• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: ثانیہ انور

ماڈلز: صبا، احمد، حمزہ

ملبوسات: امجد کلیکشن

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

؎ ہرحُسنِ سادہ لوح نہ دل میں اُترسکا… کچھ تو مزاجِ یارمیں گہرائیاں بھی ہوں۔ احمد فراز نے تو محبوبیت کے منصب پر فائز ہونے کے کڑے اصول بیان کر دیے ہیں۔ دراصل حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی انسان کی دل کشی اور جاذبیت کا راز اس کی مجموعی شخصیت میں پنہاں ہے۔ گویا کسی فردکی ظاہری، باطنی، فطری اور اکتسابی(خُود محنت کر کے سیکھی گئی) خصوصیات کا مجموعہ ہی یہ طے کرتا ہے کہ وہ خلائق کی نظر میں کیا رتبہ حاصل کرپائے گا۔ اور یہ توطےشدہ بات ہےکہ شخصیت کا بنیادی ڈھانچا کردار اور اوصاف ہی تشکیل دیتے ہیں۔ 

یہ اخلاقی اقدار آفاقی ہیں، مطلب کسی خاص خطّے یا مذہب سے مخصوص ومتعلق نہیں اور نہ صرف تمام انفُسِ عالم ان پرمتفق بلکہ ان کے گرویدہ بھی ہیں۔ صداقت، عدالت، سخاوت، دیانت، امانت، شجاعت، یہ محض الفاظ نہیں، وہ اوصافِ حمیدہ ہیں، جو بُتِ خاکی کو اعلیٰ پیکرِ انسانی میں ڈھال دیتے ہیں۔اِن کےہم رکاب صبر وتحمّل، وفائےعہد، خاطر تواضع، حُسنِ اخلاق اور ہم دردی وغم خواری جیسی خصوصیات ہمارے روزمرہ کے چھوٹے، بڑے اعمال سے ظاہرہوجاتی ہیں اور یہاں کوئی تصنّع، بناوٹ کام نہیں آتی۔ 

جب کہ شخصیت کے نکھار میں گفتگو کا سلیقہ اساسی عُنصر ہے۔ شُستہ و شائستہ الفاظ کا چناؤ بولنے والے کو بھی قابلِ احترام بنا دیتا ہے۔ طرزِتخاطب ہی مخاطب پر گفتگو کرنے والی شخصیت کی تمام پرتیں کھولتا ہے۔ اِسی لیے احمد ندیم قاسمی کو کہنا پڑا ؎ صرف اِس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں… مَیں تِرا حُسن، تِرے حُسنِ بیاں تک دیکھوں۔ 

مگرصرف دل نشیں گفتگو، شیریں آواز ہی کافی نہیں ہوتی، دوسروں کے دل میں گھر کے لیے سب ہی معاملاتِ زندگی احسن طور پر نمٹانے پڑتے ہیں کہ ہمارا عملی رجحان، زندگی گزارنے کا طریقہ ہمارے مائنڈ سیٹ (ذہنیت، طرزِ فکر) کی چغلی کھاتا ہے۔ ہمارے نظریات، ہمارے افعال سے چھلکتے ہیں۔ ملمع کاری، اپنی چمک دمک سے زیادہ دیرآنکھیں خیرہ نہیں کر سکتی۔ حقیقت بہرطور سامنے آجاتی ہے۔

جس قدراہم نارواباتوں پرجذبات قابومیں رکھتے ہوئے مناسب ردِعمل دینا ہے، اُسی قدراہم خوشی و لُطف کامہذبانہ اظہار بھی ہے۔ اپنےآپ کو سمجھنے کی لیاقت کے ساتھ اوروں کی بات سُن کر اُن کے نقطۂ نظر سے واقفیت اور پھر اُن کے جذبات کا احترام بھی شخصیت کو قبولیتِ عام دیتا ہے۔ ہماری یہی سماجی مہارتیں ہمیں جذباتی طور پر مضبوط اور دوسروں کے لیے پُرکشش بناتی ہیں۔ شُکرگزاری کی عادت، ثقافتی و خاندانی اقدار کی بجاآوری سے انسان پُراعتماد ہی نہیں پُرسکون بھی رہتاہے۔ 

اور ہاں، ان سب جادو اثر خصائل کے باوجود دھیان رہے کہ اپنے آپ کو وقت اور اپنی ضرورتوں کو اولیت دینا قطعاً خُود غرضی نہیں۔ زندگی کی سمت، مقصد کا تعیّن کرکے اہداف کے حصول کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ایک سرگرم، پُرجوش شخصیت ہی سب کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔ قصّہ مختصر، اِن سب کسوٹیوں پر پورا اُترنے کے بعد ظاہری حُسن و جمال کا نمبر آتا ہے۔

بدقسمتی سے کچھ نااندیش فوری توجّہ جذب کر لینے والی ظاہری خوبی پر مرمٹتے ہیں اور پھر کفِ افسوس ملتے، اُٹھتے بیٹھتے سودا کے اس شعر کا وظیفہ کرتے ہیں۔ ؎ سودا جو تِرا حال ہے، اتنا تو نہیں وہ… کیا جانیے تُونے اُسے کس آن میں دیکھا۔ بعد میں احساس ہوتا ہے کہ مسحورکُن شخصیت کا اصل دارومدار تو کردار کے دائمی حُسن پر ہے۔ جگر مراد آبادی نے تو پہلے ہی سےانتباہ جاری کر رکھا ہے۔ ؎ حُسن پہ نازاں کاش یہ سمجھیں… حُسن ہے دل کش حُسنِ نظر تک۔ اگرچہ کامل تو کوئی بھی نہیں۔ 

انسان، کجی، کمی سے گندھا، کوتاہیوں کا مرکب ہی ہے، مگر خُودآگہی سے اپنی خُوبیوں، خامیوں کو پہچان کرمضبوط پہلوؤں کو فروغ دیا، کم زوریوں پر غالب بھی آیا جا سکتا ہے۔ سعیٔ پیہم رہے تو اثرپذیری، ہردل عزیزی مقدر ہو سکتی ہے۔ بقول فیض احمد فیض ؎ تجھ کو دیکھا تو سیرچشم ہوئے …تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی۔

چلیں بھئی، فلسفہ بہت ہوا، اب آج کی بزم پر نظر دوڑاتے ہیں، جہاں رنگ وانداز اور تاثر و احساس ہی جداگانہ ہے کہ موسم اور موقع محل کی مناسبت سےاپنائےگئے پہناوے، پوری محفل کو ہزار چاند سے لگاتے معلوم ہو رہے ہیں۔ ایک طرف سیاہ، نیوی بلیو، رائل بلیو اور آف وائٹ ماڈرن، اسٹائلش ٹو اور تِھری پیس سوٹ زیبِ تن کیے میل ماڈلزمحفل لوٹ رہے ہیں کہ ؎ بتایا لوگوں نے، ہر رنگ ہم پہ جچتا ہے۔ 

تو دوسری جانب سلک کی پیرٹ گرین اور سیاہ رنگ، جب کہ کاٹن کی آف وائٹ سادہ سی ساڑیاں پہنےماڈل کو دیکھ کر وصی شاہ کا شعر ذہن میں کوندتا ہے۔ ؎ منہگے لباس والے سب ہی ماند پڑگئے…سادہ سی ساری میں وہ بہت شان دار ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید