنرل سیکریٹری سی پی سی، صدر شی جن پنگ کی جانب سے تمام ہم سایہ ممالک کی ترقّی و خوش حالی کے لیے اہم تصوّرات پیش کیے گئے، جو مشترکہ سیکیوریٹی، گورنینس، ڈویلپمنٹ اور مشترکہ تہذیب کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ تصوّرات صدر شی جن پنگ کے گلوبل ڈویلپمنٹ اقدام( جی ڈی آئی )سے ہم آہنگ ہیں، جن کا مقصد دنیا کو امن، باہمی احترام، تعاون اوراستحکام کا گہوارہ بنانا ہے۔ مشترکہ سیکیوریٹی کے تحت صرف ملٹری سیکیورٹی نہیں، بلکہ سلامتی کے دیگر تمام امور بھی شامل ہوں گے۔

اِسی طرح مشترکہ تہذیب و ثقافت کے ضمن میں یہ تصوّر پیش کیا گیا کہ دنیا کی تمام ثقافتیں اور تہذیبیں اہم ہیں۔ گلوبل گورنینس ایک کثیر الجہتی تعاون کا تصوّر ہے، جس کے مطابق دنیا کے تمام ممالک اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی رہنمائی میں مساوی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کریں اور ایسا نظام نہ ہو کہ دنیا کا صرف کوئی ایک مُلک تو محفوظ ہو اور باقی ممالک اُس کا حکم بجا لانے پر مجبور ہوں۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے سیاست دانوں، تھنک ٹینکس ماہرین اور میڈیا پر مشتمل 25رُکنی وفد کو چین کے دارالحکومت بیجنگ اور جدید، ترقّی یافتہ شہر، چونگ چنگ کا دورہ کروایا۔

بیجنگ میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی سینٹرل کمیٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کی وائس منسٹر، مِس سن ایان اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بیورو آف جنوبی ایشیا و جنوب مشرقی ایشیائی امور، مسٹر لن تاؤ نے تفصیل سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے چین کی ترقّی میں کردار اور آئندہ کے لائحۂ عمل سے آگاہ کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ’’ چین کے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہیں اور سی پی سی کے دنیا کے 170ممالک کی 700سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ہماری تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے اور یہ امن سے پیار کرنے والا مُلک ہے۔ اس کی پالیسی دنیا کی دیگر طاقتوں سے بالکل مختلف، یعنی سیاسی ومعاشی طاقت ہے۔

 
مضمون نگار، وائس چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی، چونگ چنگ میونسپل پیپلز کانگریس کے ساتھ
مضمون نگار، وائس چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی، چونگ چنگ میونسپل پیپلز کانگریس کے ساتھ

ہم نے کبھی بھی کسی مُلک پر قبضہ نہیں کیا، ہمیشہ تجارت کی ہے۔ 19ویں صدی سے پہلے چین کی ثقافت و تہذیب نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتّب کیے۔ اگر مغربی نوآبادیاتی قومیں جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر قبضہ نہ کرتیں، تو اِس خطّے میں ہماری ثقافت کے اس سے زیادہ گہرے اثرات ہوتے، جس قدر اب ہیں۔ چین، دنیا کے ساتھ مشترکہ مستقبل کے لیے تیار ہے اور اب بہترین موقع ہے کہ مشترکہ ثقافت و تہذیب کو فروغ دیا جائے، جس کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے دنیا میں امن و خوش حالی کے فروغ کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ 

ہماری خارجہ پالیسی ترقّی پذیر اور غریب ممالک کے لیے باہمی تعاون پر مبنی ہے اور ہم نے اقوامِ متحدہ اور دنیا کے دیگر تمام فورمز پر ہمیشہ تیسری دنیا کے ترقّی پذیر ممالک کا ساتھ دیا اور اُن کے لیے آواز اُٹھائی۔ ہماری خارجہ پالیسی کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ہم دنیا کے کسی مُلک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور نہ ہی اپنا حکم نافذ کرتے ہیں۔ چین اپنی معاشی ترقّی کے ذریعے دنیا کے دیگر غریب ممالک کو ترقّی کے مواقع فراہم کررہا ہے۔ ہم نے 1978ء میں اصلاحات کا عمل شروع کیا اور چار عشروں کے دوران دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر اُبھرے۔ 

