• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رنگ شفق سے لے کر جیسے رخ پہ ملی ہے شام ...

تحریر: ثانیہ انور

ماڈلز: میرب، ملائکہ

ملبوسات: شاہ پوش

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

؎ واف مجھے ازل سے ملی منزلِ ابد …ہر دَور پر محیط ہوں، جس زاویےمیں ہوں۔ اس بسیط کائنات میں موجود اجرامِ فلکی، جمادات، نباتات، حیوانات اور سب سے بڑھ کر اشرف المخلوقات پر ایک اجمالی نظر بھی ڈالیں، تو عقل کی محدودیت کے باوجود یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک انتہائی منظّم اور بامقصد نظام کے تحت چل رہی ہے۔ موجوداتِ عالم ایک خاص ترتیب و توازن، تسلسل اور ضابطے کی پابند ہیں۔ 

مالکِ حقیقی، نقّاش ازلی نے یہ بساط بلاوجہ نہیں بچھا دی، اِس کے پیچھے ارادہ اور منصوبہ کارفرما ہے۔ معمولی سے معمولی ذرہ بھی اپنے وجود میں نہ صرف کامل، بلکہ نظامِ فطرت کورواں دواں رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ 

تمام مخلوقات اپنی ذمّے داریاں ادا کرتی بقا سے فنا کی منزل کی جانب گام زن ہیں اور اِسی مربوط قاعدے میں، زمین کی سورج کےگرد، اپنے محور پر گردش سے صُبح و شام، موسموں کا ظہور ہوتا ہے، ہوائیں اِس دیار سے اُس دیار بادل اُٹھائے اُٹھائے پِھرتی ہیں، جو پھر وہاں بارش کا وسیلہ بنتے ہیں۔ 

ادنیٰ سے اعلیٰ جان دار،گیاہ میں کائی سےپھول دار،پھل دار پیڑوں تک، حشرات، چرند، پرند، درند سب تفویض کردہ ذمّےداریوں سے سبک دوش ہوتے نظر آتےہیں۔ بنی نوع انسان کوبھی اپنے فرائض کی بجاآوری کے لیے محدود وقت دیا گیا ہے۔

ابتدائے آفرینش سے اب تک کے طویل سفر میں، حضرتِ انسان وقت کا ہم سفریوں قرار پاتا ہے کہ وہ اپنی فہم و فراست اور تجربہ اپنی اگلی نسلوں میں شعوری طور پر منتقل کردیتا ہے، اُسے یہ امتیاز حاصل ہے کہ ماضی کے نقوش، مستقبل پر ثبت کرسکتا ہے۔ 

وقت کے اس تسلسل نے بتِ خاکی کی عقل و دانش کے ارتقاء کو اساس مہیا کی ہے۔ وقت کوئی مطلق حقیقت ہے کہ یہ کسی بہتے دریا کی مانند ہے یا صرف ذہن کا ایک تصور؟ کیا وقت فقط کائناتی واقعات کی ترتیب، ان کے دورانیے اور درمیانی وقفے کو ماپتی ایک طبیعاتی مقدار ہے۔ ان گہری فلسفیانہ، سائنسی بحثوں میں الجھے بغیر اور وقت کے اسرار سے ناواقفیت کے باوجود بھی ہم جانتے ہیں کہ زمان و مکان کی مدد ہی سے کائنات کو دیکھا، پرکھا جاتا ہے۔

ہر زمانے کا انسان وقت کی لمبی زنجیر کی چھوٹی سی کڑی میں قید ہے، نہ اُس کی گزرے زمانے پر گرفت ہےاور نہ مستقبل پر کوئی زور۔ وہ محض مہلت کے مشاہدے سے اپنی زندگی کشید کرتا اور اپنا تجزیہ، قطار میں لگے اگلے زمانے کو فراہم کرجاتا ہے۔

صدیوں سے جاری یہ عالم گیر، اجتماعی اصول انفرادی زندگیوں پربھی لاگو ہوتا ہے۔ ماضی سے وابستگی، مستقبل کی سمت پیش رفت کے درمیان اِس حقیقت کو ہمہ وقت ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ماضی کسی طور لوٹ نہیں آئے گا، جوبیت گیا، بس بیت گیا اورمستقبل کا کچھ اتاپتا نہیں، اگلی سانس، ساعت کا اعتبار نہیں، تو کسے خبر، آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ 

سو، بس گزشتہ اورآئندہ کے بیچ ربط قائم کرتا لمحۂ موجود ہی درحقیقت دسترس میں ہے۔ زندگی سے آج جوسمیٹ لیا، صرف وہی اپنا ہے۔ محنت و ریاضت سے جو لُطف وسعادت حاصل ہوگئی، حاصل زیست ہے۔ اِسی خیال کو راشد نور نے یہ لبادہ دیا ؎ کب لمحۂ سفاک تمہیں تاک لے راشد… سو، لمحۂ موجود میں موجود رہا کر۔ ماضی کے پچھتاووں اور فکرِ فردا میں غلطاں رہنے کے بجائے حال میں زندہ رہنا، انسان کو خُود آگہی بھی عطا کرتا ہے۔ 

وہ اپنے خیالات، احساسات، رویوں سے واقف ہو پاتا ہے اور یہ امر اُسے ناکامیوں سے سنبھلنے، مشکلات سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔ حال پر دھیان، نعمتوں کی قدر دِلاتا، شُکرگزاری کی تعلیم دیتا، ساتھ ہی ارد گرد کے لوگوں سے تعلقات میں گہرائی لاتا ہے اور یوں زندگی بامعنی، خوش گوار ہوجاتی ہے۔ 

مگر… لمحۂ موجود میں رہنےکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ماضی سے سیکھنا چھوڑ دیں یا مستقبل کی منصوبہ بندی، جدوجہد ترک کردیں۔ 

مُراد یہ ہے کہ جو وقت ابھی ہاتھ میں ہے، اُسے بھرپور توجّہ دیں۔ خوش ہونے کے لیے کسی اور وقت کا انتظار نہ کریں۔ جو میسّر ہے، وہی بہترین ہے۔ شاید مغل بادشاہ بابر نے یہی سوچ کے کہا تھا کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘

خیر، کُھلی فضا میں ہریالی کی فرحت بخش تازگی اپنی رُوح میں بساتی، ڈھلتی دھوپ کی نرم حدّت سے لُطف اُٹھاتی، بادِ صبا کے لطیف جھونکوں کی مدھم آمد ورفت سے محظوظ ہوتی، ایک دوسرے کی رفاقت سے شاد، نئے انداز کے ملبوس زیبِ تن کیے، اپنے پہناووں کے پیلے، نیلے، کالے، سفید، ہرےاورلال رنگوں سے منظر میں جان ڈالتی، وقت کو اپنی یادوں کی مُٹھی میں قید کرتی یہ ہم جولیاں اپنے لمحۂ موجود کی خوش وقتی سے بہرہ مند نظر آتی ہیں۔ 

دھرتی پر دھیرے دھیرے اُترتی لالی نےاُمنگوں کو دہکا کرلمحۂ حاصل کو خوش گوار رعنائی عطا کر دی ہے۔ سُرمئی ہوتی شام، جو چند گھڑیوں میں خواب وخیال ہوجاتی ہے، مگر جس کا فسوں تا دیر رہتا ہے۔ جیسے ظہیر احمد ظہیر نے صحبتِ دیرینہ اور شام کو الگ ڈھنگ سے دیکھا، کچھ نئے رُخ سے برتا۔ ؎ رنگ شفق سے لے کر جیسے رُخ پر مَلی ہے شام… اور نکھرتا جاتا ہے وہ، جب سے ڈھلی ہے شام… دھوپ کنارہ زلفوں میں اور چاندنی گالوں پر … ایک اُفق پر چاند اور سورج! کیسی بھلی ہے شام۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید