• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مجھے اپنے وطن واپس آنے پر بے حد جذباتی محسوس ہو رہا ہے۔ میں نے اس لمحے کا بہت عرصے سے خواب دیکھا تھا۔ میں امید کرتی ہوں کہ اپنے عوام کی توقعات پر پورا اتر سکوں گی‘‘۔محترمہ بینظیر بھٹو، 18 اکتوبر 2007ء یہ وہ الفاظ تھے جو شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی وطن واپسی کے سفر سے قبل ادا کیے۔ آٹھ طویل برسوں کی جلاوطنی کے بعد وہ اپنے ملک لوٹ رہی تھیں۔ ان کی آواز پُر اعتماد تھی مگر دل بوجھل۔ ایک طرف بلاول بیٹھے تھے، دوسری جانب بختاور، اور ان کے پہلو میں سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ۔ وہ اپنے بچوں کو چومتی رہیں، انہیں بانہوں میں بھر کر اپنے دل کے ٹکڑے چھوڑے جا رہی تھیں، کیونکہ وطن کی مٹی نے پکارا تھا۔ بچےجانتے تھےکہ ان کی ماں کیوں جا رہی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سفر صرف ایک ماں کا نہیں، ایک قوم کی امید کا سفر ہے۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ ایک تنہا عورت، ایک بہادر مجاہد، جو بے ہتھیار تھی مگر بے خوف، ایک ایسے وطن میں واپس آ رہی تھی جس نے اس سے سب کچھ چھین لیا تھا سوائے اُس کے حوصلے کے۔ وہ جانتی تھیں کہ موت ان کا انتظار کر رہی ہے، لیکن وہ پھر بھی لوٹ رہی تھیں۔ اقتدار یا مراعات کیلئے نہیں، بلکہ اپنے عوام کے حقِ آزادی کیلئے۔طیارے کا کیبن نعرے، دعاؤں، ہنسی اور ولولے سے لبریز تھا۔ یہ ایک عام پرواز نہیں تھی، تاریخ کی پرواز تھی۔ اور اس شور میں محترمہ بینظیر بھٹو پرسکون بیٹھی تھیں، پُر عزم کہ وہ اپنے وطن کو دوبارہ جمہوریت کی راہ پر گامزن کریں گی۔جب ان کا طیارہ کراچی کی سرزمین پر اترا تو شہر نے جیسے سانس لے لی۔ جناح ایئرپورٹ سے مزارِ قائد تک انسانوں کا سمندر تھا۔ سڑکیں جھوم رہی تھیں، عورتیں، مرد، بچے سب سرخ، سبز اور سیاہ جھنڈے لیے والہانہ نعرے لگا رہے تھے۔ نغمے گونج رہے تھے۔ برسوں بعد پاکستان میں امید لوٹ آئی تھی۔ یوں لگا جیسے خود جمہوریت واپس آگئی ہو۔لیکن آدھی رات تک خوشی کی جگہ قیامت نے لے لی۔ جیسے ہی جلوس کارساز کے مقام پر پہنچا، دو ہولناک دھماکوں نے رات کے سکوت کو چیر دیا۔ زمین لرز اٹھی، آسمان سرخ ہوگیا۔ لمحوں میں جشن ماتم میں بدل گیا۔ سینکڑوں کارکن شہید ہوگئے، بے شمار زخمی ہوئے۔ سڑکیں لہو سے تر، بینرز بکھرے ہوئے، نعرے خاموش، خواب ادھورے رہ گئے۔مگر اس آگ اور خون کے دریا میں بھی ایمان زندہ رہا۔ جب پہلا دھماکہ ہوا، تو جیالے اور جیالیاں بھاگے نہیں۔ وہ دوڑتے ہوئے اپنی قائد کے ٹرک کی طرف گئے، تاکہ اپنے جسموں سے ڈھال بن سکیں۔ انہوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے نہیں، اپنی رہنما کی حفاظت کیلئے دوڑ لگائی۔ یہ منظر دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مرد، عورتیں، بچے سب اپنی رہنما کے گرد محبت کی دیوار بن گئے۔ انہیں علم تھا کہ موت یقینی ہے، مگر ان کا ایمان خوف سے بڑا تھا۔یہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی روح، ایک تحریک جو طاقت پر نہیں، قربانی پر بنی۔شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شہید محترمہ بینظیر بھٹو تک، ہر نسل نے اپنے خون سے جمہوریت کی شمع جلائی۔ اور ان کے ساتھ کھڑے وہ ہزاروں کارکن، جن کی ہمت اس ملک کی اخلاقی بنیاد ہے۔ ان کے نام آج بھی یادگارِ شہداء کارساز پر زندہ ہیں، جہاں ہر سال شہداء کے اہلِ خانہ فخر اور دعا کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں، تو صدر آصف علی زرداری نے ذاتی صدمے کو قومی عزم میں بدل دیا۔ اس اندھیرے لمحے میں انہوں نے انتقام کا نہیں، پاکستان کا نعرہ بلند کیا۔’پاکستان کھپے‘یہی وہ الفاظ تھے جنہوں نے قوم کو جوڑ دیا، زخموں پر مرہم رکھا اور انتقام کے بجائے مفاہمت کی راہ دکھائی۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ہم جیسے کارکنوں کیلئے آج بھی یہی جذبہ رہنمائی کرتا ہے: پاکستان سیاست سے پہلے، پاکستان طاقت سے پہلے، پاکستان ذات سے پہلے۔اٹھارہ برس گزر گئے مگر کارساز کا زخم آج بھی تازہ ہے۔ مگر یہ زخم اب طاقت کی علامت بن چکا ہے۔ اس رات بہایا گیا خون جمہوری پاکستان کی بنیاد بن گیا۔ صدر زرداری کی قیادت میں پاکستان نے آئین کی بحالی، پارلیمان کے استحکام اور تاریخی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختاری دی۔ یہ صرف قانونی اصلاحات نہیں تھیں، یہ بینظیر بھٹو کے خواب کی تکمیل تھی، ایک ایسا پاکستان جو زبردستی سے نہیں، مشاورت سے چلتا ہے۔کارساز پر حملہ دراصل امید پر حملہ تھا۔ مگر انہی شعلوں سے پاکستان کی جمہوری تاریخ کا نیا باب لکھا گیا۔ 18 اکتوبر 2007ءکو شروع ہونیوالی یہ تحریک آمریت سے مکالمےاور خوف سے آزادی کی طرف ایک سنگ میل بنی۔ اس نے ثابت کیا کہ پاکستان کی جمہوریت کسی کی عطا نہیں، قربانیوں کا حاصل ہے۔آج بھی دہشت گردی ہمارے شہروں کا پیچھا کر رہی ہے، چیلنجز بڑے ہیں، مگر قوم نے ان شہیدوں سے حوصلہ سیکھا ہے۔ ہر انتخاب، ہر پارلیمانی بحث، ہر پُرامن اقتدار کی منتقلی ان شہداء کو خاموش سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے آئین کو بحال کیا، پارلیمان کو مضبوط کیا، اور عوام کی آواز کو دوبارہ زندہ کیا۔کارساز صرف ایک سانحہ نہیں تھا، یہ پاکستان کی جمہوری روح کی تجدید تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بہادری نے ظلم کو شکست دی، اور خون نے آزادی کی جڑوں کو سینچا۔ایسی کوئی نہیں تھی اور نہ ہوگی جیسی بینظیر بھٹو تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ موت ان کا انتظار کر رہی ہے، مگر وہ پھر بھی لوٹ آئیں۔ انہوں نے اپنی جان دے دی تاکہ ان کے لوگ آزادی سے جی سکیں۔ اور ان کا خواب آج بھی زندہ ہے، ہر اس دل میں جو یقین رکھتا ہے کہ پاکستان، اپنی تمام آزمائشوں کے باوجود، ہمیشہ امید کو خوف پر، اتحاد کو تقسیم پر، اور جمہوریت کو آمریت پر ترجیح دے گا۔

(کالم نگار رکن قومی اسمبلی پاکستان ہیں)

تازہ ترین