شی جن پنگ نے 2012 ء میں اقتدار سنبھالا اور چین میں ایک نئے دَور کا آغاز ہوا اور اب چین ماڈرنائزیشن اور ترقّی کے نئے راستے پر گام زن ہوچُکا ہے۔ 2035ء کا ہدف اسے ایک جدید، بنیادی سہولتوں سے بھرپور مُلک میں بدلنا ہے اور2050ء تک چین کو تمام شعبوں میں جدید سوشلسٹ مُلک بنانے کا ہدف مقرّر کیا گیا ہے۔

نیز، کمیونسٹ پارٹی کرپشن اور برائیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔‘‘ سی پی سی کی قیادت نے بتایا کہ چین کی وزارتِ خارجہ کی پالیسی کا بنیادی ستون ہم سایہ ممالک کے ساتھ دوطرفہ، دوستانہ تعلقات کا قیام ہے اور یہ ہماری اوّلین ترجیح ہے کہ تمام ہم سایہ ممالک کے ساتھ معاشی و تجارتی تعلقات بڑھائے جائیں، ترقّی کے سفر میں اُن کی مدد کی جائے۔ 

نیز، عوامی سطح پر تعلقات بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔چین دنیا کی واحد ریاست ہے، جس نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے مقرّر کردہ ہدف سے 10سال پہلے ہی اپنے مُلک میں غربت کے خاتمے کا عملی مظاہرہ کر دِکھایا۔ اِس بے مثال کام یابی کے پیچھے چین کے صدر اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے جنرل سیکرٹری، شی جن پنگ کی مدبّرانہ اور طلسماتی شخصیت ہے، جو2012 ء میں صدارت کے عُہدے پر براجمان ہونے کے بعد عالمی سطح پر اثرورسوخ بڑھانے پر کاربند ہیں۔ 

صدر شی جن پنگ کی جانب سے تجویز کردہ سوشلزم ماڈل کے تین ستون ہیں، یعنی قومی تعمیر میں سی پی سی کی تاریخی شراکت، اعتدال کے ساتھ خوش حال معاشرے کے خواب کی تعبیر اور سوشلسٹ انقلاب کے تسلسل میں سی پی سی کا کردار۔ درحقیقت، صدر شی جن پنگ کی فکر، جس میں پارٹی، ریاست اور عوام کا ایک بہترین امتزاج موجود ہے، اس امر پر زور دیتی ہے کہ یہ تینوں آپس میں مل کر آگے بڑھیں اور اسی وجہ سے صدر شی جن پنگ کی بھرپور توجّہ مُلکی استحکام اور غربت کے خاتمے پر مرکوز ہے۔ 

صدر، شی جن پنگ کی جانب سے پارٹی میں اصلاحات کے لیے کی جانے والی کوششوں نے دنیا میں چین کے موجودہ مؤقف کو مزید واضح کیا ہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں چین کے دروازے دنیا کے لیے کُھل رہے ہیں، جب کہ چین عالمی امور میں حصّہ لے رہا ہے۔ یہ پارٹی ہمیشہ عوام کو اہمیت دیتے ہوئے فیصلے کام کرتی ہے اور یہی اس کا مشن بھی ہے۔ چین آج ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہے۔ یہاں کی یونی ورسٹیز اور تحقیقی مراکز اگلی صدی کی کلیدی ٹیکنالوجی میں قیادت کے حوالے سے کام میں مگن ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارٹی کو چینی عوام میں بھرپور حمایت حاصل ہے۔‘‘

چین کے تین کروڑ20لاکھ آبادی کے بڑے اور خوب صُورت شہر، چونگ چنگ کے دورے کے دوران وہاں کی صنعتی ترقّی جاننے کا بھی موقع ملا۔ چونگ چنگ، بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے ضمن میں چین کا اہم ترین شہر ہے۔ میونسپل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے وائس چیئرمین، ژاؤشی چنگ نے جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سات ممالک کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین آئرن برادر ہیں اور اپنی قومی پالیسی کے مطابق، چین خطّے کے ہم سایہ ممالک کے ساتھ گہرے تجارتی ومعاشی تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے۔ 

چونگ چنگ ایک تاریخی و ثقافتی شہر ہونے کے ساتھ، صنعتی شہر بھی ہے، جب کہ یہاں پہاڑ اور دریا بھی ہیں، جو اس کی خُوب صورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ 25فی صد حصّہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ یہ شہر جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا اور یورپ کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے ذریعے منسلک ہے۔ چونگ چنگ، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ اور سیمی کنڈیکٹر بنانے کا ایک بڑا مرکز ہے اور یہاں کی یونی ورسٹیز میں جنوب ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کے بہت سے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 

اِسی طرح چین کے دارالحکومت، بیجنگ میں قائم آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے ادارے، ایفلی ٹیک میں چین کی اے آئی ٹیکنالوجی کی ترقّی پر تفصیلی بریفنگ میں بتایا گیا کہ وہاں کس طرح ہر شعبۂ زندگی میں اے آئی کا عمل دخل ہوچُکا ہے۔ خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تو اے آئی سے بہت زیادہ مدد لی جارہی ہے۔ بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں اے آئی بہت معاون ہے، جب کہ اساتذہ اور طلبہ کے لیے بھی اس کے ذریعے تعلیم کی فراہمی سہل بنادی گئی ہے۔

چین اور پاکستان کی بے مثال دوستی، پاکستان کے لیے قابلِ فخر اِس لیے بھی ہے کہ چین جب دنیا کی قیادت کرنے جارہا ہے، تو پاکستان ایسا دوست مُلک ہے، جس پر وہ بہت انحصار کرتا ہے۔ چین کی حالیہ قیادت نے پاکستان کے دنیا میں حالیہ کردار کو بہت سراہا ہے اور پاکستان کی ترقّی، چین کے لیے باعثِ اطمینان، خوشی کا موجب ہے۔ 

واضح رہے، چین اور پاکستان کے مابین سی پیک کا پہلا مرحلہ کام یابی سے مکمل ہو چُکا ہے، جس میں چین نے 30ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ذریعے توانائی، انفراسٹرکچر، مواصلات اور گوادر بندرگاہ کے منصوبے تعمیر کیے۔ توانائی کے شعبے میں 17بڑے منصوبوں کے ذریعے 18ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے 8ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوئی۔888کلومیٹر طویل شاہ راہیں مکمل کی گئیں۔ 

گوادر بندرگارہ کے علاوہ گوادر میں نیا ایئر پورٹ، اسپتال، ووکیشنل سینٹر، صاف پانی کا پلانٹ اور سولر سسٹم لگایا گیا، جس سے گوادر وسط ایشیا اور خلیجی ممالک کے مابین ایک مرکزی حیثیت اختیار کر چُکا ہے۔ پہلے مرحلے کے دوران پاکستان میں دولاکھ سے زاید روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور پاکستان بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عفریت سے نہ صرف نکلنے میں کام یاب ہوا بلکہ اِس وقت ہمارے پاس صنعتی اور کمرشل استعمال کے لیے بھی وافر بجلی موجود ہے۔ 

نیز، چین اور پاکستان کے مابین اسٹریٹجک تعلقات بہت نمایاں ہیں۔ 26ستمبر کو چین کے شہر، بیجنگ میں سی پیک کے اعلیٰ ترین فورم، جے سی سی کا 14واں اجلاس ہوا، جس میں سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی باضابطہ منظوری دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں صنعتی زونز، ریلوے، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں کے منصوبے مکمل ہوں گے۔

یاد رہے، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی ترقّی پر زیادہ توجّہ مرکوز کی جائے گی۔ اِس مرحلے میں چین کا کام یاب’’غربت مٹائو ماڈل‘‘ پاکستان کے ہر صوبے کے غریب ترین اضلاع میں شروع کیا جائے گا۔ کراچی اور اسلام آباد میں دو خصوصی اقتصادی زونز قائم ہوں گے، جہاں ٹیکسٹائل، انجینئرنگ، الیکٹرانک، فارماسیوٹیکل اور برقی گاڑیوں کی صنعتیں منتقل کی جائیں گی۔ پاکستان اور چین کے مابین صنعتی ریلوکیشن فنڈ بھی قائم کیا جائے گا تا کہ براہِ راست سرمایہ کاری لائی جاسکے۔ 

نیز، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاک، چین ڈیجیٹل سلک روڈ پروگرام، مشترکہ اے آئی اور کوانٹم کمپیوٹنگ لیبارٹیریز، قابلِ تجدید توانائی کی تیاری، ماحولیاتی حکمتِ عملی، زرعی اصلاحات اور علاقائی رابطوں کے منصوبے بھی شامل ہیں، جب کہ گلگت، بلتستان میں سی پیک کے تحت 300میگاواٹ کا سولر منصوبہ مکمل کیا جائے گا اور اِس ضمن میں پاکستان میں سی پیک منصوبوں اور چینی شہریوں کی مکمل حفاظت و سلامتی یقینی بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے جائیں گے۔

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید